تاریخ ِانسانی میں کئی عظیم ‘ ظالم ترین ‘ قابل تقلید
‘نشان عبرت بادشاہوں کا ذکر موجود ہے اور پھر مغلیہ تاریخ میں کئی بادشاہ
گزرے ہیں‘ لیکن ابتدائی چھ بادشاہ یعنی ظہیر الدین بابر‘ نصیر الدین
ہمایوں‘ اکبر‘ نور الدین جہانگیر‘ شاہ جہاں اور محی الدین اورنگ زیب
عالمگیر ہر اعتبار سے اہم اور قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے دورانیہ
کے کارناموں اور طرزِ حکومت و واقعات کے باعث منفرد اور یادگار ہے۔
ہندوستان کو مخلصانہ اور خوشدلانہ طور پر انہوں نے آراستہ کیا۔ ہر شعبہ
ہائے زیست کو جلا بخشی‘ نت نئے نظام روشناس کیے‘ طرزِ حکمرانی میں جدت پیدا
کی‘ سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کروائیں‘ باغبانی‘ زراعت‘ مویشی بانی اور
پھلوں پھولوں کی باضابطہ کاشت کاری کروانے کے علاوہ بیرون ملک سے تعمیرات‘
باغات‘ دفتری نظام وغیرہ کے ماہرین بلوائے اور عوام کے معیار زندگی کو بلند
کردیا۔ ماضی کے دور کے کسی بھی پہلو کی حقیقی عکاسی اور واقعات کے مطالعے
کے لیے محکمہ آثار قدیمہ آرکائیوز کے ریکارڈ سب سے زیادہ معتبر اور مستند
ماخذ سمجھے جاتے ہیں۔ زندہ قومیں‘ اسلاف سے محبت کرنے والے‘ محققین‘ مورخین
اور مصنفین تاریخ نویسی کے لیے اس ادارے سے استفادہ کرتے ہیں۔ مغل دور کے
مختلف مدارج اور پہلوؤں پر متعدد معیار ی اور اعلیٰ درجے کی کتابیں لکھی
جاچکی ہیں اور ان کتابوں کی تیاری میں آرکائیوز کے ریکارڈ سے ہی مدد لی گئی
لیکن ہنوز ریکارڈاور دستاویزات پر تحقیق ہونی اور کتابیں لکھی جانی ہیں۔
ہندوستان کی تاریخ میں جنوبی ہندوستان کا مردم خیز خطہ دکن صدیوں سے اپنی
گوناگوں داستانوں اور صلاحیتوں کے سبب سرفہرست رہا ہے۔ شمالی ہندوستان یعنی
دہلی پر حکومت کرنے والے ہر حکمران نے دکن کے علاقے اور لوگوں پر قبضے اور
تصرف کو اپنا حق سمجھا اور اس پرحکمرانی کرتے رہے۔ جہانگیر نے بھی اپنے
پیشرؤں کی طرح دکن پر کنٹرول رکھا اوراپنے شہزادے خرم (شاہ جہاں) کو وہاں
کا گورنر بنا کر بھیجا۔ شہزادہ خرم جواں سال تھا اور اپنی نئی نویلی دلہن
ارجمند بانو(جو بعد میں ممتاز محل کہلائی اور تاج محل اسی کی یادگار ہے) کے
ساتھ دکن آگیا۔ ارجمند بانو ملکہ نور جہاں کے بھائی آصف خاں کی بیٹی اور
نور جہاں کے ایرانی نژاد باپ مرزا غیاث اعتماد الدولہ کی پوتی تھی۔ ارجمند
بانو کے بطن سے اورنگ زیب عالمگیر1618ء میں دولت آباد (اورنگ آباد) کے قریب
دوحدکے علاقے میں پیدا ہوا تھا۔ اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہ جہاں کی نظر میں
اس وقت مقام حاصل کرلیا تھا جب چودہ سال کی عمر میں اس نے ایک غضبناک بے
قابو ہاتھی کو مجمع میں گھس کر قتل و غارت گری مچانے سے روکنے کے لیے شاہی
جھروکے کی بلندی سے چھلانگ لگا کر تلوار کی ایک ضرب سے سونڈ کاٹ کر بھاگنے
پر مجبور کردیا۔ اورنگ زیب نے 1636ء میں اورنگ آباد کے صوبیدار کا منصب
سنبھالا اور فوراً ہی یہاں کے مکمل انتظام و انصرام میں جت گیا۔ امن و امان
کا قیام اور ملک ملک و قوم کی ترقی و بہبود اس کی اولین ترجیح تھی۔ اٹھارہ
سال کی عمر کے باوجود بے حد مدبر‘ منتظم اور باصلاحیت تھا۔ اس کو دکن کے
علاقے‘ رہن سہن‘ طرزِ معاشرت‘ عوام کی سادہ لوحی اور بھولپن اور یہاں کے
موسموں سے بے حد انسیت تھی اور خود عوام بھی اس کے خوش اطوار‘ سلیقے‘
