امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی مختصر سوانح حصہ دوم

موضوع
سیرت عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالی


آپ رضی اللہ کا نام ، کنیت و لقب

امیر المومنین عبداللہ بن زبیر بن العوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب الاسدی القرشی، ابو بکر ، ابو خبیب آپ رضی اللہ کی کنیت تھی, آپ رضی اللہ کا نسب قصی پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملتا ہے,

آپ رضی اللہ کے والدین اور خاندان

آپ رضی اللہ کے والد حواری رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ تھے اور آپ رضی اللہ کی والدہ اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ ذاۃالنطاقین ہیں,
(یہ لقب ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقع پر دیا تھا) ۔
آپ رضی اللہ کی دادی صفیہ رضی اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ آپ رضی اللہ کی خالہ تھیں۔۔آپ رضی اللہ قریش کے قبیلہ بنو اسد سے تعلق رکھتے تھے اسد قصی بن کلاب کے پوتے تھے اور آپ رضی اللہ کا شجر قصی بن کلاب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملتا ہے۔ آپ رضی اللہ کے والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ کا خاندان مرہ بن کعب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملتا ہے آپ رضی اللہ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے قرشی ہیں۔

آپ رضی اللہ کی اولاد

خبیب (جنہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ولید کے حکم سے سردی میں مار ڈالا تھا)، عباد ، ابو بکر ،حمزہ ،زبیر، ثابت ، ہاشم ، قیس ، عروہ (تینوں آپ کے ساتھ شہید ہوئے)،عامر ،موسی و بکر یہ سب آپ کے بیٹے تھے,
ام حکیم ، فاطمہ ، فاختہ ، رقیہ و نفیسہ یہ آپ کی بیٹیان تھیں ۔
(بحوالہ طبقات ابن سعد)

آپ رضی اللہ کا پیدا ہونا

آپ رضی اللہ کی پیدائش کا واقعہ بڑا دلچسپی رکھتا ہے, ابن کثیر رحمہ اللہ تاریخ میں لکھتے ہیں کہ

وَثَبَتَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّهَا خَرَجَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ مِنْ مَكَّةَ مُهَاجِرَةً وَهِيَ حُبْلَى بِهِ فولدته بقبا أَوَّلَ مَقْدِمِهِمِ الْمَدِينَةَ، فَأَتَتْ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَنَّكَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ وَدَعَا لَهُ، وَفَرِحَ الْمُسْلِمُونَ بِهِ لِأَنَّهُ كَانَتِ الْيَهُودُ قَدْ زَعَمُوا أَنَّهُمْ قَدْ سَحَرُوا الْمُهَاجِرِينَ فَلَا يُولَدُ لَهُمْ فِي الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا وُلِدَ ابْنُ الزُّبَيْرِ كَبَّرَ الْمُسْلِمُونَ، وَقَدْ سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ جَيْشَ الشَّامِ حِينَ كَبَّرُوا عِنْدَ قَتْلِهِ، فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَلَّذِينِ كَبَّرُوا عِنْدَ مَوْلِدِهِ خَيْرٌ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كبروا عند قتله، وأذن الصديق في أذنه حِينَ وُلِدَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَمَنْ قَالَ إِنِ الصِّدِّيقَ طَافَ بِهِ حَوْلَ الْكَعْبَةِ وَهُوَ فِي خِرْقَةٍ فَهُوَ وَاهِمٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ. وَإِنَّمَا طَافَ الصِّدِّيقُ بِهِ فِي الْمَدِينَةِ لِيَشْتَهِرَ أَمْرُ مِيلَادِهِ عَلَى خِلَافِ مَا زَعَمَتِ الْيَهُودُ

حضرت اسماء رضی اللہ سے ثابت ہے کہ جب آپ رضی اللہ ہجرت کرکہ آئیں تو عبداللہ رضی اللہ کے حمل سے تھیں, آپ رضی اللہ نے انہیں قبا میں جنم دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں گھٹی دی اور ان کا نام عبداللہ رکھا اور مسلمانوں کو آپ رضی اللہ کے پیدائش سے بہت خوشی ہوئی کیوں (ذہبی یہاں فرحا شدید کا لفظ لکھتے ہیں مطلب حد سے زیادہ خوشی )کہ یہود کہتے تھے کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کردیا ہے اب ان کے ہاں کو ئی اولاد نہیں ہوگی بس جب عبداللہ رضی اللہ پیدا ہوئے تو مسلمانوں نے مسرت سے تکبیر کہی ،
اور جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے آپ رضی اللہ کے قتل ہونے پر شامی لشکر کی تکبیریں سنیں تو فرمایا کہ اللہ کی قسم ان کے پیدا ہونے پر تکبیریں کہنے والے ان کے قتل ہونے والوں کی تکبیریں کہنے والوں سے زیادہ افضل تھے۔
حضرت ابی بکر صدیق رضی اللہ نے آپ رضی اللہ کے کان مین آزان دی,
(ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ نے آپ کو اٹھا کر کعبہ کا طواف کیا ,
ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ نے انہیں اٹھا کر مدینہ کا چکر لگایا تاکہ یہود کے خلاف آپ رضی اللہ کی پیدائش کی بات مشہور ہوجائے)
تاریخ اسلام یہ بھی بتاتی ہے کہ
(انصار میں اس طرح پیدا ہونے والے بچے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تھے یہ عبداللہ رضی اللہ کے ہم عمر تھے چناچہ انصار و مہاجرین میں دونوں کی پیدائش پر خوشی کی گئی اور اس کی تشہیر کی گئی تاکہ یہود کی بات کو غلط ثابت کیا جاسکے)
حیرت کا مقام ہے کہ ان دونوں میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ بنی امیہ کی حکومت کے خلاف تھے اور نعمان بن بشیر رضی اللہ بنی امیہ کے حامی تھے ( اس میں اختلاف بھی ہے) لیکن فاسق یزید کی موت کے بعد انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کی بیعت کرلی تھی ۔حمص میں آپ رضی اللہ کے گورنر تھے۔ اور نعمان بن بشیر رضی اللہ کو مروان نے قتل کروایا اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کو مروان کے بیٹے عبدالمالک کے حکم سے سولی دی گئی کیا قدرت ہے خالق کائنات کی کہ ساتھ پیدا ہوئے اور شہادت بھی ایک ہی جیسی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آپ رضی اللہ چھوٹے بچے تھے ۔ اس کے علاوہ آپ رضی اللہ کے بارے میں بہت سی روایات آتی ہیں کہ آپ رضی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پی لیا تھا کہیں پر پسینے کے الفاظ ہیں ۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ کو دعا دی۔ آپ رضی اللہ کو جنگ خندق کا واقعہ یاد تھا آپ رضی اللہ اس کو روایت کرتے تھے
صحیح مسلم باب فضائل فضائل
طلحہ و زبیر رضی اللہ میں آپ رضی اللہ کی یہ روایت موجود ہے کی,
(حدیث نمبر 3720 )
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: كُنْتُ يَوْمَ الأَحْزَابِ جُعِلْتُ أَنَا وَعُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ فِي النِّسَاءِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِالزُّبَيْرِ، عَلَى فَرَسِهِ، يَخْتَلِفُ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، فَلَمَّا رَجَعْتُ قُلْتُ: يَا أَبَتِ رَأَيْتُكَ تَخْتَلِفُ؟ قَالَ: أَوَهَلْ رَأَيْتَنِي يَا بُنَيَّ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ يَأْتِ بَنِي قُرَيْظَةَ فَيَأْتِينِي -
- بِخَبَرِهِمْ». فَانْطَلَقْتُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ فَقَالَ: «فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي»

آپ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ احزاب کے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ پیچھے عورتوں کے ساتھ تھے اور میں نے اپنے والد کو دو یا تین مرتبہ دیکھا کہ گھوڑے پر سوار ہوکر بنو قریظہ سے آرہے تھے میں نے اپنے والد سے کہا کہ اے پیارے بابا میں نے آپ رضی اللہ کو بنو قریظہ سے آتے ہوئے دیکھا , انہوں کہا کہ کیا وقعی میں تم نے دیکھا میں نے کہا ہاں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ بنو قریظہ کون جائے جو مجھے آکر خبر دے ؟
پھر میں بنو قریظہ گیا اور جب میں واپس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے لئے اپنے والدین کو جمع کرکہ فرمانے لگے فداک ابی امی ۔

(اور امام نووی اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
وإن كان ابن أربع أو دونها . وفيه منقبة لابن الزبير لجودة ضبطه لهذه القضية مفصلة في هذا السن . والله أعلم .

اور اس وقت ابن زبیر رضی اللہ چار سال کے تھے یا کچھ کم اور اس میں ابن زبیر رضی اللہ کی منقبت ہے کیوں کہ اس واقعے کو انہوں تفصیلی یاد رکھا اتنی سی عمر میں ۔۔ واللہ اعلم)

اس کے علاوہ آپ رضی اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بہت سی روایت بیان کرتے ہیں ۔آپ رضی اللہ کی ان روایات میں دو پر امام بخاری و مسلم متفق ہیں اور باقی 6 روایات میں دونوں منفرد ہیں۔

خلافت شیخین امہ مسلمہ سیدنا ابی بکر الصدیق رضی اللہ و سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ

سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ کی خلافت میں بھی آپ رضی اللہ ابھی چھوٹے ہی تھے آپ رضی اللہ سیدنا صدیق رضی اللہ سے بھی روایت کرتے ہیں۔
حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ میں بھی بچپن ہی تھا، البتہ آخری عہد میں نوجوانی کا آغاز ہوگیا تھا ؛چنانچہ ۲۲ھ میں جبکہ ان کی عمر ۲۱ سال کی تھی،سب سے اول یرموک کی جنگ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ شریک ہوئے، (اصابہ:۴/۷۱) اوریہ غالباً ان کے میدان جہاد میں قدم رکھنے کا پہلا موقع تھا، اس شرکت نے ان کی فطری صلاحیت کو ابھاردیا اورمیدان جنگ ایسا بھایا کہ پھرمرتے دم تک تلوار ہاتھ سے نہ چھوٹی۔

خلافت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ

آپ رضی اللہ کی عملی زندگی کا آغاز سیدنا عثمان رضی اللہ کے دور میں ہوا اس وقت آپ رضی اللہ 24 برس کے تھے آپ رضی اللہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ کی خلافت میں افریقہ کے جہاد میں بھرپور شرکت کی,

جہاد طرابلس

آپ رضی اللہ نے جہاد افریقہ میں حصہ لیا اور طرابلس کے جہاد میں آپ رضی اللہ ہی کی شجاعت اور تدبیر سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اس کی تفصیل یہ ہے

