تحریر: اسماء یعقوب جالندھری ، ملتان
امی! آج چھٹی کروا دیں ناں! نو سالہ شاہ زیب بستر پر لیٹے مندی آنکھوں سے
ماں کو دیکھتے ہوئے بولا۔ نہیں! بالکل بھی نہیں! خولہ نے رضائی پیچھے ہٹائی۔
اچھا دیکھیں ناں مجھے بخار بھی ہو رہا ہے اس نے ماں کا ہاتھ اپنے ماتھے پر
رکھتے ہوئے بوجھل آنکھوں سے دیکھا۔ آپ کو تو بخار نہیں ہے، وہ شرارت سے
مسکرائیں۔
اور وہ میرے جوتے کا تسمہ بھی تو ٹوٹا ہوا ہے ناں؟ میرے پاس نئے جوتے بھی
نہیں ہیں۔ شاہ زیب شاکی لہجے میں بولا۔ اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔
اچھا اب یہ شکایتی پیریڈ بعد میں شروع کرنا جلدی سے اٹھ جاؤ۔ آپ تنگ کرتے
ہو زین اچھا بچہ ہے۔
نہیں ہم دونوں اچھے بچے ہیں، میں اب آپ کو تنگ نہیں کروں گا،نئے جوتے بھی
نہیں مانگوں گا وہی پرانے والے ٹھیک ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا؟ اس نے سوالیہ
نظروں دیکھا۔ اور مدرسے بھی جاؤں گا ہمارے استاد کہہ رہے تھے کہ والدین کی
اطاعت پر جنت ملتی ہے، ابو تو ہے نہیں لیکن آپ تو ہے ناں؟ اس نے نظر اٹھا
کر دیکھا شاہ زیب کی آنکھوں میں آنسو جھلملائے۔ خولہ کا دل پسیج گیا۔
آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے۔ امی! ابو کہاں گئے ہیں؟ کیا وہ آپ کبھی واپس نہیں
آئیں گے؟ وہ مسی سی صورت بنائے ماں سے پوچھ رہا تھا اتنے میں زین بھی کمرے
میں داخل ہوا اور شاہ زیب کو رنجیدہ دیکھ کر دل افگار ہوگیا۔ بیٹا! آپ کے
ابو شہید ہوئے ہیں۔
وہ بہت اچھی جگہ پر ہیں، ہم بھی ان کے پاس جائیں گے۔ تو پھر ابھی چلیں؟
شاہزیب نے معصومیت سے پوچھا۔ نن۔۔۔۔۔ نہیں ابھی نہیں ہاں مگر جب بلاوا آگیا
تب ضرور جائیں گے۔ ابھی آپ دونوں نے علم حاصل کرنا ہے پھر دین کے خدمت کرنی
ہے۔ باطل کو مٹانا ہے اور حق کا پرچم بلند کرنا ہے۔ خولہ جذب کہ عالم میں
کہتی جا رہی تھی۔ بالکل ابو کی طرح ناں؟ جی بیٹا! بالکل اپنے ابو کی طرح۔
وہ دونوں کو خود سے لپٹاتے وہ بولی۔ چلو جلدی سے ناشتہ کرلو مدرسہ بھی جانا
ہے۔
خولہ نے جلدی جلدی میں کہا۔ٹھیک ہیے۔دونوں سعادت مندی سے بولے۔فضا میں ہلکی
پھلکی خنکی چھائی ہوئی تھی، یہاں پشاور کا ماحول کافی خوشگوار تھا۔ وہ کچن
سمیٹ کر گھر سے متعلقہ چھوٹے سے لان میں پودوں کو پانی دے رہی تھی۔ باہر
دروازے پر زوردار دستک نہیں اسے چونکا دیا۔ اس وقت کون ہو سکتا ہے؟ وہ گھڑی
پر نظر ڈالتے ہوئے بڑبڑاتی ہوئی بیرونی دروازے پر جا پہنچی۔ دروازہ کھلتے
ہی سامنے فاخرہ آپا کو دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئی۔ ان کی سانسیں پھولی ہوئی
تھی، ٹانگیں تھرتھر کانپ رہی تھی، چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھی۔ بب۔۔۔۔ با
۔۔۔۔۔جی! ۔۔۔ غضب ہوگیا۔
ہم۔۔۔۔ ہم برباد ہوگئے۔ اس کے چہرے پر سراسیمگی چھائی ہوئی تھی۔ کیا کہ رہی
ہو فاخرہ؟ خیریت تو ہے ناں؟ خولہ نا سمجھتے ہوئے بولی مگر اس کی آنکھوں میں
تشویش تھی۔ خیریت ہی تو نہیں ہے باجی۔ ٹی وی پر خبر چل رہی ہے کہ پشاور
مدرسے میں سانحہ ہوا ہے، کئی ننھے بچے شہید ہوگئے ہیں ان میں شاہ زیب اور
زین کے تصاویر بھی ہیں۔ بہت سے استادزہ اکرام اور طالب علم زخمی ہیں۔ وہ
یاسیت کے عالم میں بولتی جا رہی تھی۔
خولہ ساکت و جامد ہوکر رہ گئی۔ ایسے لگا جیسے فضا رک سی گئی ہو۔ اس کی
پلکوں کے جھالر سے آنسو ٹوٹ کر نیچے لان کی مٹی میں ہی کہیں جذب ہوگئے۔ اس
کے اردگرد گہری رات جیسا سکوت چھا گیا تھا۔ با۔۔۔ باجی! سنبھالیں خود کو۔
خاموشی کو چیرتی ہوئی فاخرہ کی آواز سے وہ اپنے حواسوں میں واپس آئی۔ خولہ
کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ سجدہ شکر بجا لائے یا آہ فغا کرے۔ اس کے دو
ننھے بچے مرے نہیں تھے بلکہ انہوں نے قرآن کی گونجتی آوازوں میں شہادت کے
رتبے کو پالیا تھا۔ میرے بچے مرے نہیں ہے،وہ تو شہید ہیں، شہید کو قبر میں
اﷲ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے۔ میں تو دو شہید بچوں کی ماں ہوں ماں۔۔۔۔ وہ
زیر لب بڑبڑاتے ہوئے لان میں پڑی کرسی پر ڈھے گی۔ وفور جذبات سے اس کی
آنکھیں آنسوؤں کا تالاب بہانے کو تیار تھی کر اس نے ان آنسوؤں کو آنکھوں
میں ہی کہیں جذب کرلیا۔ وہ اس موقع پر صبر کا دامن تھام کر اﷲ کی رضا میں
راضی رہنا چاہتی تھی، وہ جانتی تھی کہ اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
فاخرانہ نم آنکھوں سے دیکھا تو خولہ جیسی ماں صبر کا پہار نظر آئی۔
|