اس مضمون کو لکھنے کے لئیے میں نے قران کریم احادیث
مبارکہ اور علما حق کی مستند بیانات و تحاریر
سے مدد لی ہے ساتھ ہی اپنے مشاہدات کو اس تحریر کا حصہ بنایا ہے
بہت احتیاط برتی ہے کے اس مغمون کو تحریر کرنے میں کسی قسم کا سہو نا ہو
پھر بھی اگر کسی قسم کی کوئی غلطی یا سھو ہوجائے تو پڑھنے والوں سے گذارش
ہے کہ میری تصیح فرمائیں۔۔۔۔
اسلام ایک مہذب‘باثقافت و متمدن ‘شائستہ‘شستہ‘شفاف‘صاف ‘تمام ادیان سے اعلی
و بالا‘تمام غلاظتوں‘ اورگندگیوں سے پاک نفیس مذہب ہے ‘اور اسلام کا یہ
مطالبہ ہے کہ اس کے ‘پیروکار‘اور اس کے ماننے والے بھی اتنا ہی نفاست و
نظافت کا بہترین مظاہرہ کریں‘اور حسن معاشرہ کی تشکیل میں بہترین رول ادا
کریں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں ظلم و ستم کبھی روا نہیں رکھا گیا اور نہ
ہی اسے پسند کیا گیا ‘ بلکہ اس کی حرمت و قباحت کو خوب خوب بیان کیا گیا
‘اور اہل اسلام سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہر کہی ہوئی بات پر نہ کان دھرا
جائے‘ نہ ہی اس کو اہمیت دی جائے اور نہ ہی اسے ہوا دی جائے ‘بلکہ ہر کہی
ہوئی بات کی نشر و اشاعت پر قد غن لگادیا ‘اور اسے تحقیق اور خوب خوب چھان
بین کی تاکید کی گئی ‘اللہ تعالی نے فرمایا: ((يا أيها الذين آمنوا إن
جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا ))(الحجرات:۶)ائے ایمان والو! جب کوئی فاسق کوئی
خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔
اس آیت کریمہ میں ان حضرات کی اللہ نے مذمت بیان فرمائی ہے ‘جو لوگ کسی بھی
خبر کی تصدیق کے بغیر اسے دوسروں تک شیر کرتے رہتے ہیں ‘اور اس بات کی قطعی
کوئی پرواہ نہیں کرتے ‘کہ آیا یہ خبر صحیح ہے یا غلط ‘خاص کر ایسے دور میں
جبکہ خبریں منٹوں میں پورے عالم تک پھیل جاتی ہیں ‘اور بیک وقت پوری دنیا
اسے پڑھتی ‘دیکھتی‘اور اسے پھیلاتی رہتی ہے ۔
پھر اللہ نے آخر میں اس امر پر متنبہ فرمادیا ‘ یہ انتہائی خطرناک امر ہے
کہ کسی خبر کو بغیر تصدیق پھیلائی جائے ‘خاص کر ایسے میں کہ اگر وہ خبر کسی
پر اتہام و الزام ‘اور افتراپردازی کی ہو ‘اور یہ بھی واضح کردیا کہ ہو
سکتا ہے ‘تمہیں سبکی ‘ذلت‘شرمندگی‘اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ‘خاص کر
ایسی صورت میں جبکہ اڑائی گئی خبر غلط ثابت ہوجائے ۔
خاص کر اگر علما اور دینی طبقہ بے سر و پا کی خبریں اڑائے ‘بغیر چھان بین
دوسروں تک شیر کرتا چلا جائے ‘اور بغیر تحقیق پھیلائے تو اس کی شناعت و
قباحت اور اس کی برائی و مذمت دو چند ہو جاتی ہے ‘ خاص کر اگر وہ اپنے آپ
کو کتاب و سنت کا حامل بھی کہتا ہو ‘تو اس کی خطرناکی مزید آگ اگلنے لگتی
ہے ۔ نیز بڑا جھوٹا اور گنہگاراس آدمی کو قرار دیا گیا ‘جو ہر سنی سنائی
بات کو لوگوں میں نشر کرتا پھرے ‘نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :‘‘ “كَفَى
بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ( السلسلة الصحيحة
2025)
انسان کے گنہگار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے ‘بیان کرتا پھرے
ذاتی طور پر کتنی خبروں کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ خبر اڑائی گئی ‘جس کی
ٹانگ تھی ‘نہ سر ‘اور جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس کی کوئی صحت ہی
نہیں ‘اور کہیں سے اس کا سراغ نہیں ملتا ‘اور جب ان سے دلیل مانگی گئی تو
