یہ ”چُپ“ سی کیوں لگی ہے، اجی کچھ تو بولیے

اگر بین الاقوامی سطح پر یہ طے کردیا جائے کہ بولنا اور محض بولتے رہنا ہی ترقی کی حقیقی علامت ہے تو تمام پاکستانیوں کو یقین ہو جانا چاہیے کہ پوری دُنیا میں اُن سے زیادہ ترقی یافتہ کوئی ہے، نہ ہوسکتا ہے! ہم پاکستانیوں کے لیے خاموش رہنا شاید زندگی کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ دو گھڑی چُپ رہنا بھی اب ایک عمر کی مشقت کے مساوی دکھائی دیتا ہے۔ بولنے کے نام پر شور مچانے کو قومی فریضہ سمجھ لیا ہے۔ بہتوں کو دیکھا ہے کہ خاموش رہنے کو بظاہر قومی مفاد کے منافی گردانتے ہیں! یا شاید اُنہیں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ نہ بولنے سے شرفِ انسانیت چھین لیا جائے گا، حالاں کہ ہمارے خیال میں زیادہ بول کر وہ ضرور اِنسانوں کی کیٹیگری سے نکلتے دِکھائی دیتے ہیں! بعض کے نزدیک یہ بھی جبری بھرتی والا معاملہ ہے، یعنی بولنا لازمی قومی خدمت ہے! شاید اِسی لیے وہ جب بھی بولتے ہیں بھرتی کا بولتے ہیں! بلا جواز بولنے اور شور مچانے کو لوگوں نے اپنے مزاج میں کچھ اِس طرح بھرتی کرلیا ہے کہ اُس کے لیے اب بھگوڑا ہونے کی ذرا بھی گنجائش نہیں رہی!

دُنیا بھر کے ماہرین نفسیات بھی اگر پاکستانی قوم کی نفسیاتی ساخت پر غور کریں تو چکرا جائیں اور سب سے پہلے اُنہیں اپنے علاج کی فکر دامن گیر ہو! چند لمحات خاموشی کے آغوش میں گزر جائیں تو ہمیں اپنی ذہنی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ گمان گزرتا ہے کہ کہیں دار فانی سے کوچ تو نہیں کرگئے۔ پھر اپنے ہونے کا یقین بحال کرنے کے لیے ہم تازہ ہوکر پوری قوت سے گفتگو اور شور کا ملغوبہ تیار کرنے لگتے ہیں! یاروں نے صوتی آلودگی کو قومی خزانہ سمجھ لیا ہے اور حسب توفیق اُس میں اپنا حِصہ ڈالتے رہتے ہیں! ”عطیہ“ کرنے کے بھی مختلف اور منفرد طریقے ہیں۔ مثلاً موٹر سائیکل کا سائلنسر نکال لینا، بچوں کو اِس ایجنڈے کے ساتھ گلی میں بھیجنا کہ ایک لمحے کو بھی چُپ نہیں رہنا، ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ٹاک شو کے اینکر اور شرکاءکی آواز میں آواز ملانا، پانی بھی مانگنا تو حلق اور پھیپھڑوں کو پوری قوت سے حرکت دینا وغیرہ وغیرہ۔ محسوس یہ ہوتا ہے جیسے کوئی سر پر توپ لئے کھڑا ہے کہ ہم ذرا خاموش ہوئے تو وہ توپ چلا دے گا! اِس بے بنیاد احساس کے ہاتھوں مجبور ہوکر لوگ منہ کی توپ چلاتے رہتے ہیں!

مرزا تنقید بیگ کو بولنے کا ”ہَوکا“ ہے اِس لیے ہمارے خاموش رہنے سے اُنہیں باضابطہ چڑ ہے۔ اُن کا مشورہ یہ ہے کہ خاموش رہنا ہے تو قبرستان میں جا بسو۔ اب ہم اُنہیں کیا سمجھائیں کہ ہم قبرستان ہی میں تو قیام پذیر ہیں۔ جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں وہ اب چلتی پھرتی، بولتی، چیختی، چلّاتی لاشوں سے اٹا پڑا ہے!