افریقہ کا حکمران گریگوری (جرجیر) تھا اور یہ بہت ہی قابل جرنیل تھا اس کی شجاعت کی مورخین نے تعریف کی ہے اس کی ایک خوبصورت بیٹی تھی ۔ جب مسلمان طرابلس پھنچے تو عیسائیوں کو جنگ کے لئے تیار پایا اور پھر گریگوری نے اعلان کردیا کہ جو مسلمانوں کے سپہ سالار کا سر کاٹ کر لائے گا اسے اپنی بیٹی بیاہ دے گا اس سے عیسائیوں میں ولولہ اور جوش پھیلا اور وہ مسلمانوں کی صفوں میں گھس گئے ۔ مسلمانوں کے سالار حضرت عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ تھے اور انہوں نے حالات امیر المومنین عثمان کو لکھ بھیجے تو امیر المومنین عثمان رضی اللہ نے مدینہ سے ایک تازہ دم فوج ان کی امداد کے لئے روانہ کردی اس میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ ،
عبداللہ بن عمر رضی اللہ,
عبداللہ بن عباس رضی اللہ ,
حسن بن علی رضی اللہ اور
حسین بن علی رضی اللہ بھی شامل تھے یہ آکر طرابلس میں لشکر اسلام سے شامل ہوئے اس وقت تک صرف جھڑپیں ہوتی رہیں ,عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے امیر کو مشورہ دیا کہ صبح سے لے کر دوپہر تک لڑائی کی جائے پھر مسلمان لوٹ کر آ جائیں سب کو یہ مشورہ پسند آیا اور اسی طرح مسلمان کرتے رہے کہ جنگ اور زیادہ طول پکڑتی گئی تو ایک دن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ امیر لشکر حضرت عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ کے پاس آۓ اور کہا کہ آپ رضی اللہ باہرکیوں نہیں نکلتے تو انہوں نے کہا عیسائی مسلمانوں میں گھس چکے ہیں اور ان کے امیر نے میرے سر کی قیمت اس کی بیٹی رکھ دی ہے اس لئے باہر میرے لئے بہت خطرہ ہے اور میرہ قتل ہوا تو کہیں مسلمان بد دل نہ ہوجائیں تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے ان سے کہا کہ آپ رضی اللہ بھی ایسا کریں کہ انکے سردار کے سر کی قیمت ایک لاکھ مقرر کریں اور انعام میں اس کی بیٹی کو مقرر کردیں امیرکو یہ مشورہ بہت پسند آیا اور انہوں اس کا اعلان کردیا کہ جو عیسائیوں کے سردار کا سر لائے گا اسے ایک لاکھ درہم اور اس کی بیٹی انعام میں دی جائی گی جس سے گریگوری بہت پریشان ہوا لیکن ہمت کرکہ ڈٹا رہا ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے کہا کہ ہمیں ساری فوج ایک دم نہیں لڑانی چاہئے بلکہ ایک دستہ جنگ کرے وہ تھک جائے تو دوسرہ پھر حملہ آور ہو اور پہلا لوٹ آئے اس تدبیر سے عیسائیوں کو بہت نقصان آٹھانا پڑا۔ اگلے دن خود حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ لشکر کی کمان کرتے ہوئے گئے اور شدید حملہ کیا کہ عیسائیوں کی فوج نے بہت کوشش کی قدم جمانے کی لیکن اس شدید حملے میں ناکام رہی اور بھاگ کھڑے ہوئے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے اس دن خود بہت ہی شجاعت کا مظاہرہ کیا اور اس وجہ سے آپ رضی اللہ بلاد اسلام میں شہسوار مشہور ہوئے۔ گریگوری مارا گیا اور اس کی بیٹی وعدہ کے مطابق حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کے حصہ میں آئی اور آپ رضی اللہ نے اس سے نکاح کرلیا۔

آپ رضی اللہ نے شمالی افریقہ بقیہ جہاد میں بھی حصہ لیا اور 30 ہجری کو آپ رضی اللہ نے طبرستان کے جہاد میں بھی حصہ لیا ۔

شہادت امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ

امت مسلمہ جب اپنی اتحاد و یقین پر قائم تھی اور ان کا اتحاد مثالی تھا تو اسلام کے حاسدین اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے چکر میں لگے ہوئے تھے کبھی قبیلائی نفرت کا سہارا لیتے کبھی امیروں پر الزام بازی کرتے ، کبھی خؤد امیر المومنین پر الزام بازی کرکہ عام آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتے انہوں 10 سال یہ سرتوڑ کوشش کی لیکن کامیاب نہیں رہے آخر کار امیر المومنین عثمان رضی اللہ کے آخری ایام میں انہوں نے مسلمانوں کے چند نوجوانوں کو اپنے باطن خیالات کا ساتھی بنا لیا اور ان کے سہارے ہی پروپیگنڈہ کرتے رہے تانکہ مدینۃ النبی پر خفیہ طریقے واردات کردی اور مدینہ کے لوگوں کو یرغمال بنالیا ۔ امیر المومنین عثمان رضی اللہ کا محاصرہ کرلیا اور آپ رضی اللہ پر صاف پانی کی فراہمی بھی بند کردی اور خؤد وہی پانی پیتے جو خریدا بھی امیر المومنین عثمان نے تھا ۔ اس حالات میں صحابہ اکرام رضی اللہ نے بہت بار کوشش کی کہ امیر المومنین کا دفاع کیا جائے لیکن آپ رضی اللہ نے سب کو خون ریزی سے منع کردیا اور ہتھیار نہ آٹھانے کی قسم لی انصار کے سردار حاضر ہوئے لیکن امیر المومنین نے منع کردیا پھر مسلمانوں کے نوجوان آگے آۓ جن میں سیدناحسن رضی اللہ ، سیدنا حسین رضی اللہ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ اور انہیں میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ بھی تھے اور عین مسجد نبوی میں ان کی باغیون کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی جسے امیر المومنین عثمان رضی اللہ نے سخت ناپسند کیا خآص کر حسن و حسین رضوان اللہ علیہم کا باغیوں سے لڑنا آپ رضی اللہ نے پسند نہیں فرمایا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اولاد کو باقی رہنے دیا جائے ان شہزادوں کی خاص فکر کرو۔ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے ہی امیر المومنین کو مکہ چلے جانے کا مشورہ دیا تو امیر المومنین نے مدینہ چھوڑنے سے انکار کیا ۔پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ, امام حسن رضی اللہ, امام حسین رضی اللہ کے ساتھ امیر المومنین کی حفاظت کے لئے ان کے دروازے پرکھڑے ہوگئےغرض یہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ آخری وقت تک امیر المومنین رضی اللہ کی حفاظت کی کوشش کرتے رہے اور بس ہوا وہ جو خدا کو منظور تھا وہ ہوگیا ۔

خلافت سیدنا علی ابن علی طالب رضی اللہ عنہ

امیر المومنین عثمان رضی اللہ کی شہادت کے بعد ، لوگوں نے امیر المومنین علی رضی اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی,
( آپ رضی اللہ نے بیت شروع میں کی یا بعد میں تاریخ میں اختلاف ہے) لیکن حضرت علی رضی اللہ کی بیعت کی تھی ، تاریخ اسلام ہی کی کتب میں مصدقہ روایت کے مطابق آپ رضی اللہ کے والد زبیر رضی اللہ نے اپنی بیعت قصاص سے مشروط کردی تھی تو آپ رضی اللہ نے اپنے والد کی راء سے ہی اتفاق کیا ہوگا۔(یہ بھی اقوال ہیں)

حادثہ جمل

امیر المومنین عثمان رضی اللہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف رونما ہوا اور کبار صحابہ رضی اللہ حضرت علی رضی اللہ کی بیعت سے رکے رہے جن میں حضرت زبیر رضی اللہ بھی تھے کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ کے آس پاس جو لوگ تھے وہ وہی تھے جنہوں امیر المومنین عثمان رضی اللہ کو قتل کیا تھا اور پھر حضرت علی رضی اللہ نے انہیں لوگوں کے مشورہ پر اہل شام سے جنگ کا فیصلہ کر لیا اور ابن عباس رضی اللہ کا مشورہ نہ مانا۔ اس لئے حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ مکہ چلے گئے اور وہاں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ کے پاس آئے اور انہیں حالات سے آگاہ کیا اور امیر المومنین علی رضی اللہ کے فیصلہ اور امیر المومنین عثمان رضی اللہ کے قصاص کی بات کی اور مشورہ دیا کہ آپ ام المومنین رضی اللہ ہیں ہمارے ساتھ چلیں لوگ آپ رضی اللہ کی بات سنیں گے اور ہم قاتلین سے قصاص لیں گے اسی بات پر بصرہ و کوفہ جانے کا قصد ہوا کیوں کہ قاتلین کی اکثریت یہیں کی تھی ، یہ لوگ بصرہ آئے اور جیسا کہ امام طبری نے اپنی تاریخ میں بیان کیا کہ قاتلین کو کتوں کی طرح گھسیٹ کر لایا جاتا تھا اور انہیں قتل کردیا جاتا تھا,

نَادَى مُنَادِي الزُّبَيْرِ وَطَلْحَةَ بِالْبَصْرَةِ: أَلا مَنْ كَانَ فِيهِمْ مِنْ قَبَائِلِكُمْ أَحَدٌ مِمَّنْ غَزَا الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِنَا بِهِمْ فَجِيءَ بِهِمْ كَمَا يُجَاءُ بِالْكِلابِ، فَقُتِلُوا فَمَا أَفْلَتَ مِنْهُمْ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ جَمِيعًا إِلا حُرْقُوصُ بْنُ زُهَيْرٍ،

حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ نے بصرہ میں اعلان کیا کہ جن جن قبائل کے پاس وہ لوگ موجود ہیں جو مدینہ پر چڑھ گئے تھے اور امیر المومنین عثمان رضی اللہ کو شہید کیا تھا انہیں ہمارے پاس لے او ، لوگ ان قاتلین کو کتوں کی طرح گھسیٹ کر لائے اور انہیں قتل کردیا گیا ,

اس میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ بھی اپنے والد اور خالہ ام المومنین رضی اللہ کے ساتھ تھے ,ام المومنین رضی اللہ نے آپ رضی اللہ کو لوگوں کو نماز پڑھانے پر مقرر کیا تھا ۔ امیر المومنین علی رضی اللہ کو جھوٹ کسوٹ جاکر بولے کہ طلحہ و زبیر رضی اللہ آپ رضی اللہ پر حملہ کرنے مدینہ آرہے ہیں تو آپ رضی اللہ مدینہ سے نکلے حضرت امام حسن رضی اللہ نے مخالفت کی لیکن آپ رضی اللہ نے کہا میں لڑنے تھوڑی جا رہا ہوں میرا مقصد صرف اور صرف اصلاح ؤ صلح ہے اور واللہ یہی معاملہ تھا امیر المومنین علی رضی اللہ جنگ کرنے واقعے میں نہیں جارہے تھے ملاحضہ ہو۔
(ابن کثیر جلد 7 واقعہ جمل)
جب آپ رضی اللہ مدینہ سے نکلنے لگے تو آپ رضی اللہ کے پاس ابن رافع آئے اورکہا

