سعودی عرب نے تا حال حج 2021سے متعلق پالیسی کا اعلان
نہیں کیا ہے۔تا ہم خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور
شہزادہ محمد بن سلمان نے خصوصی حج انتظامات مکمل کرنے کی ہدایات جاری کر دی
ہیں۔ پاکستان کے وفاقی وزیرِ برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے تصدیق
کی ہے حکومت سعودی حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔جب بھی واضح حج پالیسی سامنے
آئی تو پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔پالیسی کے اعلان سے پہلے لوگ
کسی کے جھانسے میں آ کر بکنگ نہ کریں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی مولانا طاہر
اشرفی کی سعودی نائب وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر عبدالفتح سے حج سے متعلق ملاقات
ہوئی ہے۔ سعودی حکومت رواں سال بھی محدود تعداد میں عازمین کو حج کی سعادت
حاصل کرنے کی اجازت دے گی۔ گزشتہ سال صرف سعودیہ میں مقیم 10ہزار مسلمانوں
نے حج کی سعادت حاصل کی۔ کورونا کی وجہ سے سعودی عرب میں بیرونی عازمین حج
کے داخلہ پر پابندی لگائی گئی تھی۔پاکستان بھی سعودی عرب کی جانب سے حج
پالیسی کے اعلان کے بعد ہی اپنی حج پالیسی تیار کرے گا۔ محدود تعداد میں
عازمین کو حج پر روانہ کرنے کے لیے انتظامات کی تیاری ہو رہی ہے۔سعودی
وزارت صحت نے 45ہزارغیر ملکی اور15ہزارسعودی شہریوں کو حج کی اجازت دینے کی
سفارش کی ہے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ سعودی حکومت 60ہزار عازمین میں پاکستان
کو بھی مناسب کوٹہ دے۔ حج کے لئے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔اس لئے سعودی عرب کے
لیے رواں سال معمول کے مطابق حج کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکے گا۔
حجاج کی تعداد اور قواعد و ضوابط کے بارے سعودی عرب نے جوں ہی کوئی فیصلہ
کیا تو اس کی اطلاع پاکستان کو بھی دی جائے گی۔ حکومت سعودی عرب کے ساتھ
مسلسل رابطے میں ہے۔ ریاض حکومت کی بھی کوشش ہو گی کہ حج سے متعلق پاکستان
سمیت بڑے اسلامی ممالک کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرے۔کرونا وائرس کے
پھیلاؤ کے خدشے کے مدنظر سعودی عرب حج 2021کے لئے سخت قواعد و ضوابط ترتیب
دے رہا ہے۔قادری صاحب کے مطابق پاکستان سمیت کئی ممالک نے یقین دہانی کرائی
ہے کہ وہ سعودی حفاظتی تدابیر پر عمل درآمدکریں گے۔ حفاظتی تدابیر میں
ویکسین اسناد ، ایس او پیز میں سماجی فاصلہ، سنیٹائزرز کا استعمال اور ماسک
شامل ہیں۔وزارت مذہبی امور کا کہنا ہے کہ عازمینِ حج کو سعودی عرب روانگی
سے قبل کرونا وائرس کا ٹیسٹ اور وہاں پہنچنے پر تین دن کے لیے قرنطینہ کرنا
ہو گا اور اسی طرح مکہ سے مدینہ پہنچنے اور واپس مکہ آنے پر بھی کرونا
وائرس کا ٹیسٹ کرانا لازم ہو گا۔ طواف زیارت اور عمرہ کے لیے حرم کعبہ میں
لوگوں کا اجتماع نہیں ہو گا اور اس مقصد کے لیے ہر ملک کے لیے مخصوص وقت کا
تعین کیا جائے گا۔ سعودی عرب کی وزارت صحت کے حج اجتماع کے لیے ترتیب دیئے
گئے ان قواعد و ضوابط پر عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی مفاہمت ہوگئی ہے۔
کورونا سے قبل ہر سال 20لاکھ سے زائد عازمین حج کی سعادت حاصل کرتے تھے۔مگر
