سَحرِ سامری اور corona wires !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ طٰہٰ ، اٰیت 90 تا 104 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
قال لھم
ھٰرون من قبل
یٰقوم انما فتنتم بہٖ
وان ربکم الرحمٰن فاتبعونی
واطیعوا امری 90 قالوالن نبرح علیہ
عٰکفین حتٰی یرجع الٰی موسٰی 91 قال یٰھٰرون
مامنعک اذرایتھم ضلوا 92 الّا تتبعن افعصیت امری 93
قال یمنؤم لاتاخذ بلحیتی ولابراسی انی خشیت ان تقول فرقت
بین بنی اسرائیل ولم ترقب قولی 94 قال فماخطبک یٰسامری 95 قال
بصرت بمالم یبصروابہ فقبضت قبضة من اثرالرسول فنبذتھا وکذٰلک سولت
لی نفسی 96 قال فاذھب فان لک فی الحیٰوة ان تقول لا مساس وان لک موعدا لن
تخلفہ وانظر الٰی الٰھک الاذی ظلت علیہ عاکفا لنحرقنہ ثم لننسفنہ فی الیم نسفا 97 انما
الٰھکم اللہ الذی لاالٰہ الّا ھو وسع کل شئی علما 98 کذٰلک نقص علیک من انباء ماسبق وقد اٰتینٰک
من لدنا ذکرا 99 من اعرض عن ذکری فانہ یحمل یوم القیٰمة وزرا 100 خٰلدین فیہ وساءلھم یوم القیٰمة
حملا 101 یوم ینفخ فی الصور ونحشر المجرمین یومئذ زرقا 102 یتخافتون بینھم ان لبثتم الّا عشرا 103
نحن اعلم بمایقولون اذیقول امثلھم طریقة ان لبثتم الّا یوما 104
جب مُوسٰی اپنی قوم کی گوسالہ پرستی کی بَدخبری سُن کر طُور سے واپس آۓ تو ھارون پہلے ہی سامری کی پھیلائی ہوئی اِس گُم راہی کے بارے میں اپنی قوم سے کہہ چکے تھے کہ تُمہاری گوسالہ پرستی کا یہ تازہ فتنہ سامری نے پیدا کیا ھے لیکن وہ اَمرِ حق جس کی اَدیانِ عالَم کی ہر تحقیق سے تصدیق ہو چکی ھے وہ یہ ھے کہ تُمہارا پالَنہار صرف خُداۓ رحمٰن ھے اِس لیۓ تُم اِس فتنہ پرور سامری کی فتنہ پرور باتیں سُننے کے بجاۓ صرف میری باتیں سنو اور صرف میری باتوں پر عمل کرو لیکن سامری فتنے کا شکار ہونے والے اُن لوگوں نے کہا کہ تُم کُچھ بھی کہو ، اَب تو ھم مُوسٰی کے طُور سے واپس آنے تک اپنے اسی بَچھڑے کی پُوجا کرتے رہیں گے جو سامری نے ھمارے لیۓ بنایا ھے ، مُوسٰی واپس آۓ تو اُنہوں نے سب سے پہلے اپنے بھائی ھارُون سے کہا کہ تُم نے اتنے دن تک اِس گُم راہ قوم کی اِس گُم راہی کو کس طرح برداشت کرلیا اور تُم نے اِن کے ساتھ وہ سَخت رویہ کیوں نہیں اختیار کیا جو میں اختیار کیا کرتا ہوں ، آخر کیا وجہ رہی کہ تُم نے اِن پر سختی نہیں کی اور کیا وجہ ہوئی کہ تُم نے اِن کی گوسالہ پرستی کو برداشت کر کے میری نافرمانی کی ، ھارُون نے کہا کہ مُجھے آپ کی بیان کی ہوئی اُس مطلوبہ سختی سے یہ خیال روکے رہا ھے کہ یہ قوم میرے کسی سخت اَقدام کو اپنے قومی افتراق کا جواز بنا کر کہیں خانہ جنگی ہی نہ شروع کر دے اور اِس کے بعد کہیں آپ بھی مُجھے اِس خانہ جنگی کا ذمہ دار نہ سمجھنے لگیں ، پھر مُوسٰی نے سامری سے پُوچھا کہ تُم اپنی اِس گوسالہ سازی کے بارے میں کیا کہتے ہو ، سامری نے کہا کہ میں نے پہلے دن ہی تُمہاری تحریکِ توحید میں اپنے عقیدہِ شرک کے ساتھ داخل ہونے کا وہ کمزور راستہ دیکھ لیا تھا جو کسی اور نے