دنیا بھر میں اسرائیلی بربریت کے خلاف مظاہرے اور
فلسطینیوں کے حق میں کی جانے والی کوششیں تاحال رنگ لاچکی ہیں، گزشتہ روز
اقوام متحدہ میں فلسطین سے متعلق بلائے گئے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اقوام
متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیوگوتریس اور پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود
قریشی سمیت بیشتر ممالک کے سربراہوں نے سخت الفاظوں میں جنگ بندی پر
زوردیا،جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے دوٹوک الفاظ میں عالمی رہنماؤں کے
سامنے فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے عالمی محافظ فوج بھیجنے کا مطالبہ بھی کیا
جس پر چند ایک کے تقریباً تمام ممالک ہی متفق دکھائی دیے یہ وہ کوششیں تھی
جس کی وجہ سے اسرائیلی اورحماس میں 11روزہ لڑائی کے بعد جنگ بندی ممکن
ہوئی۔مگر اس سے قبل ان گیارہ دنوں میں جس طرح سے اسرائیل کی جانب سے خون
خرابہ جاری رہا اسے دنیا بھر کی میڈیا نے دکھایا،یہ ہی وہ دباؤ تھا جس کے
باعث اسرائیل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ جنگ بندی
عارضی ہے کیوں ابھی فلسطین کی آزادی باقی ہے ،سچ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ
نے دنیا بھر کے دباؤ اور تنقید سے تنگ آکر یہ قدم اٹھایاہے اس سے قبل اس
سلامتی کونسل نے آگے کونسا ایسا کارنامہ یا تیر ماررکھاہے جو رہ سہ کر اسی
پر انحصارکرناباقی رہ گیاہے اسی سلامتی کونسل کی جانب سے 1948سے لیکر اب تک
درجنوں قراردادمنظور ہوچکی ہیں جس میں کشمیر تک کے مظالم کی داستانوں کا
زکر رہاہے مگر ماسوائے اس سلامتی کونسل نے تشویش کرنے کے کوئی عملی قدم نہ
اٹھایا ہے۔جہاں مسلم امہ کی بات ہے توا ن ستاون مسلم ممالک میں سے
بیشترمسلم ریاستوں اور عرب ممالک تو باضابط طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے
کا اعلان بھی کرچکے ہیں ،اور کچھ اسلامی ریاستیں اپنے سفارتی تعلقات اور
امریکی پالیسیوں کے زیراثر رہتے ہوئے صرف بیانات اور مذمتوں سے ہی کام
چلارہی ہیں ،اور نہتے فلسطینی اپنے مسلم بھائیوں کے انتظار میں اپنا دفاع
پتھروں سے کرتے رہے، جبکہ ترک صدر رجب طیب اروان اور روس کے صدر لادی میر
پیوٹن نے آپس میں ٹیلی فونک گفتگو میں اس بات پر زوردیا ہے کہ صرف مسلم
ممالک ہی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کو مل کر اسرائیل کو سبق سکھانا
چاہیے مگر میں تو یہ کہونگا کہ صرف مسلم ممالک کے یہ ستاون ممالک میں سے
ابتدا میں ہی کچھ ممالک نے مشترکہ انداز میں قدم آگے بڑھایا تو شاید معاملہ
ایک بڑی جنگ سے پہلے ہی ٹل جائے گا یعنی پھر بات ہر سال جنگ بندی پر نہیں
جاکر ٹھرے گی بلکہ پھر بات فلسطین کی آزادی پر ہی جاکر ختم ہوگی،آج چاہے
کشمیر کا مسئلہ ہو، بات برماکے مسلمانوں کی ہو یا پھر فلسطین کی آزادی کی
دشمن ہمارے بکھرے ہوئے وجود کا فائدہ اٹھارہا ہے اور یہ جانتا ہے کہ ہم
دنیاوی آسائشوں میں رہ کر اپناسکون اور اقتدار کھونے سے ڈرتے ہیں مگر جس دن
ہم نے اسی دشمن کو مل کر للکارا تو میرا دعویٰ ہے کہ تمام مسلم ریاستیں مل
کر پوری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرا سکتے ہیں، کیونکہ قبلہ اول او ر مسلم
بہن بھائیوں کی حفاطت کسی ایک کی نہیں بلکہ ہم یہ ہم سب کا مشترکہ فرض
ہے،اس کے برعکس اسرائیل متعدد غیر مسلم ریاستوں سے اپنے تعلقات دن بدن تیزی
سے استوار کررہاہے،یہاں تک اسرائیل بھارت اور افغانستان میں بھی اپنے پنجے