رواں سال حجاجِ کرام کہ تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہو گی۔اگر
سعودی عرب حکومت محدود تعداد میں بھی عازمین کو حج کی اجازت دیتی ہے تو
حکومت ان کا انتخاب قرعہ اندازی سے ہی کرے گی۔ گزشتہ سال بھی قرعہ اندازی
میں دو لاکھ عازمین کامیاب ہوئے تھے۔ مگر یہ حج کی سعات حاصل نہ کر سکے۔ ہو
سکتا ہے حکومت ان دو لاکھ میں سے ہی چند سو یاہزار کا ایک اور قرعہ اندازی
سے انتخاب کرے۔ حج کے اخراجات بھی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ ہوں گے۔
کیوں کہ رواں سال مناسکِ حج ایس او پیز (حفاظتی تدابیر) کے ساتھ ہوں گے۔ جب
سعودی عرب حجاج کی تعداد اور قواعد و ضوابط کا حتمی اعلان کرے گا تب حج
اخراجات کے بارے میں بہتر طور پر معلوم ہو سکے گا۔جہاں تک عازمین کو ویکسین
لگانے کا تعلق ہے تو وزارتِ خارجہ اور وزارتِ مذہبی امورنے پاکستان میں
لگائی جانے والی چین کی ویکسین کی منظوری کے معاملے پرسعودیہ سے بات کی
ہے۔سعودیہ نے بھی چین کی ویکسین کو تسلیم کر لیا ہے۔ جس کا سرٹیفکیٹ نادرا
سے حاصل کیا جا سکے گا۔ اس سے قبل مجوزہ حج پالیسی میں سعودی عرب نے اپنی
وزارتِ صحت سے منظور کردہ ویکسین ہی لگوانا لازم قرار دیا تھا جس میں
فائزر، ایسٹرا زینیکا، موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین شامل
ہیں۔سعودی عرب سے منظور کردہ ویکسین میں چین کی کوئی بھی ویکسین شامل نہیں
تھی جو پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے لگوائی ہے۔تا ہم حکومتِ پاکستان نے
سعودی حکومت سے درخواست کی کہ عازمینِ حج کے لیے چینی ویکسین کی بھی منظوری
دی جائے۔ پاکستان دو بنیادوں پر سعودی عرب کو قائل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ایک تو یہ کہ سائنو فارم ویکسین کو عالمی ادارہ صحت نے تسلیم کر لیا ہے۔
دوسرا ایک ویکسین لگائے جانے کے بعد ڈاکٹر کسی اور کمپنی کی ویکسین لگانا
تجویز نہیں کرتے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد سائنو فارم ویکسین لگوا چکی ہے۔
پیرنورالحق قادری کا ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پیغام شیئر کیا گیا ہے جس میں
انہوں نے کہا کہ ان کی سعودی وزیرِ حج و عمرہ سے بات ہوئی ہے۔ان کا کہنا
تھاکہ سعودی حکومت کا ایک اعلان نو صفحات پر مشتمل احتیاطی تدابیر اور
شرائط کے ساتھ جاری ہواہے۔جس میں حج کے لیے عمر کی حد 18 سے 60 سال رکھی
گئی ہے اور عازمین کو مطلوبہ جسمانی صحت کا سرٹیفکیٹ لازمی دینا ہو گا۔جب
کہ مستند کرونا ویکسین سرٹیفکیٹ اور پی سی آر ٹیسٹ کا منفی آنا لازمی ہو
گا۔ وزیرِاعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر
اشرفی نے بھی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ رواں برس حج کی ادائیگی کے لیے کرونا
ویکسین لگوانی ہو گی اور مکمل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہو گا۔گزشتہ ہفتے
سعودی عرب نے کئی ملکوں سے آنے والے سیاحوں پر لازمی قرنطینہ کی پابندی بھی
ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی آف سول ایوی ایشن (جی اے
سی اے) نے کہا تھا کہ 20 مئی سے ملک میں داخل ہونے والے وہ غیر ملکی شہری
جو کرونا ویکسین لگوا چکے ہیں یا حال ہی میں عالمی وبا کا شکار ہونے کے بعد