نہیں دیکھا تھا اور میں نے پہلے دن ہی اپنے ذہن میں اِس کا وہ نقشہ بنا لیا تھا جو میرے دل میں آیاتھا اور جو میرے دل کو بھایا تھا اور اَب جب تُمہارے نقشِ قدم پر چلنے کا اعلان کر کے مُجھے تُمہاری توحید کے اُس شفاف نقشے میں اپنے شرک کا رنگ بھرنے کا وقت ملا ھے تو میں نے توحید کے اُس نقشے میں اپنے شرک کا رنگ بھر کر تُمہاری قوم کو خُدا پرستی سے ہٹا کر بُت پرستی پر لگا دیا ھے ، مُوسٰی نے کہا کہ اَب تُو یہاں سے دفع دُور ہو جا اور تیرے اِس جُرم کی جو سزا قُدرت کی طرف سے تُجھ پر نافذ ہو چکی ھے وہ یہ ھے کہ جب کوئی انسان تیرے قریب آۓ گا تو تُو خود بخود ہی اُس کو بتاۓ گا کہ میں ایک اچھوت ہوں اِس لیۓ کوئی انسان میرے قریب نہ آۓ اور کوئی انسان مُجھے ہاتھ نہ لگاۓ ، تیری سزا کا جو وقت اللہ تعالٰی نے مقرر کر دیا ھے اُس سے تُم نے بہر حال گزرنا ہی گزرنا ھے اور جانے سے پہلے تُو یہ بات بھی سُنتا جا کہ ھم تیرے اِس بچھڑے کو اپنی قوم کے سامنے ریزہ ریزہ کر کے سمندر میں بہادیں گے تاکہ ھماری قوم جان جاۓ کہ وہ بے جان بَچھڑا ایک بے جان جادُو گر کا بنایا ہوا ایک بے جان فریب تھا جو ھمارے سامنے ہی فنا ہو گیا تھا ، سامری کو یہ سزا سُنانے کے بعد مُوسٰی نے اپنی قوم سے کہا یاد رکھو کہ اَدیانِ عالَم کی ہر ایک تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ تُمہارا اِلٰہ وہی اللہ وحدہٗ لا شریک ھے جس کے سوا عالَم کا کوئی دُوسرا اِلٰہ نہیں ھے اور اُس کا علمِ بیکراں اِس عالَمِ بیکراں کے ذَرّے ذَرّے پر چھایا ہوا ھے اور اے ھمارے رسُول ! ھم اپنی اِس کتاب کے ذریعے آپ کو عھدِ رفتہ و اَقوامِ رَفتہ کا وہ اَحوال سُنا رھے ہیں جو اُن کی زمینوں اور اُن کے زمانوں پر گزرا ھے تاکہ آپ کے عھد کے لوگ اَقوامِ عالَم کی تاریخِ عروج و زوال کو جان سکیں اور عروج و زوال کے اِن مُشکل مرحلوں سے سہُولت کے ساتھ گزر سکیں ، اَب جو کوئی بھی ھماری اِس کتاب کے اِن علمی و عالمی قوانین سے مُنحرف ہو گا وہ قیامت کے روز اپنے اِس انحراف کا سارا بوجھ خود اُٹھاۓ گا اور اُس روز جس انسان پر جو بھی بوجھ ڈالاجاۓ گا وہ بوجھ ہمیشہ ہی اُس کے جسم و جان پر لَدا ہوا رھے گا اور قیامت قائم ہونے سے پہلے اور قیامت قائم ہونے کے بعد جب کبھی بھی ھم مُجرموں کو پکڑنے کا اعلان کریں گے اور جب کبھی بھی اُن مُجرموں کو گھیر گھیر کر سامنے لائیں گے اور جب کبھی بھی وہ مُجرم ھمارے حُکم کے مطابق اپنے اپنے جرائم کا بھاری بھرکم بوجھ اُٹھائیں گے تو اِس بوجھ کی تکلیف سے اُن کی آنکھیں پَتھرا جائیں گی اور وہ چُپکے چُپکے ایک دُوسرے سے کہہ رھے ہوں گے کہ دُنیا میں تو تُم نے زیادہ سے زیادہ دس دن ہی گزارے ہوں گے اور ہمیں یقین کے ساتھ معلوم ھے کہ اُس وقت وہ اِس بات کے علاوہ اور کیا کیا باتیں کر رھے ہوں گے اور اِن میں سے دُنیا میں رہنے کاجو شخص مُحتاط اندازہ لگاۓ گا وہ دُنیا میں صرف ایک دن رہنے کا اندازہ لگاۓ گا اور کہے گا تُم نے تو دُنیا میں صرف ایک ہی دن گزارا ھے !
