#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ طٰہٰ ، اٰیت 105 تا 114
اخترکاشمیری
علُم الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
یسئلونک
عن الجبال
فقل ینسفہا ربی
نسفا 105 فیذرھا
قاعا صفصفا 106 لاترٰی
فیھا عوجا ولاامتا 107 یومئذ
یتبعون الداعی لا عوج لہ وخشع الا
صوات للرحمٰن فلا تسمع الّا ھمسا 108
یومئذ لاتنفع الشفاعة الّا من اذن لہالرحمٰن و
رضی لہ قولا 109 یعلم مابین ایدیھم وماخلفھم و
لایحیطون بہ علما 110 وعنت الوجوہ للحی القیوم وقد
خاب من حمل ظلما 111 ومن یعمل من الصٰلحٰت وھومومن
فلایخاف ظلما ولا ھضما 112 وکذٰلک انزلنٰہ قراٰنا عربیا وصرفنا
فیہ من الوعید لعلھم یتقون اویحدث لھم ذکرا 113 فتعٰلی اللہ الملک
الحق ولا تعجل من قبل ان یقضٰی الیک وحیہ وقل رب زدنی علما 114
اے ھمارے رسُول ! اہلِ زمین آپ سے پُوچھتے ہیں کہ جس روز زمین کو زمین کے
جُملہ انسانوں کے جمع ہونے کا مقام بنایا جاۓ گا تو اُس روز انسانوں کے
راستے میں رکاوٹ بنے ہوۓ یہ فلک بوس پہاڑ کہاں جائیں گے ، آپ اہلِ زمین کو
بتادیں کہ اُس روز میرا رَب زمین کے اِن سارے پہاڑوں کو دُھول بنا کر خلاۓ
بسیط میں اُڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہَموار میدان بنا دے گا کہ تُم دُور
دُور تک اِس میں کوئی کَس بَل یا اُونچ نیچ نہیں دیکھو گے اور اُس روز ایک
پُکارنے والے کی پُکار سُن کر زمین کے جُملہ انسان زمین کی جُملہ اَطراف سے
کسی رکاوٹ کے بغیر ہی چلتے چلے آئیں گے اور اُس روز اُن اہلِ زمین کی ساری
آوازیں رحمٰن کی آواز کے سامنے دَبی ہوئی ہوں گی اور اُس روز تُم ایک
دُوسرے کی ایک ہلکی اور دھیمی سی آواز کے سوا کُچھ بھی نہیں سُن سکو گے ،
اُس روز کسی انسان کے حق میں کسی انسان کی سفارش بھی ہر گز کار گر نہیں
ہوگی سواۓ اِس انسان کے کہ جس انسان کے حق میں اللہ تعالٰی خود ہی جس انسان
کی سفارش کو سُننا پسند کرلے اور پھر اُس کو کلمہِ سفارش کہنے کی اجازت دے
دے ، اِس لیۓ کہ زمین پر پہلے اور بعد میں آنے والے جُملہ انسانوں کا
اَحوال اللہ تعالٰی کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور یہ بات بھی اللہ تعالٰی
کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کس انسان کے حق میں کس انسان کا کُچھ کہنا
مُفیدِ مطلب ہو سکتا ھے اور کس انسان کے حق میں کس انسان کا کُچھ کہنا
مُفیدِ مقصد نہیں ہو سکتا ، اُس روز سب انسانوں کے سر اپنے ہمیشہ سے ہمیشہ
کے لیۓ زندہ و موجُود رہنے والے رَب کے سامنے جُھکے ہوۓ ہوں گے ، بہت
نامراد ہو گا وہ انسان جو اُس وقت بارِ عصیان اُٹھاۓ ہوۓ ہوگا اور بہت
بامُراد ہو گا وہ انسان جو اُس وقت دولتِ ایمان اُٹھاۓ ہوۓ ہو گا ، یہ عدل
و انصاف کا وہ خاص دن ہو گا کہ جس خاص دن کسی حق دار کو اپنی حق تلفی کا
ایک ذَرَہ بھر بھی خوف نہیں ہو گا اور اے ھمارے رسول ! ھم نے آپ پر آپ کی
عربی زبان میں اپنا جو عربی قُرآن نازل کیا ھے اُس میں ھم نے دُہرا دُہرا
کر اپنے یہ سارے ہی اَحکامِ آگاہی بیان کردیۓ ہیں تا کہ اہلِ زمین ھماری
فرمان برداری اختیار کریں اور ھماری نافرمانی سے باز آجائیں ، آپ پر نازل
کیا گیا یہ کلام ایک شہنشاہِ عالَم کا ایک شاہی کلامِ عالَم ھے اِس لیۓ آپ
جب اہلِ عالَم کو اِس کے اَحکامِ نازلہ سنائیں اور سمجھائیں تو ایک تدریج
کے ساتھ سُنائیں اور ایک تدریج کے ساتھ سمجھائیں اور جب ھماری پہلی بات
انسان کے ذہن نشین ہو جاۓ تو اُس کے بعد اُس کو دُوسری بات سنائیں اور آپ
اپنے رَب سے اپنے علم میں اضافے کی درخواست بھی کرتے رہا کریں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کے مُتعدد مقامات پر آنے والا قُرآنِ کریم کا یہ وہی فکر
اَنگیز مضمون ھے جس میں قُرآنِ کریم نے بار بار زمینِ دُنیا سے زمینِ
عُقبٰی کا سفر اور اَحوالِ سفر بیان کیا ھے اور یہی وہ مضمون ھے جس کو ھم