قَالَ فَلَمَّا عَزَمَ عَلَى الْمَسِيرِ مِنَ الرَّبَذَة قام إليه ابن أبى رفاعة بْنِ رَافِعٍ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَيَّ شَيْءٍ تُرِيدُ؟ وَأَيْنَ تَذْهَبُ بِنَا؟ فَقَالَ: أَمَّا الّذي نريد وننوى فالاصلاح، وإن قَبِلُوا مِنَّا وَأَجَابُوا إِلَيْهِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ يجيبوا إليه؟قال: نعدهم بِغَدْرِهِمْ وَنُعْطِيهِمُ الْحَقَّ وَنَصْبِرُ. قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَرْضَوْا؟ قَالَ: نَدَعُهُمْ مَا تَرَكُونَا، قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَتْرُكُونَا؟ قَالَ: امْتَنَعْنَا مِنْهُمْ، قَالَ: فَنَعَمْ إِذًا. فَقَامَ إِلَيْهِ

جب امیر المومنین علی رضی اللہ نے مقام ربذہ(مدینہ سے باہر ایک جگہ) سے کوچ کرنے ارادہ کیا تو ابن ابی رفاعۃ بن رافع آپ رضی اللہ کے پاس آئے اور کہا اے امیر المومنین آپ رضی اللہ کیا چاہتے ہیں ہمیں کہاں لے جاتے ہیں, آپ رضی اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ ہماری بات قبول کرلیں تو ہم اصلاح کے خوان ہاں ہیں , اس نے کہا اگر وہ نہ مانے تو ۔ آپ رضی اللہ نے کہا پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم انہیں چھوڑ دیں گے ان کا حق ادا کریں گے اور صبر کریں گے اس نے کہا کہ اگر وہ راضی نہ ہوں تو َ؟ آپ رضی اللہ نے فرمایا کہ جب تک ہمیں چھوڑے رکھیں گے ہم بھی چھوڑے رکھیں گے اس نے کہا اگر وہ نہ چھوڑیں تو آپ رضی اللہ نے کہا پھر بھی ہم رکے رہیں گے اس نے کہا آپ رضی اللہ نے درست بات کی۔

معلوم پڑا کہ نہ تو امیر المومنین کا جنگ کا ارادہ تھا اور نہ ہی طلحہ و زبیر رضی اللہ امیر المومنین سے جنگ کرنے نکلے تھے,
(اس کی تفصیل انشاء اللہ ہم واقعہ جمل کی تحریر میں دیکھ سکتے ہیں )

بہرکیف پھر امیر المومنین کے پہچنے پر حضرت عائشہ رضی اللہ نے کہا کہ ہمارا ارادہ قصاص کا ہے نہ امیر المومنین رضی اللہ سے جنگ کا تو امیر المومنین رضی اللہ نے بھی یہی بات کہی اور طے ہوا کہ امیر المومنین قصاص کا اعلان کریں گے اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ آپ رضی اللہ کے مددگار ہونگے۔ اس دوران باغیوں نے رات کے اندھیرے میں خیموں میں آگ لگادی اور ہرفریق سمجھا کہ دوسرے نے بد عہدی کی ہے بس جنگ چھڑ گئی اور امیر المومنین بھی روکنے پر اور طلحہ رضی اللہ بھی روکنے پر۔ اس جنگ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ کے بلکل قریب رہے اور آپ رضی اللہ کا شاندار دفاع کرتے رہے اور اسی ہی دوراں اشتر فسادی نے آپ رضی اللہ پر حملہ کردیا تو آپ رضی اللہ نے اسے دن میں تارے دکھا دیئے اور بتا دیا کہ شجاع کیا ہوتا ہے آپ رضی اللہ نے اس میں بہت زخم کھائے تھے ،جنگ کے اختتام پر آپ رضی اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ کے ساتھ بصرہ میں داخل ہوئے اور جب امیر المومنین علی رضی اللہ ام المومنین رضی اللہ سے ملنے آئے تو انہوں نے آپ رضی اللہ کو بھی طلب کیا اور آپ رضی اللہ کو معاف فرما دیا پھر آپ رضی اللہ مدینہ آگئے ۔اور کسی بھی جھگڑے میں حصہ نہیں لیا یہاں تک کہ امیر المومنین علی رضی اللہ شہید ہوگئے۔

خلافت سیدنا معاویہ بن
ابی سفیان رضی اللہ
امیر المومنین علی رضی اللہ کی شہادت اور پھر سیدنا امام حسن رضی اللہ کی ان سے صلح اس سب میں آپ رضی اللہ غائب رہے اور مدینہ و مکہ میں رہے پھر جب مسلمان سیدنا امیر امعاویہ رضی اللہ کی خلافت پر متفق ہوئے تو آپ رضی اللہ نے بھی ان سے بیعت کردی اور آپ رضی اللہ اکثر امیر معاویہ رضی اللہ کے پاس آتے رہتے تھے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ آپ رضی اللہ کا اکرام کرتے تھے اور آپ رضی اللہ کو تحائف سے نوازتے تھے۔

پھر جب سیدنا معاویہ رضی اللہ نے یزید کی سربراہی مین قسطنطینہ کے لئے لشکر تیار کیا تو اس میں تمام کے تمام صحابہ رضی یہاں تک اس وقت سب سے ضعیف صحابہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ بھی اس میں شامل ہوئے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کے بارے میں پیش گوئی کی تھی اس لشکر مین امام حسین رضی اللہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ , عبداللہ بن عباس رضی اللہ ، عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ بھی شریک ہوئے تھے ۔ اسی جنگ مین حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ نے وفات پائی اور یزید نے آپ رضی اللہ کی جنازہ نماز پڑہائی اور آپ رضی اللہ کی وصیت کے مطابق آپ رضی اللہ کو وہاں ہی دفن کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عملن کنارہ کش رہے ۔

یزید کی ولی عہدی

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ امت کا کشت و خون دیکھ چکے تھے اس لئے اپنے بعد خلافت کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے بہت غور وبچار اور صحابہ رضوان اللہ علہم سے مشورہ کے بعد یزید کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا اسکی بہت سی وجوہات تھیں جن کو یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں جو ضروری ہے وہ یہ ہے اس کی ولی عہدی کی شدو مد سے تین حضرات نے مخالفت کی ایک تھے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ جنہوں نے اس کو قیصر و کسری کی سنت قرار دیا اور دوسرے حضرات امام حسین رضی اللہ و عبداللہ بن زبیر رضی اللہ جنہوں اس ولی عہدی کی سخت مخالفت کی اور حضرت معاویہ رضی اللہ کی کوششوں کے باوجود یہ حضرات اس پر آمادہ نہیں ہوئے ۔

خلافت یزید

حضرت معاویہ رضی اللہ کی وفات کے بعد جیسے یزید خلافت پر بیٹھا تو اس نے حضرت امام حسین و عبداللہ بن زبیر رضی اللہ سے بیعت طلب کی۔ اور ان دونوں حضرات نے گورنر سے سوچنے کا ٹائم مانگا تو اس نے دے دیا اور یہ دونوں اسی رات مکہ نکل گئے۔

کربلا کا وقعہ

اس کے دوران کوفی شرارتیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ کو خطوط لکھے کہ آپ رضی اللہ عراق آئیں ہم آپ رضی اللہ کے بیعت کریں گے تو آپ رضی اللہ عنہ انہیں خطوط کی بنا پر روانہ ہوئے ۔
اکابر صحابہ نے آپ رضی اللہ کو منع کیا لیکن آپ رضی اللہ روانہ ہوئے اور راستے مین آپ رضی اللہ کو مسلم بن عقیل رضی اللہ کے قتل کی خبر اور کوفیوں کے جھوٹ کا پتا چلا تو آپ رضی اللہ نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا اور لوٹنے لگے تو آل عقیل رضی اللہ نے ضد کی پھر اس کے بعد آپ رضی اللہ کوفہ کے بجائے کربلا چلے گئے اور وہاں آپ رضی اللہ کو فاجر کوفیوں نے آپ رضی اللہ کو شہید کرڈالا اور اس واقعے سے اسلامی دنیا میں بہت دکھ کی لہر دوڑی اور اس کے اثرات مکہ ومدینہ تک پھنچے ۔

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ اور یزید

عبداللہ رضی اللہ نے یزید کی بیعت نہ کی اور حرم مکہ میں جاکر پناہ گزین ہوگئے واقعہ کربلا کے بعد لوگ آپ رضی اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ رضی اللہ کو دعوت دینے لگے لیکن آپ رضی اللہ نے بیعت نہیں لی اور خاموش رہے پھر مدینہ کے واقعہ حرہ کے بعد لوگوں کی بیچینی اور بڑھ گئی لیکن آپ رضی اللہ خاموش ہی رہے اور یزید کی بیعت نہ کرنے پر آڑے رہے اسی دوران یزید سے خظ و کتابت بھی کی اور ایک جگہ پر یزید نے آپ رضی اللہ کا مشورہ بھی مانا۔ لیکن پھر یزید نے آپ رضی اللہ سے زبردستی بیعت لینے اور آپ رضی اللہ کو گرفتار کرنےکے لئے لشکر مکہ بھیجا جس کا امیر آپ کا بھائی عمرو بن زبیر تھا اور اس کی اور آپ رضی اللہ کی بات چیت چلتی رہی یہان تک آپ رضی اللہ کے کچھ لوگوں نے عمرو بن زبیر کو قتل کرڈالا اس واقعے کے بعد شامیوں نے آپ رضی اللہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن جنگ نہیں ہوئی ۔جب یزید نے قسم کھائی کہ وہ آپ رضی اللہ کو گرفتار کرکہ ہی رہے گا تو آپ رضی اللہ نے بھی خاموشی توڑی اور آپ رضی اللہ نے کہا کہ جو مجھ پر زبردستی کرے گا تو میں بھی چپ نہیں بیٹھوں گا ۔ بھر کیف 64 دن یہ محاصرہ رہا اور اسی دوران یزید کی وفات ہوگئی۔

خلافت امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضی اللہ

یزید کی وفات کی خبر سنتے ہی آپ رضی اللہ نے اپنی طرف لوگوں کو دعوت دی بعض روایات میں ہے یزید کی ہی زندگی میں آپ رضی اللہ نے بیعت کی دعوت دی تو یہ صحیح نہیں کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو مدینہ والے الگ الگ دو امیروں کی بیعت نہ کرتے یعنی ایک انصاری عبداللہ بن حنظلہ اور ایک مہاجر عبداللہ بن مطیع (یہ ابن زبیر رضی اللہ کے حمایتی تھے اس لئے اپنے بجائے ان کی بیعت لیتے) اور نہ ہی ابن زبیر رضی اللہ نے مکہ میں اپنی خلافت کا اعلان کیا آپ رضی اللہ بس یزید کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تھے اور اس کی بیجا سختی سے بچنے کے خاطر مکہ میں جاکر پناہ لی لیکن جیسے ہی یزید کی موت ہوئی تو آپ رضی اللہ نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی,
تاریخ خلیفہ بن خیاط (المتوفی 240 ہجری) میں ہے,