شائستگی اور اسلامی مزاج کو پسند کرتے تھے۔ یہی وہ عوامل تھے جن کے سبب
اورنگ زیب نے اپنی عمر کا ایک طویل حصہ دکن میں گزارا حتی کہ یہیں انتقال
کیا اور یہیں پیوند خاک ہونا پسند کیا۔ اس کے مزاج میں رعونت کی بجائے
سادگی و ملنساری اور انسانیت کا درد تھا وہ ایجاد پسند اور اختراع پرستی کا
حامل تھاجس کے سبب اس کے عہد میں بڑی تعداد میں ایجادات و اصلاحات ہوئیں‘
نئے نئے طریق کار روشناس ہوئے۔ اس نے سب سے زیادہ شاہی ریکارڈ کو محفوظ
کرنے اور انہیں تلف ہونے سے بچانے پر توجہ دی کیونکہ سارے کاروبارِ حیات
کاغذ پر ہی درج ہوتے تھے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مورخین نے مغل حکومت کو
کاغذی راج Paper Government کا نام دیا ہے۔ اورنگ آباد جغرافیائی وقوع کے
اعتبار سے مغل حکومت میں اہمیت رکھتا تھا اور بیشتر کارروائیوں اور سرکاری
اقدامات کاباضابطہ ریکارڈ یہیں رہتا تھا اس لیے باقاعدہ تحفظ پر بھرپور
توجہ دی گئی۔ اورنگ زیب کے دور ہی میں پہلی بار مضبوط دستی کاغذ Hand Made
Paper تیار کیا گیا۔ اس دور میں وہاں دستی کاغذ تیار کرنے کے کارخانے موجود
تھے اور یہ کاغذ پائیداری میں شہرت رکھتا تھا یہی سبب ہے کہ صدیوں گزر جانے
کے باوجود ان کاغذات کا ریکارڈ اچھی اور درست حالت میں ہے۔
سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کاغذات کی تیاری میں نجانے کون کون
سی اشیاء استعمال ہوئی ہیں اور ان پر استعمال ہونے والی روشنائی (Ink) مزید
ناقابل فہم ہے۔ کون سی اور کیسی اشیاء اور مصالحے ان کی تیاری میں استعمال
ہوئے ہیں یہ آج تک متعدد تجرباتی اور تجزیاتی مراحل کے باوجود سائنس داں
اور ماہرین معلوم کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ دیرپا‘ لازوال اور نہ مٹنے والی
روشنائی کو اس دور کی حیرتناک ایجاد قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج کی جدید ترین
سہولتوں اور سائنسی ترقیات کے دور میں بھی ایسی روشنائی متعارف نہیں کرائی
جاسکی۔ خرم یعنی شاہ جہاں کے بعد اورنگ زیب عالمگیر اور پھر نظام الملک
صوبیدار دکن رہے اس وجہ سے زیادہ قدیم ریکارڈ نہیں محفوظ تھا۔مغلوں کی
عملداری کے خاتمے اور آصف جاہی سلطنت کے باقاعدہ آغاز کے وقت اورنگ آباد اس
سلطنت کا ایک حصہ تھا اور قلعہ کے تہہ خانوں میں یہ ریکارڈ محفوظ تھا۔
تقریباً دو صدیوں بعد حیدرآباد دکن کے محکمہ آثار قدیمہ کے دو عہدیداروں
مولوی محب الدین اور مولوی خورشید علی کی ذاتی دلچسپی اور توجہ سے 1916ء
میں یہ سارا ریکارڈ حیدرآباد دکن کے محکمہ آثارِ قدیمہ میں منتقل اور محفوظ
کیا گیا اور یہیں پر پہلی مرتبہ سارے ریکارڈ کی چھان بین‘ درجہ بندی‘
نوعیت‘ کیفیت‘ حالت اور اہمیت کے حساب سے کیٹیگریز بنائی گئیں‘ محنت اور
جانچ پڑتال سے ریکارڈ کو صحیح طور پر ترتیب دیا گیا اور سرکاری منظوری اور
بجٹ کے الاٹمنٹ کے بعد ہونہار و تجربے کار ماہرین ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب‘
ڈاکٹر داؤد اشرف‘ ڈاکٹر ایم اے نعیم اور ڈاکٹر زرینہ پروین کی زیر نگرانی
کیٹلاگ بڑی تعداد میں مرتب کرکے شائع کیے جانے پر عوام کو پہلی بار اس عظیم
الشان قیمتی یادگار اور نایاب تاریخی ذخیرے کا پتہ چلا اور حکومت راتوں رات
اس سرمایہ کے سبب امیر ترین ہوگئی۔ عہدِ اورنگ زیب کے مرتّبہ آٹھ کیٹلاگ
میں تقریباً 30 ہزار دستاویزات موجود ہیں۔ یہ کاغذات مختلف نوعیت یعنی شاہی
