صلاح الدین ایوبی کی تلاش ۔

حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے روزمرہ کی مذمت اور مطالبات کی خبریں سن سن کرکان پک چکے ہیں ایسا لگتاہے کہ اسرائیلی اسی انتظار میں ہیں کہ پاکستان سمیت مسلم امہ کے حکمران ان کی حرکتوں کی مذمتیں کریں گے تو تب جاکر ہم فلسطینیوں پر سے بمباری کا عمل روکیں گے۔دوسری جانب قومی اسمبلی میں اسرائیلی بمباری کے خلاف قراردادمذمت کی منظوری کی خبر کو نیوز چینلوں نے کچھ اس طرح سے بریک کیاکہ بس فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کے لیے ہمیں اسی مذمتی قرار داد کا انتظارتھاایک لمحے کو تو ایسا لگاکہ گویا اب فلسطین کی آزادی کے دن قریب آگئے ہیں اور اسرائیل کی شامت کے دن بھی شروع ہوگئے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ57مسلم ممالک کی جانب سے کون سا ایسا مشترکہ لائحہ عمل سامنے آیا ہے کہ یہ تمام مسلم امہ کے ممالک ایک آوازہوکر اپنے مطالبے کو پیش کریں ماسوائے یک دوسرے کو ٹیلی فون اور خطوط کے زریعے آگاہی فراہم کرنے کے۔ ہماری جس قومی اسمبلی سے اسرائیلی بربریت کے خلاف قرارداد مذمت میں جس سلامتی کونسل سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا جارھاہے اس سلامتی کونسل نے آگے کونسا ایسا کارنامہ یا تیر ماررکھاہے جو رہ سہ کر اسی پر انحصارکرناباقی رہ گیاہے اسی سلامتی کونسل کی جانب سے 1948سے لیکر اب تک درجنوں قراردادمنظور ہوچکی ہیں جس میں کشمیر تک کے مظالم کی داستانوں کا زکر رہاہے مگر ماسوائے اس سلامتی کونسل نے تشویش کرنے کے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا ہے۔ جبکہ مسلم امہ کی واحد تنظیم اوآئی سی کا بھی یہ ہی کارنامہ ہے جس کے ہاتھ شاید مغربی طاقتوں نے بری طرح سے باندھ رکھے ہیں، جبکہ یہ 57مسلم ممالک اسرائیلی دہشت گردی کے باوجود مشترکہ طورپر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ہی نہ کرسکے ہیں یہ بھلا مل کر کس طرح سے فلسطینیوں کی مدد کے لیے ایک ہوسکتے ہیں۔
مسلم امہ کی اسی بے حسی پر شایدعلامہ اقبال نے فرمایا تھاکہ۔
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود ۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ تم تھے بھی کہیں مسلم موجود۔
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود۔
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائے یہود ۔
یوں تو سید بھی ہو مرزابھی ہوافغان بھی ہو۔
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!

