مدارس سے کیا خطرہ؟

مقصد اگرذہنی ہم آہنگی کے لئے نصاب تعلیم سمیت دینی مدارس میں جدید تقاضوں کے مطابق اصلاحات ہے توبھی کوئی باشعور اپنے مضبوط اور کار آمد بازو کو کاٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ملک میں مدارس حکومت کے دست و بازو کے طورپر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کے پانچ مدرسہ بورڈز ہیں۔جو مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگران کی اہمیت، مرکزیت اور وحدت ختم کرنے کے لئے سرکاری بورڈز تشکیل دیئے گئے ہیں تو مثبت نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ 20سال سے اتحاد ویک جہتی کے لئے قائم تمام مسالک کے بورڈز کا’’ اتحاد تنظیمات مدارس‘‘ کو ختم کرنے کا نتیجہ تقسیم اور انتشار کے فروغ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ملک میں کم از کم مشترکہ نکات پر مبنی دینی مدارس کا ایک بورڈ تشکیل دینے کے بجائے لا تعداد بورڈ زتشکیل دینے کے منصوبہ ساز ملک اور اسلام دشمنی کے الزامات سے کیسے بچ سکیں گے۔ مدارس کی نسبت صفہ و اصحاب صفہ کے ساتھ ہے ۔ اس پہلی عظیم درسگاہ کے منتظم و معلم آقائے دوجہاں ﷺ تھے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مدارس ہی نہیں بلکہ تعلیمی نظام کو قائم کریں۔ ملکی دستور بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ عدلیہ قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلے کرے۔ اسلامی معاشرہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے کے لئے حکومت کیا کر رہی ہے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم ریاست مدینہ کی مثالیں پیش کرتی ہے۔مگرارباب اقتدارملکی دستور کی اسلامی دفعات مسلسل نظرا ندازکر رہے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویزکو ردی کی ٹوکری میں ڈالا جا رہا ہے۔ ملک میں سرکاری خطبے شروع کرنے کے پیچھے کیا منطق کار فرما ہے۔ سعودی عرب کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ مگر یہاں سعودی عرب کی طرز پر شریعت کب نافذ ہو گی۔کون یہ اعزاز پائے گا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا محکمہ تشکیل دینے میں مزید کتنا عرصہ درکار ہے۔ تعجب ہے یہاں باڑ ہی فصل کو کھانے لگی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور کس کے اشارے پر اداروں کو توڑ کر ان کے درمیان تفریق و تصادم چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اشرف جہانگیر قاضی اور زبیدہ جلال کی طرح شفقت محمود بھی کسی اہم مشن پر کام کر رہے ہیں۔ اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔پاکستان سے اسلام اور جمہوریت نکال دی گئی تو کیا بچے گا۔

دیوبندی مدارس کا سب سے بڑابورڈوفاق المدارس العربیہ ہے۔اسے1961اورپھرایک صدی بعد 2013میں حکومت کے ادارے جوائینٹ سٹاک کمپنیزکے ساتھ سوسائٹیزرجسٹریشن ایکٹ 1860کے تحت رجسٹرڈ کیا گیاہے۔جو ادارہ دو بار حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہو، اسے حکومت کیوں اپنے لئے خطرہ سمجھ رہی ہے۔اب اس سے وابستہ کئی مدارس نے سرکاری بورڈ میں شمولیت اختیار کی تو ان کاالحاق ختم کر دیا گیا۔ وفاق نے فروری 2021کومسالک کی بنیاد پر مدارس کے متعدد نئے بورڈز متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا ۔ ابتدائی طور پر پانچ بورڈز تشکیل دیئے گئے۔ پھر ان میں مزید دو کا اضافہ ہوا ۔ اگرنئے مدرسہ بورڈز کی تشکیل سے حکوت ملک میں پہلے سے فعال مختلف مسالک کے دینی مدراس کے پانچ بورڈوں کی اجارہ داری ختم کرنا چاہتی ہے تو وہ اس میں کامیابی کے امکانات کم ہیں بلکہ اس سے مزید افراتفری پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔ مدارس کے ایک ہی بورڈ کی تشکیل سے مسلکی شناخت کا بحران ختم ہو سکتا ہے۔مدراس کے نئے بورڈز کے قیام کے حکومتی اقدامات پر وفاق المدارس العربیہ نے دو ماہ تک خاموشی اختیار کر رکھی۔ 23 مئی کو اس نے کہا کہ نئے سرکاری بورڈز سے الحاق کرنے والے مدارس کو وفاق المدارس کے بورڈ سے نکالا جائے گا۔وفاق المدارس العربیہ کے رہنما اور دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا انوار الحق کی صدارت میں لاہور کے مشہور مدرسے جامعہ اشرفیہ میں ہونے والے اس اجلاس میں وفاق کی مجلسِ عاملہ اور مجلس شوریٰ کے اراکین کے ساتھ ساتھ دیوبندی مکتبِ فکر کی نمائندہ جماعتوں کے رہنماشریک تھے۔وفاق نے 1959سے قائم وفاق المدارس العربیہ اور دیگر مسالک کے مدرسہ بورڈز کے مقابلے میں متعدد متوازی بورڈز قائم کر کے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ 10 مئی کو وفاقی حکومت نے کراچی کے دو بڑے اور معتبر دیوبندی مدارس جامعہ بنوریہ العالمیہ اور جامعتہ الرشید پر مشتمل ایک نیا مدرسہ بورڈ مجمع العلوم اسلامیہ کی تشکیل دیا تھا۔ جماعت اشاعت توحید السنتہ ( خیبرپختونخوا کی مقامی زبان میں پنج پیری مکتبہ فکر ) نامی تنظیم کے مدارس پر مشتمل بورڈ کووحدت المدارس کا نام دیا گیا۔دو نئے مدرسہ بورڈز کی تشکیل کے بعد اب دینی مدارس کے بورڈز کی تعداد 10 سے بڑھ کر 12 ہو گئی ہے۔سرکاری سرپرستی میں مجمع العلوم اسلامیہ اور وحدت المدارس کے قیام سے کیا ہو گا۔

مجمع العلوم اسلامیہ میں شامل کراچی کے دونوں مدارس جامعہ بنوریہ العالمیہ اور جامعتہ الرشید دیوبندی مسلک کے بڑے مدرسوں میں شمار ہوتے ہیں۔شاید انہیں اپنا اثر و نفوذ استعمال کر کے وفاق المدارس العربیہ سے مزید مدارس کو توڑ کر نئے بورڈز میں شامل کرلیں گے۔اس وفاق سے تقریباً30ہزار مدارس وابستہ ہیں۔ جن میں 28لاکھ سے زیادہ طلباء و طالبات تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔وحدت المدارس ،جماعت اشاعت توحید السنتہ (پنج پیری مکتبہ فکر) کے مدارس پر مشتمل ہے جو دیوبندی مکتبِ فکر کا حصہ ہے ۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ ملا فضل اﷲ، باجوڑ کے رہنما مولوی فقیر اور خیبر ایجنسی کے رہنما منگل باغ پنج پیری مکتبِ فکر یا اس کے قریب قریب سوچ کے حامل تھے۔اس بنیاد پر اسے سخت گیر قرار دیا جاتا ہے۔مدرسہ بورڈ ایک وفاقی تعلیمی بورڈ کی طرح ہے جواپنے مکتبِ فکر کے مدارس کی رجسٹریشن، نصاب سازی اور تعلیمی نگرانی سمیت امتحانات کا انعقاد اور اسناد جاری کرتاہے۔ان اسناد کو حکومت عصری تعلیم کے مختلف اسناد کے متوازی تسلیم کرتی ہے۔مگر اردو، انگریزی اور مطالعہ پاکستان پاس کرنا لازمی ہے۔ مدرسے کی شہادت ثانویہ عامہ (دو سال دورانیہ) کی سند میٹرک، شہادت ثانویہ خاصہ (دو سال دورانیہ) کی سند ایف اے، شہادت عالیہ کی سند (دو سال دورانیہ) بی اے اور شہادت عالمیہ کی سند (دو سال دورانیہ) ایم اے کے متوازی ہے۔مدارس کو مسلکی بنیاد پر مدرسہ بورڈ تشکیل دینے کی ضرورت مدارس میں طلبہ کو اپنے عقائد اور مکتبِ فکر کے مطابق تدریس اور نصاب کی تیاری کی وجہ سے پیش آئی ۔ ہر مکتبِ فکر کے مدرسہ بورڈ کے تحت نصاب کمیٹی اپنے مکتبِ فکر کے مدارس کے لیے یکساں نصاب تیار کرتی ہے۔ملک میں مسلک کی بنیاد پر مدارس کے پانچ بورڈز موجود تھے جن میں سے سے بڑا وفاق المدارس العربیہ، ملتان (دیوبندی مکتب فکر)، وفاق المدارس الشیعہ، لاہور(شیعہ مکتبِ فکر)، تنظیم المدارس اہلسنت، لاہور (بریلوی مکتبِ فکر)، وفاق المدارس السلفیہ، فیصل آباد (اہلحدیث مکتبِ فکر) اور رابطۃ المدارس الاسلامیہ، منصورہ (جماعت اسلامی مکتبِ فکر) شامل ہیں۔ وفاق المدارس السلفیہ 1955 اور رابطۃ المدارس الاسلامیہ 1978میں قائم ہوئے۔ وفاق المدارس العربیہ سے وابستہ 21565 مدراس میں ساڑھے 28 لاکھ طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔تنظیم المدارس اہلسنت سے وابستہ 9616 مدارس میں 13 لاکھ طلبہ و طالبات، وفاق المدارس السلفیہ سے وابستہ 1400 مدارس میں 40 ہزار طلبہ و طالبات اور وفاق المداراس الشیعہ سے وابستہ 550 مدراس میں 19 ہزار طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 1300 مدراس تنظیم رابطہ المدارس سے وابستہ ہیں۔

2005میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں مدارس کے خلاف مبینہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے مدارس کے پانچوں بورڈز نے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان (آئی ٹی ایم پی) کے نام سے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جس کی سربراہی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چئیرمین مفتی منیب الرحمٰن کر رہے ہیں ۔حکومت چاہتی ہے کہ سرکاری مدرسہ بورڈ زبنانے سے مدرسہ نصاب اور تدریسی عمل بہتر بنانے کے لیے ایک مقابلے کی فضا پیدا ہو اور زیادہ سے زیادہ مدارس بھی حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں ۔ تا ہم مدرسہ اصلاحات کے لئے سب کو اعتماد میں لینا لازمی ہو گا۔جو مدرسہ بورڈز اپنے نصاب بہتر بنائیں گے،قرآن و سنت کی تعلیم و تربیت سمیت جدید عصی علوم، سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ دیں گے تو وہ طلبہ کی بڑی تعداد کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوں گے۔اگر حکومت مدارس کی بڑی تعداد رجسٹرڈ کرنا چاہتی ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر یہ بتایا جاسکے کہ مدارس کی بڑی تعداد قومی دھارے میں شامل ہوچکی ہے تو اتحاد المدارس تنظیم سے رجوع کرے۔ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈکو ختم کر کے مدرسہ ڈائریکوریٹ قائم کرنے کے بعد مدرسہ بورڈزکے تحت چلنے والے مدارس مدرسہ ڈائریکوریٹ کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کے پاپندبنا دیئے گئے ہیں۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ 6000 سے زائد مدارس کی رجسٹریشن ہوچکی ہے۔