مرزا کا ایک بنیادی استدلال یہ ہے کہ مُنہ آخر ہوتا کس لیے ہے؟ کھانے کے لیے یا پھر بولنے کے لیے! ہم نے با رہا اُنہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مُنہ کا ایک مصرف یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اُسے پُھلاکر اِنسان، چند دنوں ہی کے لیے سہی، کسی کی زندگی سے نکل جائے اور اُسے سُکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرکے دُعائیں لے! اِس پر مرزا جو کچھ فرماتے ہیں اُسے غالب نے ذرا سلیقے سے یوں بیان کیا ہے
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پھر طبیعت اِدھر نہیں آتی

مرزا شور کو زندگی کی علامت سمجھتے ہیں اور اور ہم اُن کی اِس سوچ کو جہالت کی علامت قرار دینے سے نہیں چُوکتے۔ کبھی کبھی مرزا تپ کر ہمارے جال میں پھنس جاتے ہیں یعنی مُنہ پُھلاکر بات چیت بند کرلیتے ہیں اور ہمیں دو چار دن سُکون سے گزارنے کا نادر موقع عطا کرتے ہیں! مگر پھر جب اُنہیں ہماری ”سازش“ کا اندازہ ہوتا ہے اور دیکھتے ہیں کہ اِس صورت حال سے ہمیں فائدہ اور سُکون مل رہا ہے تو قتیل شفائی کے فرمان
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اِس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں

پر عمل کرتے ہوئے، مُنہ کے غُبارے کی ساری ہوا نکال کر، پورے زور و شور کے ساتھ دوبارہ ہماری زندگی میں ”انٹری“ ڈالتے ہیں!

گفتگو کے نام پر شور مچانا وہ شعبہ ہے جس میں ہم نے نئی ”ٹیکنالوجیز“ متعارف کرائی ہیں۔ مثلاً آمنے سامنے بیٹھ کر بھی چیختے ہوئے بات کرنا، غالب کے فرمان
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو!
کو حرز جاں بناکر بلا ضرورت دلائل پیش کرکے اپنی بات منوانا، فریق ثانی کو دیکھ کر بھی نہ دیکھنا اور غیر حاضر گردانتے ہوئے صرف اپنا موقف پیش کرتے رہنے پر مُصِر رہنا اور
مستند ہے میرا فرمایا ہوا!
کے مصداق ہر معاملے میں صرف اپنی رائے کو درست قرار دیکر دُنیا کو اُس سے باضابطہ آگاہ کرنا۔ صرف اپنی رائے کو درست قرار دینے والے ہمیشہ اِس طرح لب کشا ہوتے ہیں گویا کسی کانفرنس کا اعلامیہ پیش کر رہے ہوں!

ایک زمانہ تھا جب داستان گو رات بھر الاؤ کے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو اپنے مسحور کن انداز سے دُنیا بھر بھی داستانیں سُنایا کرتے تھے۔ اب کہاں وہ داستانیں اور کہاں وہ داستان گو؟ وہ زمانے تو ہوا ہوئے، ”رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی“ کے مصداق اب ہم سبھی داستان گو کے منصب پر فائز ہوچکے ہیں اور ایک دوسرے کی نفسیاتی ضرورت کو پورا کرنے پر کمر بستہ ہیں! مل بیٹھنے کے لیے الاؤ کا ہونا ضروری نہیں کیونکہ آج کا ہر انسان چلتا پھرتا الاؤ ہے اور کیا باتوں سے آگ نہیں لگتی؟ گھریلو گفتگو بالعموم ماچس کی تیلی کا کردار ادا کرتی ہے!

جن دنوں پاکستان کی فلم انڈسٹری تیزی سے پنپ رہی تھی تب چند گانے ایسے بھی ریکارڈ کئے گئے تھے جن میں روٹھے ہوئے محبوب سے کچھ بولنے کی فرمائش کی گئی تھی۔ مہناز کا گایا ہوا ”کچھ بولو نا“ اور ناہید اختر کا گایا ہوا ”کچھ بولیے حضور“ بے حد مقبول ہوئے تھے۔ یہ دونوں گلوکارائیں تو فلمی دنیا بلکہ فن کے افق سے رخصت ہوئیں مگر ہمارے لیے درد سر چھوڑ گئیں۔ جس جس نے بھی یہ گانے سُنے، وہ آج تک بولے ہی چلا جاریا ہے! 53 سال قبل بھارت کی فلم ”عدالت“ کا ایک گانا
یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے
بے حد مقبول ہوا تھا۔ اس گانے کے ایک انترے میں لتا نے راجیندر کرشن کی زبانی کہا تھا
ہونٹوں کو سی چکے تو زمانے نے یہ کہا
یہ چُپ سی کیوں لگی ہے، اجی کچھ تو بولیے

ہم سوچتے ہیں وہ کیسے زمانے تھے کہ لوگ ہونٹ سی لیتے تھے یا اُن پر چُپ کی مُہر لگا لیا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ اب فلمی گانوں کی حد تک رہ گیا ہے۔ ہونٹوں پر لگائی جانے والی چُپ کی مُہر آج ڈھونڈے سے نہیں ملتی اور لوگ ہیں کہ بول بول کر اپنی لاعلمی کے سونے پر جہالت کے سُہاگے کا ٹھپّہ لگاتے رہتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524812 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More