ندارد ‘سوائے افواہ اور بے بنیاد بات کے ‘اور بغلیں جھانکتے نظر آئے ‘پھر
ایسے لوگوں کو شرمندگی ‘اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ‘لوگوں کے سامنے رسوا
اور ذلیل بھی ہوئے ‘اور آخرت میں اللہ مالک ۔۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا:کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟
‘صحابہ نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس مال و دولت کچھ بھی نہ
ہو ‘تو آپ ﷺ نے فرمایا :‘‘میری امت کا مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن
نماز‘روزہ‘زکاۃ لے کر آئے گا ‘اس حال میں کہ اس نے اس کو گالی دی ہوگی‘اس
پر بہتان لگایا ہوگا ‘اس کا مال کھایا ہوگا ‘اس کا خون بہایا ہوگا ‘اسے
مارا پیٹا ہوگا ‘چنانچہ اسے اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی‘اور اسے اس کی
نیکیاں ‘اس کے حقوق کی ادائیگی سے قبل اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی
‘اس(مظلوم) کے گناہ اس پر انڈیل دئیے جائیں گے ‘پھر اسے واصل جہنم کردیا
جائے گا ‘‘ (نعوذ باللہ)
اس حدیث پر غور فرمائیں کہ نمازیوں‘روزہ داروں ‘صدقہ و خیرات کرنے والوں کی
بھی بری طرح خبر لی گئی ہے ‘قیامت میں ایسے لوگ خسارے ہی خسارے میں ہوں گے
‘اور جہنم کی آگ میں جلنا ہوگا‘باوجودیکہ ان کے پاس نماز ‘روزے‘صدقہ و
خیرات ‘اور دیگر اعمال صالحہ بھی ہوں گے ۔
اس وبا کا ایک نقصان یہ بھی ہے جس پر بھتان لگایا گیا ہو اس کی نیکیوں میں
اضافہ ہی ہوتا ہے ‘بلکہ اس کی نیکیاں اس کو دے دی جائیں گی ‘اور جب نیکیاں
کم پڑ جائیں گی تو الزام لگائے گئے شخص کے گناہ اس کی پیٹھ پر لاد
دیئےجائیں گے بھلا اس سے بڑا اور کوئی خسارہ کیا ہو سکتا ہے؟
وَالَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْـرِ مَا
اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا (58)
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو
زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ
قرار دیاہے۔
جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا ، تہمت ، یا جھوٹی بات
منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں ، تو اللہ اسے (الزام لگانے
والے، تہمت لگانے والے ، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں
ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس
حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے (رک جائے ، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن
ہے)۔
مسند أحمد : 7/204 ، سنن أبي داود : 3597
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ
ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ (١٠٥)
جھوٹ افترا تو وہی باندھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں
ہوتا۔ یہی لوگ جھوٹے ہیں( سورہ النحل آیت ١٠٥)
کسی پر بے جا تہمت اور بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام
ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : بے گناہ
لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔
اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی
مانگنی چاہیے تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو
شریعت نے الزام تراشی اور بہتان بافی کی انتہائی کڑی سزا مقرر فرمائی ہے
‘اور اس میں کوئی رعایت نہیں برتی گئی ہے ۔