مطالبِ اٰیات ومقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا مفہومِ بالا چونکہ بذاتِ خود ایک مُفصل مفہوم کا حامل مضمون ھے اِس لیۓ اِس کے سارے یمین و یسار پر تو مزید گفتگو کی ضرورت نہیں ھے لیکن قُرآنِ کریم کے اِس مضمون کا جو زیادہ قابلِ توجہ گوشہ ھے وہ مصر سے مُوسٰی علیہ السلام کے مُہاجر لَشکر میں شامل ہو کر آنے والے اُس مُہاجر ساحر سامری کا وہ تذکرہ ھے جو پہلی بار سُورةُالبقرة کی اٰیت 68 میں اٰیا تھا اور اَب دُوسری بار اُس کا تذکرہ اِس سُورت کی اِن اٰیات میں آیا ھے ، سُورةُالبقرة میں پہلی بار سامری کا جو پہلا ذکر ہوا ھے اُس ذکر کے مطابق سامری نے پہلی بار مُوسٰی علیہ السلام کی غیر موجُودگی سے فائدہ اُٹھا کر جنگل میں خفیہ طور پر ایک سانڈ دیوتا پالا تھا اور بنی اسرائیل کے چند چیدہ چیدہ اَفراد کو اُس سانڈ دیوتا کی پُوجا پاٹ پر لگایا تھا اور پھر ایک دن جب اَچانک ہی سامری کا وہ پالتو سانڈ ھارون علیہ السلام کی نظر میں آگیا تھا تو ھارون علیہ السلام کے مُوسٰی علیہ السلام کو اطلاع دینے سے پہلے ہی سامری اور اُس کے وہ چیدہ و چنیدہ چیلے ھارون علیہ السلام کو سیر کا بہانہ بنا کر اُس جنگل میں لے گۓ تھے اور پھر اپنے خیال کے مطابق اُن کو قتل کر کے اُسی جنگل میں چھوڑ آۓ تھے لیکن ھارون علیہ السلام جو اُن کے اُس تشدد سے ا یک طویل بیہوشی میں تو ضرور چلے چلے گۓ تھے مگر وہ زندہ بَچ گۓ تھے اُن کو اُس طویل موت نُما بیوشی سے ہوش میں لانے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے مُوسٰی علیہ السلام کو ذبح بقر کا وہ طریقہ بتایا تھا جس کا ھم سُورةُالبقرة کی 68 کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ ذکر کر چکے ہیں اور ھارون علیہ السلام سامری کے اُسی طریقے کے مطابق اُس عالمِ بیہوشی سے واپس ہوش میں آۓ تھے اور جب تک ھارون علیہ السلام جنگل میں بیہوش پڑے رھے تھے اُس وقت تک سامری اور اُس کے سیاہ کار ساتھی بنی اسرائیل کے درمیان مُوسٰی علیہ السلام پر ھارون علیہ السلام کے قتل کا الزام لگاتے پھر رھے تھے اور اُن کی یہ شر انگیز مُہم اُس وقت ختم ہوئی تھی جب ھارون علیہ السلام مُکمل طور صحت یاب ہو گۓ تھے ، اُس پہلے موقعے کے بعد اَب یہ دُوسرا موقع تھا جب سامری نے مُوسٰی علیہ السلام کی غیر موجُودگی میں بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ پہلے تُم شہر میں رہتے تھے تو یہ بھاری بھرکم زیورات پہنتے ہوۓ اَچھے بھی لگتے تھے لیکن اَب جب تُم اِس جنگل میں مارے مارے پھر رھے ہو تو تُم اِن زیورات کو میرے پاس جمع کرادو تاکہ تُم اِس کے اضافی بوجھ سے آزاد ہو کر ہَلکے پُھلکے