دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ترقی اور اسلامی تعلیمات

پروفیسر ڈاکٹر شمشاد اختر
جب ہم دنیاوی ترقی کے اسلامی تصور پر غور کرتے ہیں تو وہ اپنے اندر جامعیت اور کمال کی شان رکھتا ہے کہ اس نے حیات انسانی کی ہر پہلو سے ترقی کو مد ّ نظر رکھا ہے لہذا اگر اس کے کسی پہلو کو بھی نظر انداز کر دیا جائے تو یہ کمال دین کے منافی ہو گا ، امام بخاری فرماتے ہیں : ’’ فا ذا ترک شیئا من الکمال فھو ناقص‘‘ جب کمال میں سے کوئی چیز رہ جائے تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے ۔( الصحیح بخاری، کتاب الایمان )ترقی کے جامع تصور کی نمائندگی ، اﷲ تعالی کے صفات میں سے صفت’’ ربو بیت ‘‘ کرتی ہے ، ربو بیت کسی چیز کو اس کے نقطہ آغاز سے تکمیل تک پہنچانے کے عمل کو کہا جاتا ہے جو بذات خود ترقی کے مفہوم کے مترادف ہے لہذا ’’ رب الناس ‘‘ کا عام فہم معنی ، افراد انسانیت کوشاہراہ ترقی پر گامزن کرنے والا اور انہیں آگے بڑھنے کی صلاحیتوں کو جلا دینے والا، او ر یہ ترقی ہمہ جہتی ہے مادی بھی او ر روحانی بھی ،اسلام کے حوالہ سے روحانی ترقی کی فکرتو تقریباََ مسلّم ہے لیکن مادی ترقی کی اہمیت کے بارے میں قرآن حکیم کے نقطہ نظر کا مطالعہ کیا جا نا چا ہیے۔

چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اﷲ تعالی نے انسانی ترقی کوبہترین لائحہ عمل کے طور پر تسخیر کائنات سے مربوط کیا ہے ، اور قرآن حکیم میں متعدد مقامات پراس کی تذکیر و یاد ہانی کرائی گئی ہے ، مثلاََ ارشاد خداوندی ہے : ۔ ’’ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بلا شبہ اﷲ نے تمہارے لئے وہ تمام چیزیں مسخر کر دیں ، جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور تم پر اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں مکمل کر دیں ۔‘‘ ( سورہ لقمان:۲۰)آیت مبارکہ میں آسمان و زمین میں موجود مادی اشیاء کو انسان کے لئے مسخر کرنے پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ انسان ان اشیاء سے حسب منشا کام لینے اور ان کے ذریعے ایجادات کی صلاحیت سے مالا مال ہے جس سے انسانی معاشرے میں ترقی کو فروغ حاصل ہوتا ہے نیز تسخیر اشیاء کے ساتھ انسان پر مکمل کیجانے والی ظاہری و باطنی نعمتوں کا ذکر اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ مادی ترقی بھی اسی طرح کی نعمت خداوندی ہے جیسے روحانی ترقی،ان دونوں میں سے کسی ایک کا انکار کفران نعمت کے مترادف ہوگاجو بموجب نص قرآنی عذاب شدید( القرآن الحکیم، سورہ ابراہیم : ۷) یعنی دنیاوی پسماندگی و پستی ، غلامی و درماندگی اور اخروی سزا کا موجب ہے۔اسلام نے مادی تصور ترقی کے منافی رویہ کو رھبانیت کے عنوان کے تحت اپنے لئے اجنبی قرار دیا ہے اور اسکی حوصلہ شکنی کی ہے ،نہ صرف یہ بلکہ قرآن حکیم نے متعددمقامات پر مادی انعامات کامفصل ذکر کر کے ان کو افراد انسانیت اور ان کے مویشیوں کے لئے’’ متاع ‘‘ قرار دیا ہے۔ مثلاََ سورہ النازعات اور سورہ عبس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے ، مزید برآں قرآن حکیم میں انسانوں کے لئے مویشیوں اور جانوروں کی افادیت کو ایک مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے ۔ : ’’ اﷲ تعالی ٰ نے مویشی پیدا کئے جن میں تمہارے لئے سردی سے بچاؤ کا سامان ہے اور (بھی) بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے( ان کا گوشت ) کھاتے بھی ہو اور تمہارے لئے ان میں خوبصورتی ( کا پہلو بھی ) ہے جب شام کو انہیں چرا کر لاتے ہو اور جب چرانے لے جاتے ہو اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کران شہروں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے ، بلا شبہ تمہارا رب بہت شفقت کرنے والا نہایت رحم والا ہے اور اس نے گھوڑے ، خچر اور گدھے ( جیسے جانور) پیدا کئے تاکہ ان پر سوار ہو سکو اور زینت ( حاصل کرو)اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے ۔‘‘ ( گویا مستقبل کی مادی ترقیات کی وسعت کی طرف اشارہ ہے )۔