گاڑ چکاہے یہاں بھی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اپنا نیٹ ورک چلارہی ہے ،
اسرائیل اپنے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک سے خود کو بہت طاقتور تصور کرنے لگاہے،اس
میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی ریاست کا وجود امریکا اور برطانیہ کی
کوششوں سے ناجائز طریقہ کار سے وجود میں آیا جوآج اپنے اس ظلم کی بدولت
پوری دنیا میں دہشت گردی کی علامت بن چکا ہے ،اس کے باوجود عالمی طاقتیں جو
مسلمانوں کے وجودسے حقارت کرتے ہیں مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی کررہی
ہیں،یہ سب جانتے ہوئے کہ یہ آگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ،ایک
بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت اور بمباری کے خلا ف بڑی جاندار
آوازیں سنائی دے رہی ہیں، جس امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کی سرپرستی میں
اسرائیلی نے فلسطین میں دہشت گردی پھیلا رکھی ہے ان ممالک کی اہم شاہراہوں
پر آج کل اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں ان ممالک
میں یہ نعرے تک لگائے ہیں کہ امریکا اسرائیل کی پشت پناہی ختم کرے تاکہ
فلسطین میں انسانیت کا قتل عام بند ہوسکے، جبکہ یورپین ممالک سمیت تقریبا ً
تمام ممالک کے تجزیہ کار اورکالم نگار اس جارحیت کی بھرپور انداز میں مذمت
کررہے ہیں، اس کے علاوہ اگر ہم مسئلہ فلسطین کی بات کریں تو یہ کشمیر
تنازعے کی طرح دنیا کے ان مسئلوں میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے کہ جس کا حل ابھی
تک مفادات کی بھینٹ چڑھتارہاہے، جبکہ فلسطین کا مسئلہ کو ئی آج کا نہیں ہے
1967میں بیت القدس پر قبضے کے بعد سے تاحال اسرائیلی یہودیوں کی جانب سے
نہتے فلسطینیوں پر کبھی تسلسل تو کبھی وقفے وقفے سے حملے ہورہے ہیں، گزشتہ
دنوں یعنی 10مئی جمعتہ الوداع کے دن بھی اسرائیل نے بغیر کسی وجہ کے اچانک
مسجد اقصیٰ پر حملہ کردیاتھااور اسرائیلی اسلحے سے لیس فوجیوں کی جانب سے
نماز پڑھتے ہوئے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا،اس روزمسجد اقصیٰ کے اسپیکر
سے ایک آواز سنائی دی جو صلاح الدین ایوبی کو پکار رہی تھی لوگوں نے سنا کہ
کوئی نمازی مسجد اقصیٰ کے اسپیکر سے صلاح الدین تو کہاں ہے کہ صدائیں بلند
کررہاتھااورصدائیں بلند کرنے والا اسرائیلی فوجیوں کو کہہ رہاتھا کہ تمھیں
ہماری لاشوں سے گزر کر مسجد میں جانا ہوگا،یہ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ
57مسلم ممالک مل کر بھی 11روز تک فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے کو نہ رکوا
سکے ،مسلم امہ کے سامنے غزہ شہر دھماکوں سے گونجتا رہا اب تک اسرائیلی
حملوں سے سینکڑوں معصوم بچے خواتین اورجوان ان حملوں میں شہد ہوچکے ہیں ،
کہیں گھروں کو بارود کا ڈھیر بنایا جارھاہے، کبھی اسکولوں تو کبھی مساجد کو
نشانہ بنایا جارھاہے،مسجد اقصیٰ سے نکلنے والی اس دردناک پکار کو میڈیا کے
زریعے پوری دنیا نے سنا ہوگامگر افسوس جس نوجوان نے مسجد سے صلاح والدین
ایوبی کو پکارا تھا وہ صلاح الدین ابھی تک نہیں پہنچ پایاہے، پکارے والا
جانتا تھا کہ صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کوکیسے فتح کیا تھا کس طرح سے
اپنے مذہبی مقامات پر صہونی طاقتوں کے پرچم اتار کر اسلام کا پرچم لہرا یا
تھا،مگر افسوس ابھی تک ڈیڈھ ارب سے زائدمسلمانوں میں سے ابھی تک کسی ایک
صلاح دین ایوبی نے اس کی پکار کا جواب نہیں دیاہے کیونکہ فلسطینیوں کو جنگ
بندی نہیں آزادی چاہیے ۔ |