فرمان‘ نشان‘ یادداشت احکام‘ سیام حضور‘ پروانہ‘ تصدیقِ منصب روزنامچہ
وقائع‘ عرض و چہرہ‘ یادداشت حاضری‘ قبض الوصول‘ دستکِ داغ و تصحیح‘ فوتی
نامہ اور صداقت نامہ وغیرہ جیسے موضوعات سے آراستہ ہیں۔
ایک ہندو برہمن مہادیوبھٹ ساکن جالنہ ضلع اورنگ آباد نے اورنگ زیب کے دربار
میں ایک درخواست محکمہ مذہبی امور کے عہدیداروں کے خلاف جمع کروائی۔ اس پر
اورنگ زیب نے مورخہ 27 شعبان 1098 ہجری بمطابق 28 جون 1687ء متعلقہ
عہدیداروں کو احکام جاری کیے کہ ”اس برہمن مہادیوبھٹ اور اس کے افراد
خاندان کی گنیش مورتی کی پوجا میں کوئی رکاوٹ یا خلل نہ پیدا کیا جائے۔ ہر
شخص کو اپنے مذہبی امور کی بجاآوری کی آزادی ہے“ اس ایک فرمان سے ہی اورنگ
زیب کی کشادہ ذہنی‘ وسیع القلبی اور مذہبی رواداری کا پتہ چلتا ہے۔
حیدرآباد دکن کے آرکائیوز میں دکن کی دیگر ریاستوں بہمنی‘ برید شاہی‘ نظام
شاہی‘ عادل شاہی اور قطب شاہی خاندانوں کے اورنگ زیب کے (تقریباً ڈیڑھ
لاکھ) کاغذات موجود ہیں۔ دہلی کے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا میں بھی اورنگ
زیب کے لگ بھگ دس ہزار کاغذات کار یکارڈ موجود ہے او ریہ سارے کاغذات قدیم
فارسی زبان میں ہیں اور انہیں ماہرینِ لسانیات ہی پڑھ سکتے ہیں۔ ان کاغذات
پر کسی نہ کسی عہدیدارکی مہر ثبت ہے اور بعض پر ایک سے زیادہ مہریں بھی ثبت
ہیں۔ کاغذات پر سن ہجری تحریر ہے لیکن بعض میں سن جلوس بھی ملتا ہے اور اس
سن کا حساب حکمران کی تخت نشینی کی تاریخ سے کیا جاتا ہے مثلاً اگر کوئی
یکم رمضان 1000 ہجری کو تخت پر بیٹھا تھا تو یکم رمضان ۱۰۰۱ء ہجری سے اس کے
دوسرے سن جلوس کا آغاز ہوگا۔ مغل کاغذات کا عمومی سائز اوسطاً 3*3/2 ہے اور
رنگ Off White ہلکا زرد ہے۔ برسوں گزر جانے کے باوجود ان کاغذات اور ان کی
روشنائی کا دستبرد زمانہ سے محفوظ ہونا اور ان کی درستگی ایک عقد لایخل ہے
مگر ان کے لازوال اور انمنٹ ودیرپا ہونے کا پہلی بار اس وقت انکشاف ہوا جب
حیدرآباد کے آرکائیوز کی عمارت موسم باراں میں رات بھر کی شدید ترین بارش
برداشت نہ کرسکی اور چھت ٹپکنے لگی‘ سارا ریکارڈ آلودہ اور گیلا ہوگیا۔
عملے میں سراسیمگی پھیل گئی اور انہوں نے فوری احتیاطی تدابیر کے طور پر
بھیگے ہوئے کاغذات کو بڑی بڑی میزوں پر پھیلا کر چھت گیر پنکھے چلادیئے اور
کاغذات پر جاذب پیپر (Blotting Paper) بھی پھیلادیئے گئے۔ چند گھنٹوں بعد
کاغذات خشک ہوگئے اور عملے کو یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ پانی میں
بھیگے ہوئے کاغذات کو نقصان پہنچنے کی بجائے فائدہ پہنچا ہے اور یوں محسوس
ہوتا ہے جیسے کاغذات کی احتیاط سے صفائی کی گئی ہے یا پھر انہیں ابھی ابھی
لکھا گیا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ روشنائی نہ تو پھیلی تھی اور نہ ہی
مدھم پڑی تھی بلکہ اس میں نیا پن اور ایسی تازگی آگئی تھی کہ حروف مزید
ابھرنے اور چمکنے لگے تھے‘ تحریر روشن اور واضح ہوگئی تھی۔ کاغذ کی خستگی
بھی متاثر نہیں ہوئی تھی۔ جو لوگ مستقبل اور آنے والے دور پر نظر رکھتے
ہیں‘ انہیں و قت اور زمانہ کبھی شکست نہیں دے سکتا اور وہ لوگ لوحِ جہاں پر
ہمیشہ امر رہتے ہیں۔تاریخ ہمیشہ ان کی لکھی جاتی ہے‘ جو ملک و قوم کے لیے
اپنا سکون‘ چین‘وقت نچھاور کرتے ہیں اور تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔
|