ایک اور مقام پر انسانی ضروریات و آسائشات کے حوالہ سے انعامات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے ۔’’ اﷲ تعالی نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو آرام و سکون کی جگہ بنایا اور تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں سے خیمے بنا دئیے جو سفر و حضر میں تم پر ہلکے رہتے ہیں اور بھیڑوں کی اون سے ، اونٹوں کی روؤں سے اور بکریوں کے بالوں سے کتنے ہی سامان اور استعمال کی اشیاء مقررہ مدت تک کے لئے بنا دیں اور تمہارے لئے ایسی قمیصیں بنا ئیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور ایسی زرہیں جو تمہیں جنگ میں بچاتی ہیں ، اسی طرح وہ اپنی نعمت تم پر تمام کرتا ہے تاکہ فرمانبردار بنو۔‘‘( سورہ النحل: ۸۰۔۸۱)ان آیات میں اﷲ تعالی کی ایسی نعمتوں کا ذکر ہے جن کو انسان خام مواد سے تشکیل و ترتیب دیتا ہے اور ان سے استفادہ کے لئے انسان کو اپنی عقل ، مادی محنت اور تکنیکی مہارت کو کام میں لانا پڑتا ہے۔قرآن حکیم نے تکریم انسانیت کے اعزاز و فضیلت کے ساتھ جن امتیازی پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے وہ مادی ترقی سے ہی تعلق رکھتے ہیں یعنی سمندر و خشکی پر آمد و رفت کا سفری اور بار برداری کا نظام ، پاکیزہ اشیاء کی فراہمی اور تخلیقات خداوندی کی اکثریت پر برتری اور فوقیت( القرآن الحکیم ، سورہ بنی اسرائیل : ۷۰) چنانچہ انسان نے مادی ترقی کے ذریعہ حمل و نقل کے ذرائع میں جدت پیدا کر لی ہے اور وہ زمین کے خزانوں سے بہتر طور پر استفادہ کر رہا ہے ،اور اس نے نہ صرف بحری و بری برتری قائم کر لی ہے بلکہ فضا و خلا سے بھی متنوع فوائد حاصل کر رہا ہے ۔اﷲ تعالی نے افراد انسانیت کے لئے بحری تسخیر کے انعام کا ذکرکرتے ہوئے اس کے تین مقاصد متعین کئے ہیں : ’’ اﷲ ہی کی ذات ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس میں جہاز اس کے حکم سے چلیں اور تم اس کے فضل ( رزق) کوتلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر ادا کرو ۔‘‘ ( سورہ الجاثیہ)ان میں شکر گزاری کے علاوہ دیگر دو مقاصد کا تعلق اس کی مادی ترقی سے ہے کہ انسان نے جہاز رانی کی صنعت ایجاد کی اور اس میں بہتر سے بہتر ین کی تلاش میں رہا نیز اس جہاز رانی اور کشتی رانی سے اس نے فضل خداوندی کے نئے وسائل تلاش کئے۔ واضح رہے کہ قرآن حکیم نے بالعموم فضل کا ذکر مادی اسباب حیات کے حوالہ سے ہی کیا ہے ، مثلا!’’ تم پر سفر حج کے دوران اپنے رب کے عطا کردہ وسائل رزق کی تلاش میں کوئی حرج نہیں‘‘۔اسی طرح نماز جمعہ کے بعد ’’ ابتغاء فضل ‘‘ بھی دنیاوی رزق ہے ۔