وَفِي سنة أَربع وَسِتِّينَ دَعَا ابْن الزبير إِلَى نَفسه وَذَلِكَ بعد موت يَزِيد بْن مُعَاوِيَة فبويع فِي رَجَب لسبع خلون من سنة أَربع وَسِتِّينَ وَلم يكن يَدْعُو إِلَيْهَا وَلَا يدعا لَهَا حَتَّى مَاتَ يزِيد وَإِنَّمَا كَانَ ابْن الزبير يَدْعُو قبل ذَلِكَ إِلَى أَن تكون شُورَى بَين الْأمة فَلَمَّا كَانَ بعد ثَلَاثَة أشهر من وَفَاة يَزِيد بْن مُعَاوِيَة دَعَا إِلَى بيعَة نَفسه فبويع لَهُ بالخلافة لتسْع خلون من رَجَب سنة أَربع وَسِتِّينَ

یہ سال ہے 64 ہجری کا جس مین ابن زبیر رضی اللہ نے یزید کی موت کے بعد اپنی خلافت کی دعوت دی۔ ان کی بیعت رجب میں ہوئی 64 ہجری میں انہوں اس سے پہلے اپنی طرف نہ دعوی کیا نہ دعوت دی جب تک یزید کا موت نہیں ہوا۔انہوں نے یزید کی موت کے 3 تین مہینے بعد امت کی شوری بلانے کی دعوت دی اور پھر رجب میں اپنی بیعت کی طرف دعوت دی ۔
امام السیوطی نے تاریخ الخلفاء مین بھی اس کی تصریح کی ہے عبداللہ بن زبیر رضہ کے باب مین لکھتے ہیں

فلما مات يزيد بويع له با لخلافة، وأطاعه أهل الحجاز واليمن والعراق وخراسان– ولم يبق خارجًا عنه إلا الشام ومصر فإنه بويع بهما معاوية بن يزيد، فلم تطل مدته، فلما مات أطاع أهلها ابن الزبير وبايعوه

جب یزید کی وفات ہوئی تو ابن زبیر رضی اللہ خلافت کی بیعت ہوئی اور اہل الحجاز ، یمن ، عراق و خراسان نے آپ رضی اللہ کی اطاعت کی اور شام و مصر میں ان کی بیعت نہیں ہوئی انہوں نے معاویہ بن یزید کی بیعت کی اس کی مدت کم ہوئی پھر جب اس کی موت ہوئی تو اہل مصر و شام نے ابن زبیر رضی اللہ کی اطاعت کی اور بیعت کی۔

آپ رضی اللہ کی بیعت کا بیان

قَدْ قَدَّمْنَا أَنَّهُ لَمَّا مَاتَ يَزِيدُ أَقْلَعَ الْجَيْشُ عَنْ مَكَّةَ وَهُمُ الَّذِينَ كَانُوا يُحَاصِرُونَ ابن الزبير وهو عائذ بالبيت فلما رجع حصين بن نمير السكونيّ بالجيش إلى الشام،

جب یزید کی موت ہوئی تو اس کے لشکر نے مکہ سے محآصرہ ختم کیا جو ابن زبیر رضی اللہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے جو بیت اللہ مین پناہ گزین تھے اور حصین بن نمیر السکونی لشکر لے کر شام چلا گیا

استفحل ابن الزُّبَيْرِ بِالْحِجَازِ وَمَا وَالَاهَا، وَبَايَعَهُ النَّاسُ بَعْدَ يزيد بيعة هناك،

آپ رضی اللہ کی امارت حجاز پر قائم ہوگئی اور لوگوں نے یزید کے بعد آپ رضی اللہ کی بیعت کرلی,
ابن کثیر لکھتے ہین

وبويع في رجب بعد أن أقام الناس نحو ثلاثة أشهر بلا إمام.

اور تین مہینہ امام کے بغیر رکے رہنے کے بعد رجب میں لوگوں نے آپ رضی اللہ کی بیعت کی,
یعنی یزید کے موت(ربیع الاول مین اسکی موت ہوئی) کے تین مہینے بعد غالباً معاویہ بن یزید کی دستبرداری کے بعد ہی آپ نے بیعت لی,

واستناب على أهل المدينة أخاه عبيد الله بْنَ الزُّبَيْرِ، وَأَمَرَهُ بِإِجْلَاءِ بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ فَأَجْلَاهُمْ فَرَحَلُوا إِلَى الشَّامِ، وَفِيهِمْ مَرْوَانُ بن الحكم وَابْنُهُ عَبْدُ الْمَلِكِ،

اہل مدینہ پر آپ رضی اللہ نے اپنے بھائی عبیداللہ بن زبیر کو نائب مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ بنو امیہ کو مدینہ سے نکال دے ان مین مروان اور اس کا بیٹا عبدالمالک بھی تھا جو شام چلے گئے,

ثُمَّ بَعَثَ أَهْلُ الْبَصْرَةِ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ بَعْدَ حُرُوبٍ جَرَتْ بَيْنَهُمْ و– ، ثُمَّ بَعَثُوا إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وهو بمكة يخطبونه لأنفسهم، فَكَتَبَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ لِيُصَلِّيَ بِهِمْ

بصرے والوں کی آپس میں کشمکش کے بعد انہوں نے ابن زبیر رضی اللہ کو لکھا تو آپ رضی اللہ نے انس بن مالک رضی اللہ کو ان پر نماز پڑھانے پر مقرر کردیا,

سب سے پہلے آپ رضی اللہ کی بیعت مصعب بن عبدالرحمن رضی اللہ نے کی پھر عبداللہ بن جعفر رضی اللہ نے اور عبداللہ بن علی بن ابی طالب رضی اللہ نے اپ کی بیعت کردی, ابن عمر رضی اللہ ابن حنفیہ و ابن عباس رضی اللہ نے آپ رضی اللہ کی بیعت سے رکے رہے۔

حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں,

وَبَعَثَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ عَبْدَ الرحمن ابن يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَلَى الْخَرَاجِ، واستوثق له المصران جميعا،

آپ رضی اللہ نے عبدالرحمن بن یزید انصاری رضی اللہ کو نماز کا امام اور ابراہیم بن محمد بن طلحہ رضی اللہ کو خراج پر مقرر کرکہ کوفہ بھیجا تو دونوں شہروں نے آپ رضی اللہ کی اطاعت کی,

وأرسل إلى مِصْرَ فَبَايَعُوهُ. وَاسْتَنَابَ عَلَيْهَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جحدر، وَأَطَاعَتْ لَهُ الْجَزِيرَةُ،

آپ رضی اللہ نے مصر والوں کی طرف آدمی بھیجا تو انہوں آپ رضی اللہ کی بیعت کرلی اور آپ رضی اللہ نے عبدالرحمن بن جحدر رضی اللہ کو ان پر امیر مقرر کیا جزیرہ نے آپ رضی اللہ کی اطاعت کرلی,

وَبَعَثَ عَلَى الْبَصْرَةِ الْحَارِثَ بن عبد الله بن رَبِيعَةَ، وَبَعَثَ إِلَى الْيَمَنِ فَبَايَعُوهُ، وَإِلَى خُرَاسَانَ فَبَايَعُوهُ،

بصرہ پر حارث بن عبداللہ بن ربیعہ رضی اللہ کو امیر بان کر بھیجا یمن و خراسان کی طرف آدمی بھیجے تو انہوں نے بھی اطاعت کردی,

وَإِلَى الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ بِالشَّامِ فَبَايَعَ، وَقِيلَ إِنَّ أَهْلَ دِمَشْقَ وَأَعْمَالَهَا مِنْ بِلَادِ الْأُرْدُنِّ لَمْ يُبَايِعُوهُ

شام میں ضحاق بن قیس کو پیغام بھیجا تو انہوں بیعت کردی کہتے ہیں کہ اردن اور دمشق کے گرد و نواح لوگوں نے اپ رضی اللہ کی بیعت نہیں کی,

ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ تمام بلاد اسلام سواء اردن کے سب میں آپ رضی اللہ کی بیعت ہوچکی تھی اس لئے امام ابن حزم و کچھ علماء آپ رضی اللہ کی خلافت کو مانتے ہیں اور آپ رضی اللہ کے بعد ہی عبدالمالک کو خلیفہ مانتے ہیں,

ابن کثیر فرماتے ہیں,

وَعِنْدَ ابْنِ حَزْمٍ وَطَائِفَةٍ أَنَّهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ في هذا الحين

یعنی ابن حزم و کچھ گروہ کے مطابق آپ رضی اللہ اس وقت امیر المومنین تھے ۔

البتہ اکثریت علماء اکرام آپ رضی اللہ کی خلافت کلی کے قائل نہیں ہیں بس حجاز پر ہی آپ رضی اللہ کی خلافت کے قائل ہیں اور آپ رضی اللہ کے بعد عبدالمالک پر لوگ متفق ہوئے تو اس کی خلافت کے قائل ہیں, حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس کی تصریح کی ہے فرماتے ہیں

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ لَا يَنْقَضِي حَتَّى يَمْضِيَ فِيهِمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً . قَالَ : ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلَامٍ خَفِيَ عَلَيَّ . قَالَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَا قَالَ ؟ قَالَ : كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ
(رواه البخاري (رقم/7222) ومسلم واللفظ له (رقم/1821)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں

، بقوله في بعض طرق الحديث الصحيحة : كلهم يجتمع عليه الناس ” وإيضاح ذلك أن المراد بالاجتماع انقيادهم لبيعته .
والذي وقع أن الناس اجتمعوا على أبي بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي إلى أن وقع أمر الحكمين في صفين ، فسمي معاوية يومئذ بالخلافة ، ثم اجتمع الناس على معاوية عند صلح الحسن ، ثم اجتمعوا على ولده يزيد ولم ينتظم للحسين أمر بل قتل قبل ذلك ، ثم لما مات يزيد وقع الاختلاف إلى أن اجتمعوا على عبد الملك بن مروان بعد قتل ابن الزبير ، ثم اجتمعوا على أولاده الأربعة : الوليد ثمسليمان ثم يزيد ثم هشام ، وتخلل بين سليمان” عمر بن عبد العزيز ، فهؤلاء سبعة بعد الخلفاء الراشدين ,
(فتح الباري شرح صحيح البخاري –
كِتَاب الْأَحْكَامِ – باب استخلاف- حدیث جابر بن سمرہ)