صحت یاب ہوئے ہیں، انہیں حکومت کے مختص کردہ ہوٹلوں میں قرنطینہ میں رہنے
کی ضرورت نہیں۔تا ہم ابھی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔
سعودی عرب میں رواں سال 17جولائی سے مناسک حج کی ادائیگی کا آغاز متوقع ہے۔
گزشتہ سال28جولائی سے مناسکِ حج کی ادائیگی کا آغاز ہو ا تھا۔ کرونا کی
عالمی وبا کے باعث حج کو محدود کیا گیا اور عازمین حج نے مکہ المکرمہ میں
قرنطینہ میں وقت گزارنے کے بعد مناسک ادا کئے۔عازمینِ حج نے طوافِ کعبہ کیا
جس کے بعد وہ مسجد الحرام سے منیٰ روانہ ہوئے۔سعودی حکومت نے حج کے موقع پر
کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے سخت حفاظتی انتظامات کئے۔ طوافِ کعبہ کے دوران
عازمین نے سماجی فاصلے کا خیال رکھا اور زمین پر لگائے گئے نشانات پر چل کر
کعبے کا طواف کیا۔سخت اقدامات کے تحت عازمین کو خانہ کعبہ کو چھونے کی
اجازت بھی نہیں دی گئی۔ انتظامیہ نے خانہ کعبہ کے گرد حصار بنایا جس کے
باعث عازمین خانہ کعبہ کی دیواروں کو ہاتھ نہیں لگا سکے اور نہ ہی حجرِ
اسود کو بوسہ دے سکے۔عازمین نے مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران ماسک پہننے
اور سماجی فاصلہ قائم رکھا۔ مسجد الحرام میں نشانات لگائے گئے تھے تاکہ
عازمین کے درمیان فاصلہ قائم رہ سکے۔ عازمین کو شیطان کو مارنے کے لیے
اسٹیریلائزڈ کنکر دیئے گئے ۔ اُنہیں احرام، جراثیم کش محلول، جائے نماز اور
فیس ماسکس بھی فراہم کئے گئے۔عازمین کے سامان کو بھی سینیٹائز کیا گیا ۔
انتظامیہ نے عازمین کو کلائی پر باندھنے والے الیکٹرانک بینڈز بھی دیئے
تاکہ انتظامیہ کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس وقت وہ کہاں موجود ہیں۔سال2019میں
حج کی ادائیگی کے لیے 25 لاکھ افراد بیرونِ ملک سے سعودی عرب پہنچے۔سعودی
عرب کو 12ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی مگر کورونا نے سعودی معیشت کو بھی نقصان
پہنچایا ہے۔کورونا کی وجہ سے سال میں2020 حج کے لیے صرف اُن افراد کو منتخب
کیا گیا جو مستقل طور پر سعودی عرب میں مقیم تھے یا پھر سعودی شہری تھے۔ ان
عازمین کی عمریں 20 سے 50 سال کے درمیان تھیں۔گزشتہ سال حج کرنے والے 70 فی
صد عازمین وہ غیر ملکی تھے جو مستقل طور پر سعودی عرب میں مقیم تھے۔ 30 فی
صد افراد سعودی شہری تھے۔ حج کے لیے ان افراد کا انتخاب قرعہ اندازی کے
ذریعے کیا گیا ۔مکہ کا سفر کرنے سے قبل عازمینِ حج کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ
کیے گئے ۔ان پر حج کی ادائیگی سے قبل اپنے ہوٹلوں میں قرطینہ میں رہنے کی
پابندی عائد کی گئی۔ حج کی ادائیگی کے بعد بھی یہ حجاج کرام ایک ہفتے تک
قرنطینہ میں رہے۔ حج 8 ذی الحج سے 12 ذی الحج تک ادا کیا جاتا ہے۔ سعودی
حکومت ان پانچ دنوں کے اجتماع کے دوران وائرس کا پھیلاؤروکنے کی کوششیں
کرنا چاہتی ہے۔عازمینِ حج طوافِ کعبہ کے بعد منیٰ پہنچتے ہیں اور ظہر کی
نماز منیٰ میں ہی ادا کرتے ہیں۔ منیٰ میں قیام کے بعد وہ عرفات روانہ ہوتے
ہیں جہاں حج کا رکنِ اعظم وقوفِ عرفہ ادا کیا جاتا ہے۔ 9 ذی الحج کو ہی
عرفات میں خطبہ حج پڑھا جاتا ہے اور 10 ذی الحج کو قربانی کا فریضہ انجام
دیا جاتا ہے۔
|