ہو کر چل پھر سکو اور جب بنی اسرائیل نے زیورات اُس کے حوالے کر دیۓ تھے تو اُس نے اُن کو پگھلا کر وہ بَچھڑا بنا لیا تھا جس کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ھے اور سامری نے بنی اسرائیل کو یہ کہہ کر اُس بچھڑے کی پُوجا پاٹ پر لگادیا تھا کہ تُمہارا یہی وہ اصلی اور حقیقی اِلٰہ ھے جو خود مُوسٰی کا بھی اِلٰہ ھے اور جس کو وہ یہاں بُھول کر چلا گیا ھے اور میں نے مُوسٰی کے اُسی اِلٰہ کی شکل پر تُمہارے اِس اِلٰہ کی شکل بنائی ھے تاکہ تُم اِس کی اسی طرح پُوجا کرو جس طرح مُوسٰی اِس کی پُوجا کرتا ھے { نعوذ باللہ من ذٰلک } عُلماۓ روایت اِس اٰیت کے تفسیری مضمون میں یہ واہیات روایت سُناتے ہیں کہ سامری نے ایک بار جبریل کے گھوڑے کو گزرتے ہوۓ دیکھ لیا تھا اور اُس نے اُس کے قدموں کی مُٹھی بھر مِٹی اُٹھا لی تھی اور یہ بچھڑا جبریل کے گھوڑے کے قدموں سے لی گئی اُسی مِٹی کا ایک معجزانہ شاہکار تھا مگر حقیقت یہ ھے کہ سامری نے مُوسٰی علیہ السلام کی طرف سے کیۓ جانے والے سوالات کے جواب میں جس رسُول کے نقشِ قدم کا ذکر کیا تھا وہ رسُول خود مُوسٰی علیہ السلام تھے اور اُس نے اپنے اِن الفاظ کے ذریعے اُن پر یہ طنز کیا تھا کہ جس طرح تُمہارے ہاتھ کی لاٹھی ایک اَزدھے کا رُوپ دھار کر ساحروں کے سانپ کھا جاتی ھے اسی طرح تُمہارے قدموں کی خاک سے وہ سنہری بچھڑا بھی بن جاتا ھے جس کی تیری یہ قوم پُوجا کرتی ھے ، گویا کہ سامری نے سونے کا یہ بچھڑا بنا کر اور قومِ مُوسٰی کو اِس بچھڑے کی پُوجا پاٹ میں لگا کر بزعمِ خود مُوسٰی علیہ السلام سے اُس شکست کا بدلہ لیا تھا جو شکست اُنہوں نے فرعون اور آلِ فرعون کو دی تھی اور مُوسٰی علیہ السلام چونکہ سامری کے بیان کا مقصد و مُدعا سمجھ گۓ تھے اِس لیۓ مُوسٰی علیہ السلام نے ایک سری سری سماعت کے بعد ہی سامری کو اللہ کے حُکم کے مطابق وہ سزا سُنادی دی تھی جس کا اللہ تعالٰی نے متنِ اٰٰیات میں ذکر کیا ھے اور مفہومِ اٰیات میں ھم نے بیان کیا ھے ، یہ سزا ھمارے زمانے میں ظاہر ہونے والے covid19 کی طرح کی ایک سزا تھی جو اُس شخص کو بھی لگتی تھی جو سامری سے ملتا تھا اور اُس شخص کو بھی لگ جاتی تھی جس کو سامری ملتا تھا اِس لیۓ سامری کو سزا کے ساتھ یہ حُکم بھی دیا گیا تھا کہ وہ اپنے اُوپر مُسلط ہونے والی اِس لعنت کا خود ہی لوگوں میں مُسلسل اعلان کرتا رھے ، کہتے ہیں کہ اِس سزا کے کُچھ عرصے بعد سامری تَنہا جنگل کی طرف نکل گیا تھا اور پھر جنگل ہی میں کہیں مر کھپ گیا تھا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 567534 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More