اور جو قول کچھ صحیح احادیث میں ائے ہیں ان سب پر لوگ جمع ہوئے تو اس کی مراد یہ ہے کہ ان کی بیعت کرنے میں لوگ ان کے فرمانبدار ہوئے اور جو واقع ہوا یعنی لوگ جمع ہوئےخلیفہ رسول اللہ ابی بکر الصدیق پر ، امیر المومنین عمر الفاروق پر ، امیر المومنین عثمان غنی پر ، امیر المومنین علی المرتضی پر اور یہ حکمین کے واقعے میں ہوا صفین کے کے دوران ، اور اس وقت سے معاویہ رضی اللہ پر لوگ متفق ہوئے جب صلح حسن ہوئی ، پھر ان کے بیٹے یزید پر جمع ہوئے اور امام حسین رضہ پر متفق نہیں ہوئے کہ وہ اس امر سے پہلے ہی قتل ہوگئے تھے ، اور پھر یزید کے مرنے کے بعد اختلاف ہوا پھر عبدالمالک بن مروان پر متفق ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کے قتل کے بعد ،
پھر اس کے چار بیٹوں پر یعنی ولید ، سلیمان ، یزید ، ہشام ، اور ہشام و سلیمان کے درمیان عمر بن عبدالعزیز پر اور ان کی تعداد سات ہوتی ہے خلفاء راشدین کے بعد)

بحرحال اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تمام بلاد اسلامیہ بشمول شام میں و حمص میں آپ رضی اللہ کی بیعت ہوئی آپ رضی اللہ وہاں خلیفہ رہے تانکہ مروان نے آپ رضی اللہ پر خروج کیا ۔ یعنی مکمل ایک سال تک آپ متفق خلیفہ رہے

امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کی سیاسی غلطی

جب یزید کی موت ہوئی تو حصین بن نمیر آپ رضی اللہ کے پاس آیا اور کہا آپ رضی اللہ شام چلیں آپ رضی اللہ کے علاوہ اس وقت کوئی لائق نہیں میں آپ رضی اللہ کی خلافت کی بیعت وہاں لے لوں گا بس آپ رضی اللہ شامیوں کو بخش دیں لیکن آپ رضی اللہ نے اسے کہا کہ نہیں میں ہر حجازی کے بدلے دس شامیوں کا قتل کروں گا,

یہ بات بعید از قیاس ہے ابن زبیر رضی اللہ نے ایسا کہا ہوگا وہ متقی و پرہیز گار تھے ایسے باتیں نہیں کہتے تھے ,آپ رضی اللہ نے منع کردیا اور مدینہ کے عامل کولکھا کہ بنی امیہ کو نکال دو اور مروان و عبدالمالک کو نکال دیا گیا ۔
حالانکہ وہ دونوں اس وقت آپ رضی اللہ کے قبضہ میں تھے اور بلاد میں آپ رضی اللہ کا معاملہ طے پاچکا تھا بس مروان شام گیا اور وہاں ابن زیاد اور حصین بن نمیر نے اس کو خلافت پر آمادہ کیا وہ خود حضرت ابن زبیر رضی اللہ کی بیعت کرنا چاہتا تھا لیکن ابن زیاد نے اسے ٹوکا کہ تم بنی امیہ کے سردار ہوکر ابن زبیر رضی اللہ کی بیعت کرتے ہو۔

مروان کی بغاوت

السیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں

، ثم خرج مروان بن الحكم فغلب على الشام ثم مصر،
والأصح ما قاله الذهبي أن مروان لا يعد في أمراء المؤمنين، بل هو باغٍ خارج على ابن الزبير، ولا عهده إلى ابنه بصحيح، وإنما صحت خلافة عبد الملك من حين قتل ابن الزبير،

مروان بن حکم کا خروج اور اس شام اور مصر پر قبضہ کرلینا

صحیح یہ ہے کہ جیسا ذہبی نے کہا ہے کہ مروان بن حکم کو امیر المومنین سمجھنا غلط ہے کیوں کہ اس نے ابن زبیر رضی اللہ کے خلاف خروج کیا تھا اور نہ ہی اس کے بیٹے کی ولی عہد کرنا صحیح تھا اور عبدالمالک کی خلافت ابن زبیر رضی اللہ کے قتل کے بعد صحیح سمجھنی چاہئے,

اسی بات کو ابن کثیر اس طرح زکر کرتے ہین

وَقَدْ بَايَعَ أَهْلُهَا الضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ عَلَى أَنْ يُصْلِحَ بَيْنَهُمْ وَيُقِيمَ لَهُمْ أَمْرَهُمْ حَتَّى يجتمع الناس على إمام، وَالضَّحَّاكُ يُرِيدُ أَنْ يُبَايِعَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، وَقَدْ بَايَعَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ بِحِمْصَ، وبايع له زفر بن عبد الله الكلابي بقنسرين، وبايع له نائل بْنُ قَيْسٍ بِفِلَسْطِينَ، وَأَخْرَجَ مِنْهَا رَوْحَ بْنَ زِنْبَاعٍ الْجُذَامِيَّ،

شامیوں نے ضحاک بن قیس کے ہاتھ پر (ابن زبیر رضی اللہ کی بیعت )اس شرط پر کی کہ وہ ان کے اور شامیوں کے درمیاں صلح کرائیں گے اور معاملہ ٹھیک کریں گے یہاں تک کہ لوگ ایک امام (ابن زبیر رضی اللہ ) پر جمع ہوں,
ضحاک چاہتے تھے کہ ابن زبیر رضی اللہ کی بیعت مکمل ہوجائے اور حمص میں نعمان بن بشیر رضی اللہ (گورنر) نے بیعت کرادی تھی اور اور زفر بن عبداللہ کلابی نے قنسرین میں بیعت کرا دی اور نائل بن قیس نے فلسطین میں (ابن زبیر رضی اللہ ) کی بیعت کرا دی اور روح بن زنباع کو وہاں سے نکال دیا۔

اسکے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ

فَلَمْ يَزَلْ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ وَالْحُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ بِمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ يحسنون له أن يتولى، حَتَّى ثَنَوْهُ عَنْ رَأْيِهِ وَحَذَّرُوهُ مِنْ دُخُولِ سُلْطَانِ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَمُلْكِهِ إِلَى الشَّامِ، وَقَالُوا لَهُ: أَنْتَ شَيْخُ قُرَيْشٍ وَسَيِّدُهَا، فَأَنْتَ أَحَقُّ بهذا الأمر. فرجع عن البيعة لابن الزبير، وخاف ابن زياد الهلاك إن تولى غير بنى أمية، فعند ذلك التف هَؤُلَاءِ كُلُّهُمْ مَعَ قَوْمِهِ بَنِي أُمَيَّةَ وَمَعَ أهل اليمن على مروان، فوافقهم على ما أرادوا، وَجَعَلَ يَقُولُ مَا فَاتَ شَيْءٌ

عبیداللہ بن زیاد اور حصین بن نمیر مروان بن حکم کو امارت خوبصورت بنا کر پیش کرتے رہے اور انہوں نے اس کی راء
(بیعت ابن زبیر مروان جا رہا تھا آپ کی بیعت کرنے )سے اسے موڑ دیا اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ کے شام میں اقتدار سے اس کو خوفزدہ کیا اور کہا کہ تم قریش کے شیخ و سردار ہو اور اسی پر تمہارا حق ہے بس اس نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ کی بیعت کو ترک کردیا اور ابن زیاد نے اسے بنی امیہ سے اقتدار جانے کی صورت میں ہلاکت سے ڈرایا اور اسی طرح یہ سب لوگ بنی امیہ اور اہل یمن مروان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کچھ نہیں بدلا ہے۔
یعنی مروان نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ کی بیعت کو ترک کر دیا اور حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ کو قتل کرکہ دمشق پر قبضہ کرلیا ۔ ضحاک بن قیس رضی اللہ نے اپنی فوج کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا لیکن قتل ہوگئے اور ان کے قتل کے بعد ان کے لوگ مروان کی طرف آگئے پھر اس نے حمص میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ کو قتل کردیا اور اس پر قبضہ کرلیا اور اسی کے بعد مصر پر بھی قبضہ کرلیا اور اسی دوران مروان کی موت ہوگئی ، اس کی بیوی نے بدعہدی کرنے پر اسے مار دیا (واللہ اعلم)

یہاں پر بھی اگر حضرت ابن زبیر رضی اللہ اپنی فوج سے ضحاک بن قیس رضی اللہ کی امداد کرتے تو شاید شام میں ان کی خلافت باقی رہتی اور مصر تو تھا ہی شام کے رحم و کرم پر اور مروان اس طرح بغاوت نہیں کرپاتا ۔لیکن حیرت ہے آپ رضی اللہ نے بلکل بھی اسی طرف توجع نہیں دی کیا سبب تھا اللہ بہتر جانتا ہے۔

عبدالمالک بن مروان اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ

مروان کے مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اس کا بیٹا عبدالمالک تخت نشین ہوا لیکن اس کی نہ تو ولی عہدی صحیح تھی اور نہ ہی ابن زبیر رضی اللہ کے قتل ہونے تک وہ خلیفہ کہا جا سکتا ہے ۔ اس نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ کی طرف خصوصی توجہ دی اور خآص طور پر عراق وخراسان میں اس نے لوگوں کو آپ رضی اللہ کے خلاف بھڑکایا۔

مختار کا فتنہ

آپ رضی اللہ کے ہی دور میں مختار نے حضرت امام حسین رضی اللہ کا قصاص لینے کے بہانے ایک تحریک شروع کی جو دراصل عراق میں اپنی حکومت بنانے کی تحریک تھی اس نے بھی حالات کی خرابی کا فائدہ لیا اور امام حسین رضی اللہ قصاص کے بہانے اچھی خاصی فوجی قوت حاصل کرلی اور عراق پر قبضہ کرلیا اور ساتھ میں حضرت ابن زبیر رضی اللہ کو بھی لکھتا رہا کہ آپ رضی اللہ کا فرمانبردار ہوں اس لئے آپ رضی اللہ نے اس کو کوفہ پر مقرر کردیا لیکن اس کی بد عادات اور جھوٹے دعوی ظاہر ہونے لگے تو آپ رضی اللہ نے اپنے بھائی اور بصرہ کے نائب مصعب بن زبیر رضی اللہ کو اس کی سرکوبی پر مقرر کیا اور مصعب رضی اللہ نے اس کو آکر شکست دی اور قتل کردیا پھر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے بصرہ اور کوفہ دونوں پر مصعب رضی اللہ کو مقرر کردیا۔

