ظالم کی فریاد

سر پر سونے کا تاج تھا منہ پر کالک تھی اور کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔کئی سال سے وہ ذلت کے گھڑے میں اپنی زندگی گزار رہا تھا۔وہ ایک ایسی جگہ پر اپنی زندگی گزار رہا جدھر سارے شر کا گند اکھٹا کیا جاتا تھا۔اس کا کھانا پینا اور سونا جاگنا اسی جگہ پر تھا۔کبھی کسی کا وہاں سے گزر ہوتا تو وہ اس شخص کو دیکھ کر بہت حیران رہتے تھے۔وہ کوئی عام انسان نہیں تھا وہ ایک بہت مشہور شخص تھا وہ جس شہر کے گند کے پاس اپنی زندگی گزار رہا تھا وہ اس شہر کا حاکم رہ چکا تھا۔اس شخص نے اپنے دور حکومت میں اس شہر پر بہت ظلم کیا تھا اور وہ اس حال میں زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔اس کی زندگی کے حال اور اس کا اندازہ کسی کو نہ تھا کہ وہ کیسے غائب ہو گیا اور آج کل کہاں رہتا ہے۔یہ بات ایک صحافی تک پہنچی تو اس نے اس عبرت زدہ بادشاہ پر دستاویزی فلم بنانے کا ارادہ کیا۔وہ اپنی ٹیم کے ساتھ اس جگہ پر پہنچا اور اس حاکم کو کیمرے کے سامنے اپنے حالات اپنی زبان کے ذریعے اس کیمرے میں داخل کرنے تھے جس کو ساری دنیا نے دیکھنا تھا۔یہ وہی کیمرہ تھا جس کے سامنے آنے پر اس کو خوشی کا احساس ہوتا تھا اور اب یہ وہی کیمرہ تھا جو اس کو تماشا بنا کردنیا کو دیکھایا جانا تھا۔

کیمرے کو اس کے چہرے کے سامنے لگا دیا گیا تھا اور اس کو اپنی زندگی کو دنیا کے سامنے رکھ دینے کا کہا گیا۔شائد وہ یہ سب نا کرتا مگر وہ شائد سمجھتا تھا کہ ایک دن مظلوم قوم اپنے حاکم کو اس حال میں دیکھے گی تو واپس لینے لوٹ آئے گی۔کیمرہ چلا دیا گیا اور ظالم نے آں کھوں میں آنسو بھرتے او پتلی آواز میں بولنا شروع کر دیا۔گندگی کے ڈھیر کے پاس بیٹھا ظام اور اس کا سونے کا تاج اور کالک زدہ چہرہ کیمرے میں صاف دیکھا جا سکتا تھا۔

’’میرے نام سے آپ سب واقف ہے اور آج میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں ظالم خود ایک نام ہے۔جب میں اپنے شہر کا حاکم تھا تب اس شہر کو مظلوموں کا شہر جانا جاتا تھا۔ ادھر کے حالات میری مٹھی میں تھے میرے ایک شارے پر پورے شہرے میں کہرام مچ جاتا تھا۔جب مجھے تخت پر بٹھایا گیا تو میں پورے شہر میں نے محصولات کی بارش کر دی تھی،میں نے تسلیم کر لیا تھا کہ میں اب اس شہر کا خدا ہوں اور یہ سب میری مخلوق،تخت پر بیٹھتے ہی دنیا جہاں سے میرے تحفے اور نیک خواہشات آنا شروع ہو گئی میں سمجھاتھا میرا نا ختم ہونے والا دور شروع ہو گیا مجھے جن جانوں پر مسیحا بنایا گیا تھا میں انہی جانوں کا بہت بڑا سوداگر بن گیا تھا عوام میرے ایک اشارے پر جھوم اْٹھتی تھی مگر میں نے انہی اشاروں کا غلام بنا لیا تھا،میرا ماننا تھا ان میں میرا خوف میری سرداری قائم رکھے گا،میں جس عورت پر ں ظر رکھتا تو پھر میں یہ نہیں سوچتا تھا کہ وہ کسی کی بہن،بیٹی یا ماں ہے میں اس کو اپنے محل میں لاکر اس کو اپنے لئے لطف کا سامان بنا لیتا تھا،کچھ ہی عرصے میں پورا شہر میرے نام سے کپکپکانے لگا،میں نے اپنی مرضی کے وزیر مشیر مقرر کیے اور عوام پر مسلط کر دیے،حسن میرے محل میں ناچتا تھا،میرے محل کے کتے بھی میری عوام سے بہتر کھانا کھاتے تھے،مجھے عوام میں غریبی پسند تھی مگر غریب عوام پسند نہیں تھی،جس تاجر سے محصول نہ ملتا میں اس کے گھر کی اینٹیں بھی باقی نہیں رہنے دیتا تھا،ایک دن ایسا ہوا سارا شہر اکھٹا ہو کر میرے محل کے باہر آگیا اور مجھ سے رحم کی بھیک مانگنے لگا،میں نے محل کی چھت پر کھڑا ہو کر یہ سارا منظر دیکھا تھا وہ سب میرے سامنے جھکے ہوئے تھے،میں نے اس منظر سے بڑا لطف اْٹھایا میں سمجھا تھا میری جیت اور بھیک مانگنا ان کی اوقات ہے میں نے ساری عوام کو کہا اگر انہوں نے یہاں سے واپسی کا ارادہ نہ کیا تو یہاں سے سب کی لاشیں جائے گی میرے سپاہیوں نے سب کو بھگا دیا اور میں جیت گیا ایک دن میں اپنے محل سے باہر نکل رہا تھا تو ایک عورت کھڑی جھولی اْٹھائیں کچھ میں منہ میں پڑ رہی تھی میں نے اس عورت سے دریافت کیا" تو وہ بولی "اے ظالم میں تیرے لئے بدعا کر رہی ہوں اور میں اب یہی کرتی رہوں گی میں ایک ماں ہوں جس کی اولاد تیرے ظلم کی نظر ہوئی ہے اس مظلوم ماں کی وہ ضرور سنے گا‘‘۔