ا ن ستاون مسلم ممالک میں سے بیشترمسلم ریاستوں اور عرب ممالک تو باضابط طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں ،اور کچھ اسلامی ریاستیں اپنے سفارتی تعلقات اور امریکی پالیسیوں کے زیراثر رہتے ہوئے صرف بیانات اور مذمتوں سے ہی کام چلارہی ہیں ،اور نہتے فلسطینی اپنے مسلم بھائیوں کے انتظار میں اپنا دفاع پتھروں سے کررہے ہیں، جبکہ ترک صدر رجب طیب اروان اور روس کے صدر لادی میر پیوٹن نے آپس میں ٹیلی فونک گفتگو میں اس بات پر زوردیا ہے کہ صرف مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کو مل کر اسرائیل کو سبق سکھانا چاہیے مگر میں تو یہ کہونگا کہ صرف مسلم ممالک کے یہ ستاون ممالک میں سے ابتدا میں ہی کچھ ممالک نے مشترکہ انداز میں قدم آگے بڑھایا تو شاید معاملہ ایک بڑی جنگ سے پہلے ہی ٹل جائے گا کیونکہ دشمن ہمارے بکھرے ہوئے وجود کا فائدہ اٹھارہی ہے اور یہ جانتی ہے کہ ہم دنیاوی آسائشوں میں رہ کر اپناسکون اور اقتدار کھونے سے ڈرتے ہیں مگر جس دن ہم نے اسی دشمن کو مل کر للکارا تو میرا دعویٰ ہے کہ تمام مسلم ریاستیں مل کر پوری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرا سکتے ہیں، کیونکہ قبلہ اول او ر مسلم بہن بھائیوں کی حفاطت کسی ایک کی نہیں بلکہ ہم یہ ہم سب کا مشترکہ فرض ہے،اس کے برعکس اسرائیل متعدد غیر مسلم ریاستوں سے اپنے تعلقات دن بدن تیزی سے استوار کررہاہے،یہاں تک اسرائیل بھارت اور افغانستان میں بھی اپنے پنجے گاڑ چکاہے یہاں بھی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اپنا نیٹ ورک چلارہی ہے ، اسرائیل اپنے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک سے خود کو بہت طاقتور تصور کرنے لگاہے یہ ہی وجہ ہے کہ اب تک ہر گزرتے دن کے ساتھ فلسطین اسرائیلی حملوں میں تیزی آرہی ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی ریاست کا وجود امریکا اور برطانیہ کی کوششوں سے ناجائز طریقہ کار سے وجود میں آیا جوآج اپنے اس ظلم کی بدولت پوری دنیا میں دہشت گردی کی علامت بن چکا ہے ،اس کے باوجود عالمی طاقتیں جو مسلمانوں کے وجودسے حقارت کرتے ہیں مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہیں،یہ سب جانتے ہوئے کہ یہ آگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ،ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت اور بمباری کے خلا ف بڑی جاندار آوازیں سنائی دے رہی ہیں، جس امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کی سرپرستی میں اسرائیلی نے فلسطین میں دہشت گردی پھیلا رکھی ہے ان ممالک کی اہم شاہراہوں پر آج کل اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں ان ممالک میں یہ نعرے تک لگائے ہیں کہ امریکا اسرائیل کی پشت پناہی ختم کرے تاکہ فلسطین میں انسانیت کا قتل عام بند ہوسکے، جبکہ یورپین ممالک سمیت تقریبا ً تمام ممالک کے تجزیہ کار اورکالم نگار اس جارحیت کی بھرپور انداز میں مذمت کررہے ہیں، اس کے علاوہ اگر ہم مسئلہ فلسطین کی بات کریں تو یہ کشمیر تنازعے کی طرح دنیا کے ان مسئلوں میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے کہ جس کا حل ابھی تک مفادات کی بھینٹ چڑھتارہاہے، جبکہ فلسطین کا مسئلہ کو ئی آج کا نہیں ہے 1967میں بیت القدس پر قبضے کے بعد سے تاحال اسرائیلی یہودیوں کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر کبھی تسلسل تو کبھی وقفے وقفے سے حملے ہورہے ہیں، گزشتہ دنوں یعنی 10مئی جمعتہ الوداع کے دن بھی اسرائیل نے بغیر کسی وجہ کے اچانک مسجد اقصیٰ پر حملہ کردیاتھااور اسرائیلی اسلحے سے لیس فوجیوں کی جانب سے نماز پڑھتے ہوئے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا،اس روزمسجد اقصیٰ کے اسپیکر سے ایک آواز سنائی دی جو صلاح الدین ایوبی کو پکار رہی تھی لوگوں نے سنا کہ کوئی نمازی مسجد اقصیٰ کے اسپیکر سے صلاح الدین تو کہاں ہے کہ صدائیں بلند کررہاتھااورصدائیں بلند کرنے والا اسرائیلی فوجیوں کو کہہ رہاتھا کہ تمھیں ہماری لاشوں سے گزر کر مسجد میں جانا ہوگا،یہ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ 57مسلم ممالک مل کر بھی فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے رکوانہ سکے ہیں،کشمیر برمااور فلسطین کے معاملے میں خاموشی سے شتر مرغ کی طرح منہ چھپانے سے کچھ نہیں ہوگا،شاید اسی دن کے حوالے سے علامہ اقبال نے کہاتھا کہ۔
اگر جواں ہو ں میری قوم کے جسوروغیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں۔

غزہ شہر دھماکوں سے گونج رہاہے اسرائیلی حملوں سے سینکڑوں معصوم بچے خواتین اورجوان ان حملوں میں شہد ہوچکے ہیں ہزاروں زخمی ہیں جن کی آہ وبکا کوکوئی سننے والا نہیں ہے ، کہیں گھروں کو بارود کا ڈھیر بنایا جارھاہے، کبھی اسکولوں تو کبھی مساجد کو نشانہ بنایا جارھاہے،مسجد اقصیٰ سے نکلنے والی اس دردناک پکار کو میڈیا کے زریعے پوری دنیا نے سنا ہوگامگر افسوس جس نوجوان نے مسجد سے صلاح والدین ایوبی کو پکارا تھا وہ صلاح الدین ابھی تک نہیں پہنچ پایاہے، پکارے والا جانتا تھا کہ صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کوکیسے فتح کیا تھا کس طرح سے اپنے مذہبی مقامات پر صہونی طاقتوں کے پرچم اتار کر اسلام کا پرچم لہرا یا تھا،مگر افسوس ڈیڈھ ارب سے زائدمسلمانوں میں سے ابھی تک کسی ایک صلاح دین ایوبی نے اس کی پکار کا جواب نہیں دیاہے ۔


 

Muhammad Naeem Qureshi
About the Author: Muhammad Naeem Qureshi Read More Articles by Muhammad Naeem Qureshi: 18 Articles with 18837 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.