عبدالمالک نے دو لشکر تیار کرکہ روانہ کردئے ایک تھا عبیداللہ بن زیاد کا لشکر کوفہ پر قبضہ کے لئے اور دوسرہ فوج حبیش بن دجلہ کی سربراہی میں مدینہ بھیجی ، عبیداللہ بن زیاد کی راستہ میں تابیں سے ٹکراو ہوگیا اور اسے شکست ہوئی اور قتل ہوگیا اور دوسرے لشکر کو شکست دینے کے لئے حضرت ابن زبیر رضی اللہ نے عباس بن سہل بن سعد رضی اللہ کو نائب بنا کر مدینہ بھیجا اور اس نے جاکر حبیش کو شکست دی اور حبیش بن دجلہ قتل ہوا۔
سال 68 ہجری میں حضرت ابن زبیر رضی اللہ نے خراسان ، آزربائیجان ، آرمینیا اور دوسرے علائقوں میں اپنے نائبین مقرر کئے اور اپنے بھائی مصعب رضی اللہ کو بصرہ مین رہنے کی تلقین کی اور وہ جا کر بصرہ میں رہنے لگے ۔

خوارج کے ساتھ جنگ

خوارج نے پہلے حضرت ابن زبیر رضی اللہ کی بیعت کرلی تھی پھر وہ لوگ مکہ میں آپ رضی اللہ سے ملنے آئے اور آپ رضی اللہ سے حضرت عثمان رضی اللہ ,حضرت علی رضی اللہ کے بارے میں پوچھا تو آپ رضی اللہ نے ان کو جواب دیا جس سے وہ غصہ ہوکر چل بسے اور پھر آپ رضی اللہ کے خلاف خراسان اور مضافات میں خروج کیا,
آپ رضی اللہ کے بصرہ کے عامل عبداللہ بن حرث اور خراسان کے عامل مہلب بن ابی صفرہ نے ان کے مقابلہ کے لیے مسلم بن عبیس کے سربراہی میں لشکر بھیجا جس نے جاکر انہیں شکست فاش دی ۔



مصعب اور عبدالمالک کا مقابلہ

عبدالمالک نے آتے ہی کوفہ کے سرداروں سے خط و کتابت شروع کر رکھی تھی ابراہیم بن الاشتر کو عراق و خراسان کا امیر بنانے کی لالچ دی اور بصرہ کے لوگوں کو بھی خطوط لکھے اور اس کے آدمی وہاں پھنچ گئے مصعب مکہ گئے ہوئے تھے پھر جب مصعب لوٹے تو انہوں نے اہل بصرہ کو خوب باتیں سنائیں اور انہوں نے ابراہیم ابن الاشتر کو طلب کیا تو اس نے ابن زبیر رضی اللہ کی بیعت کر دی اور مصعب نے اسے فوج کا سالار بنادیا ،
پھر عبدالمالک ایک بڑا لشکر لے کر مصعب پر چڑھ آیا اور مصعب بھی اس کے مقابلہ پر نکلے,
جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو عبدالمالک نے عراقی سرداروں کو پناہ دینے اور مختلف لالچوں کے خطوط لکھے اور ایک خط ابراہیم الاشتر کے پاس بھی آیا تھا اس نے خط کھول کر مصعب کے پاس رکھ دیا اور کہا اے امیر اس نے مجھے عراق کی امارت کی لالچ دی ہے ,
آپ میری بات ماننے جن سرداروں کو خظوط آئیں ہیں انہیں قتل کردیجئے تو مصعب نے کہا کہ نہیں اس طرح قبائل ہم سے منہ موڑ لیں گے اور پھر ابراہیم نے کہا اے امیر!! قید کردیجئے اگر آپ کو فتح ہوئی تو قتل کردینا ورنہ وہ خود بخؤد آزاد ہوجائیں گے ,
مصعب نے کہا اللہ تعالی احناف پر رحم کرے ہر وقت مجھے اہل عراق کے دھوکے و دغا سے ڈراتے رہتے تھے گویا کہ وہ ہماری آج کی پوزیشن کو دیکھ رہے تھے۔
بس پھر دیر الجالثین کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمنہ سامنہ ہوا اور ابراہیم نے محمد بن مروان کی فوج پر حملہ کردیا اور شامیوں کو پیچھے دھکیل دیا, عبدالمالک نے عبداللہ بن یزید کو ان پر حملہ کرنے کو کہا اور انہوں نےبہت زبردست جنگ کی پھر ابراہیم الاشتر شہید ہوگئے ۔
اس کے بعد مصعب بن زبیر قلب میں کھڑے ہوکر علمبرداروں اور بہادروں کو پکارنے لگے لیکن کسی نے حرکت نہیں کی تو مصعب نے کہا اے ابراہیم آج ہم دوسرا ابراہیم کہاں سے لائیں بس لوگوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور بہت تھوڑی سی جمیعت آپ کے پاس رہ گئی اور آپ نے اپنے سسر حضرت امام حسین رضی اللہ کو یاد کیا اور کہا کس طرح اہل عراق نے آپ سے دغا کی اور آپ کے بھائی اور والد سے دغا کی پھر مصعب رضی اللہ نے کہا انہوں نے ہمارے ساتھ بھی دغا کی اور
عبدالمالک نے اپنے بھائی کے ہاتھ مصعب کو امان بھیجی ۔
تو آپ نے امان سے انکار کردیا اور اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ سے دغا کو دھوکہ تصور کیا اور کہا میرے جیسا آدمی یا تو غالب رہے گا یا مغلوب ہوکر قتل ہوگا۔(یہ حضرت زبیر رضی اللہ کے فرزند تھے اور امام حسین رضی اللہ کے داماد ان کو ایسے ورغلانہ آسان نہ تھا) بس محمد بن مروان نے پھر آپ کو آواز دی اے میرے بھتیجے میری بات مان لے آور ایسا مت کر لیکن آپ نے انکار کردیا اور شدید جنگ کی یہاں تک خود آپ ہی کے فوجیوں یعنی اہل عراق نے آپ پر تیر چلا کر آپ کو قتل کردیا اور آپ کا سر کاٹ کر عبدالمالک کے پاس لے گئے۔
عبدالمالک مصعب رضی اللہ سے شدید محبت کرتا تھا اور ان کی پرانی گہری دوستی تھی اس نے اس کے قتل پر افسوس کیا اور اپنی خلافت کو بے برکت تک کہا۔

آپ کی بیوی سکینہ بنت حسین رضی اللہ نے آپ پر بہت دکھ کیا اور آپ رضی اللہ کو اپنے بابا امام حسین رضی اللہ کے مثل قتل ہوتے دیکھا کیوں کہ یہ امام حسین کے بھی ساتھ تھیں اور عین جنگ میں اپنے شوہر مصعب رضی اللہ کے بھی ساتھ تھیں آپ رضی اللہ نے بڑے ہی غمگین انداز میں آپ رضی اللہ کو جب مقتول پایا تو آپ رضی اللہ کا مرثیہ کہا جو تواریخ میں موجود ہے۔

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کو جب مصعب بن زبیر رضی اللہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ رضی اللہ نے ان پر مرثیہ کہا اور انہیں اپنے سب بھائیوں میں وفا کرنے والا بھائی کہا ۔،آپ رضی اللہ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور آپ رضی اللہ اس میں مصعب رضی اللہ کی شہادت کی اطلاح دی تو لوگ اشکبار ہوئے اور خؤد آپ رضی اللہ رونے لگے کہ خطبہ بھی نہیں دے پائے ۔

آپ رضی اللہ نے کی تقریر یہ تھی

ابن کثیر فرماتے ہیں,

لَمَّا انْتَهَى إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَتْلُ أَخِيهِ مُصْعَبٍ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا فَقَالَ: الْحَمْدُ للَّه الَّذِي لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ يُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ وَيَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ يَشَاءُ، وَيُعِزُّ مَنْ يَشَاءُ وَيُذِلُّ مَنْ يَشَاءُ، بيده لخير وهو على كل شيء قدير، أَلَا وَإِنَّهُ لَمْ يُذِلَّ اللَّهُ مَنْ كَانَ الْحَقُّ مَعَهُ وَإِنْ كَانَ فَرْدًا وَحْدَهُ، وَلَنْ يُفْلِحَ مَنْ كَانَ وَلَيَّهُ الشَّيْطَانُ وَحِزْبُهُ وَلَوْ كَانَ مَعَهُ الْأَنَامَ طُرًّا، أَلَا وَإِنَّهُ أَتَانَا مِنَ الْعِرَاقِ خَبَرٌ أَحْزَنَنَا وَأَفْرَحَنَا، أَتَانَا قَتْلُ مصعب فأحزننا فَأَمَّا الَّذِي أَفْرَحَنَا فَعِلْمُنَا أَنَّ قَتْلَهُ لَهُ شهادة، وأما الّذي أحزننا فان الحميم لفراقه لوعة يجدها حميمه عند المصيبة ثُمَّ يَرْعَوِي مِنْ بَعْدِهَا، وَذُو الرَّأْيِ جَمِيلُ الصَّبْرِ كَرِيمُ الْعَزَاءِ، وَلَئِنْ أُصِبْتُ بِمُصْعَبٍ فَلَقَدْ أُصِبْتُ بِالزُّبَيْرِ قَبْلَهُ، وَمَا أَنَا مِنْ عُثْمَانَ يخلو مُصِيبَةٍ، وَمَا مُصْعَبٌ إِلَّا عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِ اللَّهِ، وَعَوْنٌ مِنْ أَعْوَانِي، أَلَا وَإِنَّ أَهْلَ الْعِرَاقِ أَهْلُ الْغَدْرِ وَالنِّفَاقِ أَسْلَمُوهُ وَبَاعُوهُ بِأَقَلِّ الثَّمَنِ، فَإِنْ يُقْتَلْ فَإِنَّا وَاللَّهِ مَا نَمُوتُ عَلَى مَضَاجِعِنَا كَمَا تَمُوتُ بَنُو أَبِي الْعَاصِ، والله ما قتل منهم رَجُلٌ فِي زَحْفٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَلَا فِي الْإِسْلَامِ. وَمَا نَمُوتُ إِلَّا بِأَطْرَافِ الرِّمَاحِ أَوْ تحت ظل السيوف، فان بنى أبى العاص يجمعون الناس بالرغبات والرهبات، ثم يقاتلون بهم أعداءهم ممن هو خير منهم وأكرم ولا يقاتلون تابعيهم زحفا، أَلَا وَإِنَّ الدُّنْيَا عَارِيَةٌ مِنَ الْمَلِكِ الْأَعْلَى الَّذِي لَا يَزُولُ سُلْطَانُهُ وَلَا يَبِيدُ مُلْكُهُ، فان تقبل الدنيا لآخذها أخذ الأشر البطر، وإن تدبر لا أبكى عليها بكاء الحزين الأسف الْمَهِينِ، أَقُولُ قَوْلِي هَذَا وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلَكُمْ.

جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کو اپنے بھائی مصعب رضی اللہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ رضی اللہ نے کھڑے ہوکر لوگوں میں تقریر کی اور فرمایا ۔ سب تعریف اس اللہ تعالی کے لیے ہیں جس کے لئے امر و خلق ہے وہ جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے آگاہ رہو کہ جس کے ساتھ حق ہو اسے اللہ تعالی نے کبھی ذلیل نہین کیا خواہ وہ فرد واحد ہو وہ شخص کبھی کامیاب نہیں ہوا جس کا دوست شیطان اور اس کی پارٹی ہو خواہ اس کے ساتھ سارے لوگ ہوں آگاہ رہو ہمارے پاس عراق سے خبر آئی ہے جس نے ہمیں غمگین کیا ہے ہمارے پاس مصعب کے قتل کی خبر آئے ہے تو اس نے ہمیں غمگین کردیا ہے وہ یہ کہ بلاشبہ قریبی عزیز کو مصیبت رضی اللہ کے وقت غم کی جلن محسوس ہوتی ہے اور بعد آزاں اس سے باز آجاتا ہے اور صبر کرنے والا ہوتا ہے مجھے مصعب رضی اللہ کی تکلیف پھنچی ہے اور اس کے قبل مجھے حضرت زبیر رضی اللہ کی تکلیف بھی پھنچ چکی ہے اور میں حضرت عثمان کی مصیبت سے بھی خالی نہین ہوں اور مصعب اللہ کے بندوں مین ایک بندہ اور میرے مددگاروں میں سے ایک مددگار تھا آگاہ رہو عراقی غداروں اور منافقوں نے اس کی مدد چھوڑ دی تھی اور اسے کم تر قیمت میں بیچ ڈالا تھا اگر وہ قتل ہوگیا ہے تو قسم بخدا ہم اپنے بستروں پر نہین مریں گے جیسا کہ بنو ابی العاص مرا کرتے ہیں خداکی قسم جاہلیت اور اسلام میں ان میں کوئی شخص لشکر مین قتل نہیں ہوا اور ہم نیزوں کی نوکوں اور تلواروں کے سائے مین مرتے ہیں بلاشبہ بنو ابی العاص لوگوں کو رغبت دلانے والی اور ڈرانے والی چیزوں سے اکٹھا کرتے ہیں پھر ان کے ساےھ لوگوں سے جنگ کرتے ہیں جو ان سے بہتر اور معزز ہوتے ہیں اور ان پیرکاروں سے فوج کی صورت مین جنگ نہین کرتے آگاہ رہو کہ دنیا اس بلند و برتو بادشاہ سے عاریۃ ہے جس کی بادشاہت کو زوال نہیں اور نہ اس کی حکومت تباہ ہوسکتی ہے اگر دنیا آئے تو میں اسے ایک متکبر اور ناپسند کرنے والے کی طرح پکڑوں گا اور اگر وپ پشت پھیر جائے تو میں اس پر غمگین اور حقیر آدمی کی طرح نہیں روئوں گا میں یہ بات کہتا ہوں اور اپنے لئے اور تمہارے لئے دینا سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

امیر المومنین عبداللہ بن زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اور عبدالمالک کے درمیان کشمکش

عراق میں مصعب رضی اللہ کے قتل کے بعد عبدالمالک نے قبضہ کردیا تھا اور پھر وہ حجاز پر فوج کشی کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن کوئی آدمی اس کے لئے تیار نہیں ہوپایا تو حجاج نے جا کر اس کام کو کرنے کا وعدہ کیا اور عبدالمالک نے اسے امیر لشکر و گورنر حجاز بنا کر بھیج دیا ۔ عبدالمالک نے مکہ پر سیدھا چڑہنے سے گریز کیا اور اس نے چھوٹے لشکر بنا کر حجاز بھیجے ان میں ایک مدینہ کی طرف عروہ بن انیف کی سربراہی میں بھیجا تو ابن زبیر رضی اللہ کے گورنر مدینہ چھوڑ گئے پھر وہ واپس شام چلا گیا تو یہ بھی واپس آگئے پھر ابن زبیر رضی اللہ انہیں معزول کردیا عبدالمالک نے پھر خیبر پر لشکر بھیجا اس کا امیر عبدالمالک بن حرث تھا اور ابن زبیر رضی اللہ کے عامل سلیمان بن خالد تھے جو اس جنگ میں شہید ہوئے پھر حضرت ابن زبیر رضی اللہ کو حالات کا علم ہوا تو آپ رضی اللہ نے جابر بن اسود کو مدینہ کا عامل بنا کر بھیجا اس نے ابو بکر بن قیس کو خیبر روانہ کیا اور ابوبکر نے سلیمان کو شکست دے کر خیبر واپس فتح کرلیا ۔
عبدالمالک نے پھر طارق بن عمر کو حجاز روانہ کیا اس نے اکر خیبر پر حملہ کیا اور خیبر کے عامل ابو بکر بن قیس نے سخت مزاحمت کی لیکن شہید ہوئے تو عامل مدینہ جابر بن اسود نے دو ہزار کا لشکر خیبر روانہ کردیا اور وہاں بہت سخت جنگ ہوئی اور جابر کی فوج کو شکست ہوئی اور ان کے بہت سے آدمی مارے گئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کو جب اس علم ہوا تو آپ رضی اللہ نے جابر کو معزول کرکہ محمد بن طلحہ کو مدینہ کا عامل بنا کر بھیجا پھر ان کے درمیان جنگ ہوتی رہی اور مدینہ بدستور ابن زبیر رضی اللہ کی حکومت میں رہا ۔
اخر کا عبدلمالک نے مکہ پر فوج کشی کا ارادہ کرلیا ۔ لیکن سراداران شام مکہ پر حملہٓ کرنے سے گزیر کرنے لگے عبدلمالک نے پھر ایک نوجون حجاج بن یوسف کو اس کام پر لگا دیا ۔

حجاج بن یوسف کی مکہ پر چچڑھائی
حجاج بن یوسف حجاز طائف میں آیا کیونکہ یہ اسی کا شہر تھا پھر یہ وہاں سے دستے لڑنے کے لئے مکہ بھیجتا رہتا تھا حضرت ابن زبیر رضہ نے مکہ کی حفاظت کے انتظام کر لئے تھے اور ان کی مکہ کے باہر لڑائی ہوتی رہتی لیکن پھر عبدالمالک نے حجاج کی مدد کے لئے نئی فوج بھیج دی اور اس کے آتے ہی حجاج فوجیں لے کر مکہ پر چڑہ آیا اور اس کا محاصرہ کرلیا اور یہ لوگ روزانہ مکہ و حرم پر سنگ باری کرتے رہتے تھے اور آگ کے گولے بھی پھینکتے تھے اسی سنگ باری کی وجہ صحابی رسول اللہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ ایک دن حرم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک پتھر آکر انہیں لگا اور شہید ہوئے۔
حجاج نے مکہ میں رسد بھی بند کردی تھی حضرت ابن زبیر رضی اللہ نے پہلے انتظامات کرلئے تھے ,لیکن محاصرہ طویل ہونے لگا تو خوراک کی کمی ہونے لگی پھر ایام حج بھی آگئے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر حجاج نے ایام حج مین سنگ باری رکوا دی۔
لیکن حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ اور آپکے ساتھی حج و قربانی نہیں کرپائے کیوں کہ آپ رضی اللہ محصور تھے۔

حرم میں جنگ

اسی دوران حجاج نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ کو خط لکھا لیکن آپ رضی اللہ نے اس کوئی جواب نہ دیا اور ڈٹے رہے یہاں تک جنگ حرم تک آگئی بہت لوگوں نے آپ رضی اللہ کا ساتھ چھوڑ دیا اور یہاں تک آپ رضی اللہ کے بیٹوں نے بھی آپ رضی اللہ کا ساتھ چھوڑ کر حجاج کی طرف چلے گئے بس آپ رضی اللہ کے ساتھ چند مخلصی ساتھی رہ گئے ,
اس صورتحال میں آپ رضی اللہ اپنی والدہ محترمہ کے پاس تشریف لائے اور ان سے ملاقات کی۔ اور انہیں اس بات کی شکایت کی کہ مجھے میرے بیٹوں تک نے چھوڑ دیا ہے آپ رضی اللہ کا آور آپ رضی اللہ کی والدہ کا مکالمہ نصیحت آموز ہے, جسے پورے کا پورا ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔

آپ رضی اللہ کا اپنی والدہ سے ملاقات اور صدیق اکبر رضی اللہ کی بیٹی اور نواسے کا سبق آموز مقالمہ ۔
(پورا مقالمہ حافظ ابن کثیر کی کتاب البدایہ والنھایہ سن 73 ہجری کے وقعات سے لیا ہے)

وَدَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَلَى أُمِّهِ فَشَكَا إِلَيْهَا خِذْلَانَ النَّاسِ لَهُ، وَخُرُوجَهُمْ إِلَى الْحَجَّاجِ حَتَّى أَوْلَادِهِ وَأَهْلِهِ، وَأَنَّهُ لَمْ يَبْقَ مَعَهُ إِلَّا الْيَسِيرُ، وَلَمْ يَبْقَ لَهُمْ صَبْرُ سَاعَةٍ، وَالْقَوْمُ يُعْطُونَنِي مَا شِئْتُ مِنَ الدُّنْيَا، فَمَا رَأْيُكِ؟

عبداللہ بن زبیر رضی اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے امی جان لوگ ہمیں چھوڑ کر حجاج کے پاس چلے گئے ہیں اور میرے اپنے بیٹے بھی مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور بہت تھوڑے آدمی میرے پاس رہ گئے ہیں, جو وہ بھی اب صبر نہیں کرسکتے ،اور دشمن میری ہر بات ماننے کیوں تیار ہے (دستبرادری کی صورت میں) اس میں آپ کی کیا راء ہے

تو صدیق اکبر رضی اللہ کی بیٹی نے جواب دیا

فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ أَنْتَ أَعْلَمُ بِنَفْسِكَ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ عَلَى حَقٍّ وَتَدْعُو إِلَى حَقٍّ فَاصْبِرْ عَلَيْهِ فَقَدْ قُتِلَ عَلَيْهِ أَصْحَابُكَ، وَلَا تُمَكِّنْ مِنْ رَقَبَتِكَ يَلْعَبْ بِهَا غلمان بنى أمية، وإن كنت تعلم أنك إِنَّمَا أَرَدْتَ الدُّنْيَا فَلَبِئْسَ الْعَبْدَ أَنْتَ، أَهْلَكْتَ نَفْسَكَ وَأَهْلَكْتَ مَنْ قُتِلَ مَعَكَ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى حَقٍّ فَمَا وَهَنَ الدِّينُ وَإِلَى كَمْ خلودك فِي الدُّنْيَا؟ الْقَتْلُ أَحْسَنُ

اے میرے بیٹے اپنے متعلق تم بہتر جانتے ہو اگر تو اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور حق کی دعوت دیتا ہے, تو صبر کر تیرے اصحاب اس میں ہلاک ہوچکے ہیں، اپنی گردن پر ان کو قابو نہ دینا کہ بنی امیہ کے بچے اس سے کھیلتے پھریں ، اور تو جانتا ہے کہ اگر تیرا مطلب دنیا ہے تو ، تو بہت برا آدمی ہے کہ اپنے آپ کو بھی ہلاکت میں ڈالا اور اپنے ان اصحاب کو بھی ہلاکت میں ڈالا جو تیرے ساتھ لڑ رہے ہیں اور اگر تو حق پر ہے تو اللہ کا دین کمزور نہیں ہے اور تم کتنے دن اور زندہ رہو گے اس سے قتل ہوجانا بہتر ہے,