نے سُورةُالاَسرٰی کی اٰیت 71 اور پھر سُورَہِ مریم کی اٰیت 77 و 87 کے
درمیان بھی بیان کیا ھے ، زمینِ دُنیا سے زمین عُقبٰی کے اِس سفر سے مُراد
انسان کا اِس سیارہِ زمین سے نکل کر کسی دُوسرے سیارہِ زمین پر جانا مُراد
نہیں ھے بلکہ اِس سے مُراد اسی سیارہِ زمین پر رہ کر اپنے کیۓ گۓ اعمال کے
نتیجے میں اِس زمین کا بدل کر ایک ایسی مُختلف زمین بن جانا ھے جس زمین پر
انسان کے اعمال خیر کا بدلہ انسان کے لیۓ ایک دائمی راحت اور انسان کے
اعمالِ شر کا بدلہ انسان کے لیۓ ایک دائمی اذیت بن کر ظاہر ہوگا ، موجُودہ
اٰیات سے پہلی اٰیات میں زمینِ دُنیا کے زمینِ عُقبیٰ میں بدل جانے کی عملی
کیفیت یہ بیان کی گئی ھے کہ پہلے زمین پر اللہ تعالٰی کے حُکم سے"نفخہِ
صور" کی صورت میں ایک خوف ناک آواز آۓ گی جس آواز کی ہیبت سے اُس وقت زمین
پر جتنے بھی انسان زندہ موجُود ہو ں گے پہلے وہ سارے کے سارے مرجائیں گے
اور پھر مرنے کے بعد سارے ہی مِٹی میں مل کر مِٹی ہو جائیں گے ، اِس کے بعد
ایک اور نامعلوم زمانے میں اللہ تعالٰی کے حُکم سے اسی "نفخہِ صور" کی صورت
میں وہ دُوسری حیات آفریں آواز آۓ گی جو مر کر زمین کی تہوں میں اُترے ہوۓ
انسانوں کو زندہ کرکے زمین سے باہر لے آۓ گی اور اِس کے بعد زمان و مکان کے
در وبام میں صرف رحمٰن کی آواز ہی رہ جاۓ گی اور اُس ایک آواز کے سوا ہر
ایک آواز دَب جاۓ گی اور اُس وقت وہ خوف زدہ لوگ خوف زدہ ہو کر ایک دُوسرے
کے ساتھ جو باتیں کریں گے اُن باتوں کی زمین پر ایک ہلکی سی آواز ہو گی ،
اِس دُوسرے اور حیات بخش "نفخہِ صور" کے بعد چونکہ انسانی سفر کے سارے
وسائل نابُود ہو چکے ہوں گے اِس لیۓ جس انسان نے بھی مَحشر کا یہ بیان سُنا
ھے تو اُس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا ھے کہ اگر جنت اسی زمین پر قائم ہونی
ھے ، جہنم اسی زمین پر ظاہر ہونی ھے ، یومِ حسابِ اسی زمین پر برپا ہونا ھے
، اور میدانِ مَحشر بھی اسی زمین پر قائم ہونا ھے تو انسان کو اُس میدانِ
محشر میں پُہنچنے کی مُمکنہ عملی صورت کیا ہوگی اور چونکہ انسان اپنے راستے
کی جس بڑی سے بڑی رکاوٹ کا خیال کر سکتا ھے وہ زمین کے سینے میں گڑے ہوۓ یہ
بڑے بڑے پہاڑ ہیں اِس لیۓ انسان نے اپنی بلند خیالی کے حساب سے یہی سوال
کیا ھے جس کا موجُودہ سُورت کی اِن موجُودہ اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے
رسول کی زبان سے انسان کو یہ جواب دیا ھے کہ زمین پر جب وہ مُقررہ وقت آجاۓ
گا تو اُس وقت زمین کے اِن تمام فلک بوس پہاڑوں کو خاک بنا کر ، پھر اِن کی
اِس خاک کو خلاۓ بسیط میں اُڑا کر زمین کو ایسا ہَموار بنا دیا جاۓ گا کہ
اِس میں انسان کو کوئی کَس بَل نظر نہیں آۓ گا ، کوئی سَلوٹ نظر نہیں آۓ گی
اور کوئی اُونچ نیچ بھی نظر نہیں آۓ گی ، اِس موضوع کی جن اٰیات کا ھم نے
ذکر کیا ھے اِن اٰیات میں زیادہ تر مقامات پر اللہ تعالٰی نے اپنے اسمِ
رحمٰن کو لاکر اپنی صفتِ رحمت کو نمایاں کیا ھے اور اسی صفتِ رحمت کے ضمن
میں اُس شفاعت کا ذکر کیا ھے جس کی عملی صورت عملِ وکالت کی سی ہو گی اور
اِس کام کے لیۓ تعالٰی اپنے بندوں میں سے اُن بندوں کو اجازت دے گا جو اُس
کے بندوں کی بہترین ترجمانی کر سکیں گے اور جن بندوں کو اللہ تعالٰی اِس
کارِ سفارش ، اِس کارِ شفاعت اور اِس کارِ وکالت کی اجازت دے گا تو اُن کو
اُس وقت وہ خاص علم و دانش بھی عطا فرما دے گا جس خاص علم و دانش کے مطابق
اللہ کے وہ بندے اللہ کے بندوں کی بہترین سفارش ، بہترین شفاعت اور بہترین
وکالت کر سکیں گے ، تاہَم یہ ایک جَھٹ بَھٹ زمانے میں ہونے والا ایک جَھٹ
بَھٹ کام نہیں ھے جیسا کہ انسان کے خیال میں آتا ھے بلکہ یہ ایک طویل زمان
و مکان میں ہونے والا ایک ایسا طویل زمانی و مکانی عمل ھے جس کی طوالت کا
کوئی انسان کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا !!
|