ظالم رکا اور پھر بولا"میں نے اس کی بات پر اس کے منہ پر تھوک دیا مگر اس عورت نے تھوک صاف کر کے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا،اس کی ہنسی دیکھ کر میں پہلی دفعہ اتنا ڈرا تھا مجھے اس کی ہنسی سے خوف آرہا تھا،اس دن کے بعد شہر میں انقلاب نے جنم لیا ساری رعایا اپنے بادشاہ سے چھٹکارا چاہتی تھی مجھے یقین تھا میں ان کو روک لوں گا لوگوں کا سمندر محل کی طرف امڈ آیا میں نے حکم نامہ جاری کر دیا کہ سب کو ختم کر دیا جائے پہلے تو میرے حکم پر ان پر حملہ کر دیا گیا مگر پھر میرے وزیروں نے میرے خلاف ب?غاوت کر دی ان کا کہنا تھا جناب اگر ان سب کو ختم کر دیا گیا تو حکومت کس پر کرے گے،میں سمجھ گیا تھا میرا دور حکومت ختم ہو گیا ہے جس کو میں ہمیشہ رہنے والی حکومت سمجھا تھا وہ اپنے اختتام پر پہنچی ہے،میں نے اپنے محافظ کی نگاہوں میں اپنے لئے خون دیکھا تو میں ڈر گیا میرا سایہ بھی مجھ سے انتقام لینا چاہتا تھا،میرے محافظوں میں ایک نے میرے منہ پر کالک مل دی اور میرے کپڑے پھاڑ دیے اور کہنے لگا حضور جس اوقات کے مالک تھے میں نے آپ کو وہ شکل دے دی ہے آپ اسی عوام میں سے ہو کر نکل جائے آپ کو کوئی نہیں پہچانے گا اور میں دیوانوں کی طرح وہاں سے بھاگ آٰیا"ظالم کی آنکھوں میں آنسو آ گے وہ اپنے بات جاری رکھے ہوئے تھا۔

’’محل سے نکالا گیا تو کسی جھونپڑی میں جگہ نصیب نہیں ہوئی دولت میں نہانے والا کسی سے ایک آنا مانگنے کی ہمت نہ ہوئی میرے اندر کہی بادشاہ زندہ تھا سچ پوچھے تو میری انا مجھے بادشاہ بنائے ہوئی تھی،یہ تاج میں چھپا لایا تھا اس کو میں نے اپنے سر پر سجا لیا اور منہ کی کالک میری گناہوں کی سزا تھی اور یہ گندگی کا ڈھیر میرا محل بن گیا،سچ پوچھے تو مجھے اپنی موت سے بھی خوف آتا ہے میں سمجھ گیا ہوں ظالم اگر اپنے منصب پر ہدایت حاصل نہ کر پائے اگر اس کے اندر کی انا تخت پر ختم نہ ہو تو وہ ظالم ہی رہے گا وہ اپنی قیامت کا آغاز اپنی زندگی میں ہی کر لے گا اور نہ ختم ہونیوالے وقت میں داخل ہو جائے گا وہ کیا کرے گا کس سے معافی مانگے گا میں نے جو ظلم کیے وہ بدل نہیں سکتے جن گھروں کے چراغ بجھائے وہ دوبارہ جل نہیں سکتے جن ماؤں کے دلوں کو زخم لگے وہ آج بھی میرے لئے بدعا کرتی ہے میں وہ ظالم جس کا ماضی ظالم اور حال مظلوم ہے مگر میری ذات رحم کے قابل نہیں ہے شائد کیونکہ مجھے رحم سیکھنے کے لئے اس ذلت کو دیکھنا تھا اور میں اسی کے قابل ہوں‘‘ ظالم رکا اور ہچکیاں بھرتے ہوئے کہنے لگا۔

’’میں فریاد کرتا ہوں ان حکمرانوں سے جن کو تخت ملا ہے وہ میری حالت کو دیکھ عبرت حاصل کرے میں وہ ہوں جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے لوگوں نے سجدے کیے ہے تخت کو خدا کی امانت سمجھے اپنی جاگیر نہ سمجھے ورنہ آپ کی رعایا آپ کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرے گی اور منہ پر کالک لگائے اپنے ہی لوگوں سے چھپنا زندگی اور گند کا ڈھیر ان کا محل ہوتا ہے،مجھ ظالم کی فریاد ہے ظالم حقیقت کو اپنی دور حکومت میں سمجھے ورنہ تنیجہ سمجھاتا نہیں ہے دکھاتا ہے‘‘ صحافی کے چہرے پر بھی اس کے لئے غصے اور رحم کے ملے جلے آثار تھے۔ٹیم نے اپنا سامان سمیٹا اور وہاں سے چلے گے۔

کچھ دن میں وہ ٹی وی چینل پر نشر ہوا اور ساری دنیا نے ظالم کی روداد سنی۔ جس دن یہ فلم نشر کی گئی اس سے اگلے دن ہی یہ خبر نشر ہوئی کہ مشہور زمانہ اور فرار ظالم حاکم کی لاش گند کے ڈھیر کے قریب پائی گئی جس کو کسی نے بڑی بے دردی سے ہلاک کر دیا۔

 

Bilal Shaikh
About the Author: Bilal Shaikh Read More Articles by Bilal Shaikh: 15 Articles with 9720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.