نبی ٔ اکرم ﷺ نے فرمایا :‘‘ مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ
حُدُودِ اللَّهِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ، وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ
يَعْلَمُهُ لَمْ يَزَلْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ [عَنْهُ]،
وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ
الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ
) الصحیحۃ(437)
جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ
کی مخالفت کی، اور جو جانتے ہو ئے کسی باطل امر کے لئے جھگڑے تو وہ برابر
اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبر دار ہو جائے، اور
جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ
اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ
کر لے”۔
اس خبیث مرض کو تو نبی ٔ اکرم ﷺ نے سب سے بڑا اور بد ترین سود قرار دیا ہے
‘فرمایا : ((إن من أربى الربا الاستطالة في عرض المسلم بغير حق)) (رواه أبو
داود ۴۸۷۶)‘اور سود ایسے ہے جیسے کہ کوئی شخص ۳۶ مرتبہ زنا کرے (صحیح
الجامع:۳۳۷۵)بلکہ اس سے بھی کہیں سخت اور شدید ترین جرم کا حامل ہے ۔اللہ
ہم سب کو اس بری وبا سے بچائے ۔
کیا مسلمانوں کی عزتوں پر حملہ کرنے والوں نے کبھی فکر و تامل کیا کہ وہ
کیا کر رہے ہیں ‘اور کیسی خباثت ‘بد باطنی اور ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دے
رہے ہیں ‘اللہ بھلا کرے ۔
کل روز قیامت ان بد طینت لوگوں کا بہت برا حال ہوگا ‘جس کا مشاہدہ خود نبی
ٔ اکرم ﷺ نے معراج والی رات میں فرمالیا تھا ‘آپ ﷺ کا گزر کچھ ایسے لوگوں
سے ہوا تھا جو اپنے چہرے اور سینے اپنے پیتل کے ناخن سے نوچ رہے تھے ‘جب
پوچھا گیا تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ وہ خبیث لوگ ہیں ‘جو لوگوں کی عزت و
آبرو پر حملہ کرتے تھے (ابو داؤد۴۸۷۸)
کس قدر درد ناک منظر ہوگا؟کبھی غور کیا ۔
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو ‘اس کے عذاب سے خوف کھاؤ
حضرات گرامی !مسلمانوں کی عزت و آبرو قیمتی سرمایہ ہے‘اس کی حفاظت ہی اصل
مردانگی ہے (جسے ہم بھول بیٹھے ہیں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا
‘‘آدمی کی طنطنہ بازی پر خوش نہیں ہونا چاھئے ‘کیوں کہ مرد وہ ہے جو امانت
ادا کر دیا کرے اور لوگوں کے عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے )
اسلام میں مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا حکم دیا گیا‘اور اس پر حملہ
اور دھاوا بولنے سے کلی طور پرمنع کیا ‘اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنے آخری خطبہ ٔ حجۃ الوداع کے بیان کردہ دستور میں سے ایک دستور قرار
دیا ‘فرمایا :
إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ
كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ
تمہارے خون ‘تمہارے مال ‘اور تہاری عزتیں اسی طرح سے تمہارے اوپر حرام ہیں
‘جیسے کہ یہ دن ‘یہ شہر (مکہ)اور یہ ماہ (ذو الحجہ) حرمت والا ہے۔
(بخاری:۱۷۳۹‘مسلم :۱۶۷۹)
مذکورہ امور سے یہ بات واضع ہوگئی کہ کسی بھی شخص پر الزام تراشی کوئی
معمولی گناہ ‘ اورحقیرچیز نہیں ہے‘بلکہ یہ منافقوں کا شیوہ ‘فاسق لوگوں کی
قبیح عادت ‘اور بد باطن افراد کی بری خصلت ہے‘جس سے احتراز لازم اور ضروری
ہے ۔
اللہ ہم سب کو اس قبیح و مکروہ فعل سے محفوظ رہنے کی توفیق دے
|