جب اﷲ تعالی نے آدم ؑ انسان اول کو خلافت ارضی کے منصب پر فائز کیا تو اس کی اہلیت کے لئے ’’ علم الاسماء کلھا‘‘ ضروری قرار پایا جسمیں مادی اشیاء کی خصوصیات ، صنعت و ٹیکنالوجی کے قوانین اور آلات کار سے متعلقہ علوم شامل تھے ( البیضاوی ، عبداﷲ بن عمر، ناصر الدین : انوار التنزیل و اسرار التاویل ، تفسیر سورہ البقرہ : ۳۱)کیونکہ اس علم کے بغیر دنیا میں غلبہ اور ترقی ممکن نہیں گویا مادی اشیاء پر تحقیق اور ان کے خام مواد سے ایجادات و اکتشافات کا عمل خلافت کا تقاضا ہے اسی بنا پر قرآنی حکم ہے :۔’’ اور ان ( دشمن ) کے مقابلہ کے لئے جتنی طاقت حاصل ہو سکے اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی تیاری کرو کہ اس سے تم اﷲ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کر سکو ‘‘۔ ( سورہ الانفال : ۶۰)اس آیت سے یہ دلیل اور رہنمائی بھی ملتی ہے کہہ ہر دور کے عصری تقاضا کے مطابق مناسب طاقت کا حصول ضروری ہے خواہ صنعتی و زرعی ٹیکنالوجی ہو یا تعلیمی ، سماجی ، معاشی و ایٹمی توانائی کی صلاحیت ہو کہ اس کے حصول سے معاشرہ کا اعتبار اور وقار قائم ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود کثیر القومی کمپنیوں ، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور عالمی بنکوں و حکومتوں کے دباؤ اور بلیک میلنگ کا شکار رہتا ہے کہ اس کی معاشی حالت دگر گوں اور تعلیمی صورتحال غیر تسلی بخش ہے ، لہذا ضروری ہے کہ حصول قوت کے عصری تقاضوں سے حاصل کی جائے اور اس کے مطابق حکمت عملی تیار کی جائے اور یہی منشاء خداوندی ہے ۔جیسا کہ حضرت نوح ؑ کو اس دور کے تقاضے کے مطابق آئندہ پیش آنے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکم دیا گیا : ’’ ہماری نگرانی اور ہدایت کی روشنی میں کشتی (جہاز سازی ) کا کام کریں ۔‘‘ ( سورہ ھود : ۳۷) اسی قرآن میں حضرت داؤد ؑ کے حوالہ سے اس امر کی نشاندہی کی وہ اپنے دور کی مادی ترقی کے نقیب تھے فرمایا: ’’ ہم نے انہیں جنگی لباس کی ٹیکنالوجی کا علم دیا تاکہ وہ تمہاری ،باہمی لڑائی میں حفاظت کر سکے ( سورہ الانبیاء: ۸۰)اس کی وضاحت دوسری جگہ کی : ’’ہم نے ان کے لئے لوہا نرم کر دیا ( اور ہدایت دی) کہ فراخ و کشادہ زرہیں تیا رکریں اور اس کے حلقے کڑیاں درست انداز سے جوڑیں اور( تم سب ) نیک کام کرو ، میں تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہوں ۔‘‘ ( سورہ سبا : ۱۰ : ۱۱) اسطرح حضرت سلیمان ؑ نے تعمیرات اور ظروف سازی کی صنعت کو ترقی سے ہمکنار کیا ۔نہ صرف یہ کہ وہ ہوائی سفر میں بھی عالم انسانیت کے پیش رو قرار پائے کہ طیارہ سازی کی صنعت و ٹیکنالوجی نے گو بہت بعد میں فروغ پایا لیکن اس کے عملی امکان کے بارے میں سائنسدانوں کو ایک واضح دلیل مل گئی۔ترقی کے اسلامی تصور کی بنیادی خصوصیات یہ ہے کہ اس میں صرف حال کی ترقی پیش نظر نہیں بلکہ مستقبل کی ترقی بھی ملحوظ نظر ہے اور وہ اس ترقی کو ترجیح دے جو زیادہ پائیدار اور ہمہ گیر ہو جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : ’’ ہر شخص کو اس بابت غور و فکرکرنا چا ہیے کہ وہ آنے والے کل یعنی مستقبل کے لئے تیاری کر رہا ہے ‘‘ ( سورہ الحشر : ۱۸)الغرض اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ترقی کا اسلامی تصور مادی و روحانی ترقیات اور دنیوی و اخروی ارتقاء پر مشتمل ہے ۔
 

M H Babar
About the Author: M H Babar Read More Articles by M H Babar: 83 Articles with 72996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.