اسلامی نظام تعلیم، ایک چبھتا سوال

میرے کچھ دوست آج کل اسلامی نظام تعلیم کے بارے کچھ پریشان ہیں۔ جب بھی سلیبس یا کسی کتاب میں کوئی ایسی چیز شامل ہو جائے جو ان کے خیال میں اسلامی عقائد سے میچ نہیں کرتی وہ پریشان ہو جاتے ہیں جو کہ بالکل جائز ہے ۔کچھ ماہرین تعلیم بھی میدان عمل میں آتے ہیں اور گلہ کرتے ہیں کہ ہم تعلیم تو دے رہے ہیں مگر تربیت کی کمی ہے۔یہ سارے ماہرین تعلیم، جن سے میری برسوں سے شناسائی ہے، آج تک بہت کچھ کہنے کے باوجود اسلامی نظام کا کوئی ایسا خاکہ پیش نہیں کر سکے جو وہ اپنے ذاتی سکولوں میں ہی نافد کر سکیں۔ان کے اپنے ذاتی سکولوں کے بچے بھی پوری طرح تعلیم یافتہ نہیں ہوتے۔وہ یکساں نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں۔ طلبا کے لئے یکساں مواقع کی بات نہیں کرتے۔ تعلیم کو ہر لمحہ تجربات کی ضرورت ہے۔ یکساں نظام تعلیم تو تحقیق کی ہلاکت ہے، سوچ کی موت ہے۔مگر ایک رسم ہے نعرے بازی کی جو جاری ہے اور شاید جاری رئے گی۔

میں ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہوں ۔ وہاں سارے بچے ہمارے پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں سے پڑھ کر آتے ہیں،افسوسناک صورت یہ ہے کہ پانچ فیصد بچے بھی تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اور جو پانچ فیصد تعلیم یافتہ ہوتے ہیں وہ ان کے گھر کا ماحول ہے جو انہیں تعلیم یافتہ بنا دیتا ہے۔ تعلیم کی بات کرتے ہوئے یہ کہنا کہ تعلیم تو دی ہے تربیت نہیں دی ایک انتہائی عجیب بات ہے۔تربیت تو تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے۔ وہ جس میں تربیت نہ ہو تعلیم نہیں ہوتی۔ تعلیم ایک طرز زندگی ہے، وہ عمل جو آپ کے ذہن کو جلا بخشے وہ تعلیم ہے، وہ عمل جو آپ کو اچھی زندگی گزارنے کا گر بتائے جو آپ کو اچھا انسان بننے کی ترغیب دے ، وہ عمل جو آپ میں احساس اور شعور پیدا کرے وہ تعلیم ہے۔تعلیم کا اصل مقصد آپ کے اخلاق کی تعمیر ہے۔ دنیا کے ہر مذہب نے سب سے زیادہ اخلاق ہی کی ترغیب دی ہے۔ جاپان کے لوگوں کا اخلاقی معیار دیکھیں یا یورپ میں لوگوں کے اخلاقی معیار کا کبھی اپنے اخلاقی معیار سے تقابل کریں شرم آتی ہے۔
آجکل آن لائن ایجو کیشن کا دور ہے۔ انگلینڈ میں بچوں نے احتجاج کیا کہ آن لائن کلاسز تو ٹھیک ہیں مگر ہم آن لائن امتحان نہیں دیں گے اسلئے کہ پہلے ہونے والے آن لائن امتحان کے نتائج ہماری صحیح اسسمنٹ نہیں کر سکے۔وہ اچھے طالب علم جو زیادہ نمبر لیتے ہیں ان کے نمبر کم اور نسبتاً کم نمبر لینے والوں کے نمبر زیادہ آئے ہیں اس طرح کے امتحان سے ہم اپنے بارے میں صحیح نہیں جان سکتے اس لئے آن لائن کی بجائے باقاعدہ امتحان لئے جائیں۔ چنانچہ طلبا کے مطالبے پر وہاں باقاعدہ امتحا ن ہوئے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں ہمارے طلبہ نے باقاعدہ احتجاج اور ہرتال کی کہ آن لائن امتحان کے سوا ہم کوئی دوسرا امتحان نہیں دیں گے۔ جب پڑھائی کی لوٹ سیل جاری ہے تو امتحان کیوں اس لوٹ سیل کا حصہ نہ ہوں۔چنانچہ حکومت کو بچوں کے اس مطالبے پر گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ہمارے ہاں نقل کی روایت بہت عام ہے۔ ان ملکوں میں کسی بچے کو نقل کی دعوت دیں وہ حیران نظروں سے آپ کو پوچھے گا کہ امتحان سے تو مجھے اپنی قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے، اگر نقل کروں گا تو مجھے کیا اندازہ ہو گا۔ ان کے نزدیک نقل ایک بڑا جرم ہے۔یہ تعلیم یافتہ اور جائل کا واضع فرق ہے جو ہم دیکھنے اور محسوس کرنے سے عاری ہیں۔ہماری درسگائیں جہالت کے مسکن ہیں اور ہم ان کی کارکردگی پر مطمن ہیں۔