ابن زبیر رضی اللہ نے اپنی والدہ سے کہا

وَقَالَ: هَذَا وَاللَّهِ رَأْيِي، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا رَكَنْتُ إِلَى الدُّنْيَا وَلَا أَحْبَبْتُ الحياة فيها، وما دعاني إلى الخروج إلى الْغَضَبُ للَّه أَنْ تُسْتَحَلَّ حُرْمَتُهُ، وَلَكِنِّي أَحْبَبْتُ أَنْ أَعْلَمَ رَأْيَكِ فَزِدْتِينِي بَصِيرَةً مَعَ بَصِيرَتِي،

ابن زبیر رضی اللہ نے کہا اللہ کی قسم میری بھی یہی راۓ ہے اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے دنیا کو پسند نہیں کیا اور نہ ہی میں نے اس کی زندگی کی آرزو کی ہے اور خروج پر صرف اللہ کی ناراضگی سے بچنے پر آمادہ ہوا ہوں کہ انہوں نے اس کی حرمت کو جائز سمجھ لیا ہے , لیکن میں نے آپ رضی اللہ کی راۓ کو جاننا ضروری خیال کیا اور آپ رضی اللہ نے اپنی بصیرت سے میری بصیرت میں اور اضافہ کردیا,

فانظرى يا أماه فانى مقتول في يَوْمِي هَذَا فَلَا يَشْتَدُّ حُزْنُكِ، وَسَلِّمِي لِأَمْرِ اللَّهِ، فَإِنَّ ابْنَكِ لَمْ يَتَعَمَّدْ إِتْيَانَ مُنْكَرٍ، وَلَا عَمِلَ بِفَاحِشَةٍ قَطُّ، وَلَمْ يَجُرْ فِي حُكْمِ اللَّهِ، وَلَمْ يَغْدُرْ فِي أَمَانٍ وَلَمْ يَتَعَمَّدْ ظُلْمَ مُسْلِمٍ وَلَا مُعَاهَدٍ، وَلَمْ يَبْلُغْنِي ظُلْمٌ عَنْ عَامِلٍ فَرَضِيتُهُ بَلْ أَنْكَرْتُهُ، وَلَمْ يكن عندي آثر من رضى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، اللَّهمّ إِنِّي لَا أَقُولُ هَذَا تَزْكِيَةً لِنَفْسِي، اللَّهمّ أَنْتِ أَعْلَمُ بِي مِنِّي وَمِنْ غَيْرِي، وَلَكِنِّي أَقُولُ ذَلِكَ تَعْزِيَةً لِأُمِّي لِتَسْلُوَ عَنِّي

پھر کہا کہ اے میری ماں آج میں قتل ہوجاوں گا اور آپ رضی اللہ کا غم نہ بڑھے, اور مجھے اللہ کے حوالے کر دو بلاشبہ آپ رضی اللہ کے بیٹے نے کبھی بھی جان بوجھ کر رضا الاہی کے خلاف نہیں کیا اور نہ کبھی برا کام کیا اور نہ حکم الاہی میں زیادتی کی اور نہ کبھی خیانت کی اور نہ ہی جان بوجھ کر ظلم کیا ہے اور نہ ہی میں نے کسی عامل کے ظلم کو پسند کیا میں اس بات کو ناپسند کیا اور نہ ہی میرے پاس اپنے رب کی رضاعت کا کوئی رکہ ہے اے اللہ میں یہ بات اپنے نفس کو پاک کرنے پر نہیں کہتا بلکہ میں اپنی ماں کو اس سے تسلی دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ مجھے بھول سکے۔

آپ رضی اللہ کی والدہ نے فرمایا,

، فَقَالَتْ أُمُّهُ: إِنِّي لَأَرْجُو مِنَ اللَّهِ أَنْ يَكُونَ عَزَائِي فِيكَ حَسَنًا، إِنْ تَقَدَّمْتَنِي أَوْ تَقَدَّمْتُكَ، فَفِي نَفْسِي اخْرُجْ يَا بُنَيَّ حَتَّى أَنْظُرَ مَا يَصِيرُ إِلَيْهِ أَمْرُكَ،

مجھے اللہ تعالی سے امید ہے اور میرا صبر ہی تیرے متعلق اچھا ہے خواہ تم مجھے مقدم ہو یا میں تجھ سے مقدم ہوں,کہا اے میرے بیٹے مجھے باہر دیکھنے دے کہ دیکھوں کہ تیرا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے,

ابن زبیر رضی اللہ نے کہا,

فَقَالَ جَزَاكِ اللَّهُ يَا أُمَّهْ خَيْرًا فلا تدعى الدعاء قبل وبعد فقالت: لا أدعه أبدا لمن قُتِلَ عَلَى بَاطِلٍ فَلَقَدْ قُتِلْتَ عَلَى حَقٍّ،

ابن زبیر رضی اللہ نے کہا اے ماں اللہ آپ رضی اللہ کو جزا دے اس پہلے اور بعد میں دعا کرنا ترک نہ کرنا, آپ رضی اللہ کی والدہ نے کہا اسے تو باطل پر لڑنے والوں کے لئے ترک نہیں کرتی تو پھر بھی حق پر ہے ،

آپ کی والدہ مزید نے کہا,

ثُمَّ قَالَتْ: اللَّهمّ ارْحَمْ طُولَ ذَلِكَ الْقِيَامِ وَذَلِكَ النَّحِيبِ وَالظَّمَأِ فِي هَوَاجِرِ الْمَدِينَةِ، وَمَكَّةَ، وَبِرَّهُ بِأَبِيهِ وَبِي، اللَّهمّ إِنِّي قَدْ سَلَّمْتُهُ لِأَمْرِكَ فِيهِ وَرَضِيتُ بِمَا قَضَيْتَ فَقَابِلْنِي فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بِثَوَابِ الصَّابِرِينَ الشَّاكِرِينَ. ثُمَّ أَخَذَتْهُ إِلَيْهَا فَاحْتَضَنَتْهُ لِتُوَدِّعَهُ وَاعْتَنَقَهَا لِيُوَدِّعَهَا-

اے اللہ اس طویل قیام اور رونے اور مکہ ومدینہ کی دوپہر کی پیاس اپنے باپ اور میرے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے اس پر رحم فرما ،اے اللہ میں نے اسے تیرے فیصلہ کے حوالے کیا اور تونے جو فیصلہ کیا ہے میں اس سے راضی ہوں پس عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کے بارے میں مجھے صابرین و شاکرین کا ثواب دے پھر آپ رضی اللہ نے اپنے بیٹے کو گود میں لے لیا اور اسے الوداع کرنے کے لئے گلے سے لگا لیا,

فَوَجَدَتْهُ لَابِسًا دِرْعًا مِنْ حَدِيدٍ فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ ما هذا لباس من يريد ما نريد مِنَ الشَّهَادَةِ!! فَقَالَ يَا أُمَّاهُ إِنَّمَا لَبِسْتُهُ لِأُطَيِّبَ خَاطِرَكِ وَأُسَكِّنَ قَلْبَكِ بِهِ، فَقَالَتْ: لَا يَا بُنَيَّ وَلَكِنِ انْزِعْهُ فَنَزَعَهُ وَجَعَلَ يَلْبَسُ بَقِيَّةَ ثِيَابِهِ وَيَتَشَدَّدُ وَهِيَ تَقُولُ: شَمِّرْ ثِيَابَكَ، وَجَعَلَ يَتَحَفَّظُ مِنْ أَسْفَلِ ثِيَابِهِ لِئَلَّا تَبْدُو عَوْرَتَهُ إِذَا قُتِلَ، وَجَعَلَتْ تُذَكِّرُهُ، بِأَبِيهِ الزُّبَيْرِ، وَجَدِّهِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَجَدَّتِهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمَطْلَبِ، وَخَالَتِهِ عَائِشَةَ زَوْجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وترجيه القدوم عليهما إِذَا هُوَ قُتِلَ شَهِيدًا، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ عَهْدِهِ بِهَا رَضِيَ الله عنهما

آپ رضی اللہ نے اپنے بیٹے کو زرہ پہننے دیکھا تو کہنے لگیں اے میرے بیٹے یہ لباس شہادت کے امیدواروں کا نہیں ہوتا آپ رضی اللہ نے کہا کہ اے میری ماں میں آپ رضی اللہ کو تسلی دینے کی خاطر اسے پہنا ہے وہ کہنے لگیں اے میرے بیٹے اسے اتار دے تو آپ رضی اللہ نے اسے اتار دیا اور بقیہ کپڑے پہنے لگے تو آپ رضی اللہ کی والدہ نے کہا کہ اپنے کپڑوں کو مضبوط کر دو آپ رضی اللہ اپنے نچلے حصہ کے کپڑوں کو مضبوط کرنے لگے تاکہ آپ رضی اللہ کے قتل کے بعد آپ رضی اللہ کے قابل شرم جگہ ظاہر نہ ہو, آپ رضی اللہ کی والدہ نے پھر آپ رضی اللہ کے سامنے زبیر رضی اللہ ، آپ رضی اللہ کے نانا ابی بکر الصدیق رضی اللہ آپ کی دادی صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ اور آپ رضی اللہ کی خالہ عائشہ رضی اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کا تذکرہ کرنے لگیں اور آپ رضی اللہ کو امید دلانے لگیں کہ قتل کے بعد تم ان کے پاس ہونگے اس کے بعد آپ رضی اللہ باہر آئے اور یہ آپ رضی اللہ کی والدہ سے آپ رضی اللہ کی آخری ملاقات تھی۔

امیر المومنین عبداللہ بن زبیر بن العوام کی شہادت

امیر المومنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ، امیر المومنین عثمان و امیر المومنین علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے مسلمانوں کے چوتھے امیر تھے جو شہید کئے گئے ۔

آپ رضی اللہ عنہ جب اپنی والدہ رضی اللہ عنہا سے مل کر واپس آئے تو اپنے مخلصی ساتھیوں کو جمع کیا,

قَالُوا: وَكَانَ يَخْرُجُ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَهُنَاكَ خَمْسُمِائَةِ فَارِسٍ وَرَاجِلٍ فَيَحْمِلُ عَلَيْهِمْ فَيَتَفَرَّقُونَ
مورخین کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ مسجد الحرام کے باب سے باہر نکلےاور باہر پانچ سو سوار اور پیادہ شامی لشکر تھا,
آپ رضی اللہ جب ان پر حملہ کرتے تھے سب کے سب بھاگ کھڑے ہوتے تھے.جاری
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558415 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More