ارشادِ ربانی ہے :’’بےشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں
اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم رکھنےوالوں کے لئے نشانیاں ہیں،جو لوگ
اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں
غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔عام لوگ ان نشانیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں مگرعقلمند
ایسی غلطی کرتے ۔ غورو تدبرکرنے والے دانشمند وں میں ایک طبقہ خداکا قائل
اور اسے یاد کرنے والا ہے اور دوسرا ہدایت الٰہی سے غافل ہوتا ہے ۔ ایک
پریس کانفرنس میں سنگھ کے اخبار ترون بھارت کے نامہ نگار نے پوچھا آپ کہتے
ہیں زمین و آسمان کو خدا نے بنایا جبکہ سائنس کی بگ بینگ تھیوری کے مطابق
وہ اپنے آپ الگ ہوکر بن گئے ۔ آپ کا بچہ اگرامتحان میں سائنس کے بجائے
قرآن کاجواب دے تو کیا ہوگا؟ وہ کامیاب ہوگا یا نام ہوجائے گا؟
الہامی ہدایت سے بے نیاز کائنات کی تخلیق پرغور کرنے والے شخص کا یہ سوال
تھا ۔ ناچیز نے اس کا جاہلانہ جواب یہ دیا کہ ہمارے بچہ جانتا ہےکہ امتحانی
سوال میں نصاب کی معلومات مانگی جاتی ہے اس لیے اسکولی کتاب کا جواب لکھ کر
کامیاب ہوجائےگا ۔ اس اناڑی جواب نے اسےخاموش تو کیا مگروہ مطمئن نہیں ہوا۔
اس کے بعد فکر و تدبر کرنے والے پروفیسر امان الدین انعامدار بولے آپ نے
دو مختلف سوالات کو یکجا کردیا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ اس کائنات کو کس
نے بنایا اور دوسرا یہ کہ کیسے بنایا ؟ کائنات کو کس نے بنایا کی بابت
سائنس خاموش ہے۔ وہ خدا کی خلاقی کا انکار کرنے کے بجائے تسلیم کرتی ہے کہ
بِگ بینگ سے قبل مادہ موجودتھا، یعنی اسے کسی نے بنایا ہوگا وہ ازخودنہیں
بن گیا۔ سائنس کے مطابق زمین و آسمان باہم الگ ہونے سے وجود میں آئے ۔ اس
پر قرآن اور سائنس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ ارشادِ ربانی ہے :’’
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے
کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا‘‘۔
اس بات کو سن کر وہ شخص ششد ر ہ گیا ۔
سائنس کے اس پرستار کو جب اس آیت کا اگلا حصہ سنایا گیا کہ :’’ اور پانی
سے ہر زندہ چیز پیدا کی ‘‘ تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ سائنس اس کا اعتراف
کرتی ہےجو نام نہاد معروضی سوچ کے حامل روشن خیال لوگوں کے لیے الہام کا
درجہ رکھتی ہے۔ سائنس کےان انکشافات سے 1300 سال قبل مشاہدے اور تجربے کے
بغیر قرآن حکیم کا یہ اعلان اس بات کا کھلا ثبوت ہےکہ یہ انسانی نہیں بلکہ
خالق کائنات کا الہام ہے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ بظاہر جارح نظر آنے والا
یہی نامہ نگار اسلام کی بابت سب سے زیادہ مثبت خبریں سنگھی اخبار میں شائع
کرتا ہے۔ اس سوال کے دومختلف جوابات اس حقیقت کے غماز ہیں کہ کس طرح ایک
جاہل اپنے معتدل مخالف کو دشمن بناتا ہے اور کیسے ایک عقلمندمخاطب کا دل
جیت کراسے اسلام کا قائل کردیتا ہے۔
قرآن حکیم چونکہ سائنس کی کتاب نہیں ہدایت کا صحیفہ ہے اس لیے وہ معلومات
میں اضافہ سے آگے بڑھ کر اپنے قاری کو معرفت کی منزل پر پہنچا دیتا
ہے۔مذکورہ آیت میں عقل سلیم کے حاملین کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ :’’
(وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے
مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے‘‘۔ اس طرح حقیقی
دانشور اپنے مقصدِ حیات کا ادراک کر کے انجام کی بابت فکرمند ہوجاتے ہیں ۔
ان کی پکار یہ ہوتی ہے کہ :’’ اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے تو نے
جسے دوزخ میں ڈالا اسے در حقیقت بڑی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر
ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا ‘‘۔ یہاں پر معرفت کےحقیقی وسیلہ کی
جانب یہ رہنمائی ہے کہ : ’’مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی
طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو ہم نے اس کی دعوت قبول کر
لی، پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو برائیاں
ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر‘‘ ۔ اپنے
رب کو یاد کرنے والے خردمند اس معرفت سے بہرہ ور ہوتے ہیں لیکن اس سےمحروم
افرادِ دانش تمام تر علم و فضل کے باوجود اللہ تعالیٰ کی اس سعادت عظمیٰ سے
محروم رہ جاتے ہیں۔
|