میں 1989-90 میں تنظیم اساتذہ کے پلیٹ فارم سے پنجاب لیکچرزایسوسی ایشن کا صدر تھا۔ مسائل کے حوالے سے ہماری جدوجہد کے نتیجے میں پہلی دفعہ کالجوں اور بعد میں تمام یونیورسٹیوں میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کا عہدہ متعارف ہوا۔ 1996 سے 2000 تک تنظیم ہی کے پلیٹ فارم سے میں پنجاب پروفییسرز اینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن کا سینئر نائب صدر اور مجلس عمل اساتذہ کا نائب صدر تھا۔ اساتذہ کے مسائل کے بارے تمام دوستوں کی مشاورت سے سپریم کورٹ نے مجھے بہت سی حکومتی کمیٹیوں کا ممبر بھی نامزد کیاجو ممبر شپ دس سال تک چلتی رہی۔ اس دور میں سلیبس کے حوالے سے کچھ اسلامی اصلاحات کے لئے میں نے بہت کوشش کی مگر نہ تو حکومت اس بات میں سنجیدہ تھی اور نہ ہی ہمارے ساتھی کوئی ٹھوس رائے دینے میں کامیاب تھے۔ سینئر کلاسوں کے مضامین فزکس، کیمسٹری، زوالوجی، باٹنی اور ریاضی کو تو مشرف بہ اسلام کیا کرنا تھا۔ اصل کام چھوٹی کلاس کے بچوں کو اسلام کی روح اور اس کے نظام اخلاق سے آشنا کرنا تھا۔لیکن ہمار ے اہل فکر جو عام حالات میں بڑے پریشان نظر آتے ہیں ہر کلاس کے سلیبس میں چند آیتیں شامل کرنے پر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ہمارے پرائمری سکولوں کے بچے نماز کی روح سے واقف ہوں ۔ نماز کی امامت کر سکیں،نماز جنازہ،رسم نکاح اور ایسے چھوٹے چھوٹے کام وہ خود کر سکیں۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

پرائمری کے اساتذہ پر اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ ریاضی میں جہاں سود کا ذکر آئے اسے حرام سود بتائیں۔اسی طرح جہاں ممکن ہو اپنی ذاتی کاوش سی بچوں کو قران اور سنت کے اصولوں سے واقفیت کرائیں۔ اس عمر کے بچوں کو جائز اور ناجائز کا فرق، حرام اور حلال کا فرق، اخلاق اور بد اخلاقی کے فرق اور بہت سے اخلاقی اصولوں سے روشناس کرائیں اور عمل کی ترغیب دیں۔ مگر اس سلسلے میں ہمارے اساتذہ ،جو بچوں کا رول ماڈل ہوتے ہیں، ہی اس بات کو تیار نہیں۔ہمارے استاد حاکم ہیں وہ بچوں سے پیار محبت کی بات کرنا جانتے ہی نہیں۔ وہ بچوں پر پابندیاں لگا کر اسے شفقت اور حسن سلوک سے نا آشنا کر دیتے ہیں۔وہ بچوں کو اخلاق سے کیا روشناس کریں گے کہ خود بھی شناسا نہیں۔میرے خیال میں اصلاح کی ابتدا ان اداروں سے کی جائے جہاں سے پرائمری کلاسوں کے اساتذہ تیار ہو کر آتے ہیں اگر ہم اچھے اور مثبت ذہن کے اساتذہ کی ایک کھیپ تیار کر لیں تو بہتری کی صورت نکل سکتی ہے۔

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 437761 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More