وفاق نے شروع میں جو پانچ نئے مدرسہ بورڈز قائم کیئے ان میں اتحاد المدارس العربیہ (دیوبندی مکتبہ فکر)، اتحاد المدارس الاسلامیہ (بریلوی مکتبہ فکر)، نظام المدارس پاکستان (بریلوی مکتبہ فکر)، مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ (اہلحدیث مکتبہ فکر) اور وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ (شیعہ مکتبہ فکر) شامل ہیں۔مگر یہ پانچ مدرسہ بورڈ اس عرصہ میں پہلے سے قائم مدرسہ بورڈز سے الحاق شدہ مدارس کو اپنی جانب لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ جامعہ بنوریہ العالمیہ کے مہتمم مفتی نعمان نعیم کا کہنا ہے کہ ان کے مدرسے نے بیرونِ ممالک کے طلبہ کے داخلوں میں مشکلات کے حل کے لیے نیا بورڈ تشکیل دیا مگر ان کا مدرسہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ ملحق رہے گا۔جامعتہ الرشید کراچی سے وابستہ علما ء کا موقف ہے کہ ان کا مدرسہ گزشتہ 20 برسوں سے طلبہ کو جدید عصری علوم و فنون سکھا رہا ہے اور نیا بورڈ مجمع العلوم الاسلامیہ ، وفاق المدارس العربیہ کے برعکس مدارس میں ایک ایسا نظام لانا چاہتا ہے جو قدیم و جدید علوم کا امتزاج رکھتا ہو گا۔وہ نئے بورڈ کے تحت مختلف اسلامی جامعات کے نظام سے اخذ کرکے نیا نصاب تعلیم تشکیل دینا چاہتے ہیں۔مگروفاق المدارس العربیہ کے رہنما ء نئے بورڈز کی تشکیل وفاق المدارس العربیہ اور مدارس کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ تدریس، امامت اور خطابت کے لیے مدرسہ بورڈز کی جاری کردہ سند کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔مگرحکومت مدارس کے نئے بورڈز تشکیل دے کر پہلے سے موجود مدارس کے بورڈزکی اجارہ داری ختم کرنا اور اس کا متبادل سامنے لانا چاہتی ہے تو ایسا ممکن نہیں۔

حکومت اگر سمجھتی ہے کہ مدارس سیاست کے لئے استعمال ہو رہے ہیں یا انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں تو بھی انتقام کے بجائے اصلاح مدنظر رکھی جائے۔جو عناسر دین کی سنہرے اخلاق و اقدارپر مبنی تعلیم و تربیت سے خائف ہیں۔یا جو اپنی یا این جی اوز کی روشن خیالی کے نام پر اخلاق و کردار سے عاری معاشرہ کی تشکیل کے خلاف ہیں۔ وہ اپنی روزی روٹی ملک اور اسلام دشمنی کے بغیر بھی حلال کرنے کے اسباب تلاش کر سکتے ہیں۔ حکومت اگر مخلص اور سنجیدہ ہے تو وہ این جی اوز کے ایجنڈہ پرتعلیم ودانش کے اداروں کوتوڑنے یا ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ اور بدمزگی پیدا کرنے کے بجائے ملکی مفاد میں اداروں کوقر یب لانے، جوڑنے پر توجہ دے سکتی ہے۔حکومت نصاب کا جائزہ لے، خطبات پر نظر رکھے۔جو مدارس مسلکی منافرت پھیلانے کے مرتکب پائے جائیں یا جن کا نصاب تعصب اور عداوت کو جنم دیتا ہو، تمام مسالک کے جید اور معتبر علمائے کرام کی کمیٹی شواہد اور معقول دلائل کا جائزہ لے ۔ تب ہی ان کے خلاف قانون حرکت میں آسکتا ہے۔ تب ہی قانونی چارہ جوئی کو انتقام یا متعصب قرار نہ دیا جائے گا۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485976 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More