پُر آشوب دور میں علمی وعملی فتنوں کا سیلاب ہرطرف سے امڈ
رہا ہے,
اہل کفر اسلام کو ختم نہ کر سکیں گۓ پر اس کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ ان سے
صحیح اسلام کی روح نکال دیں، اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے دو محاذوں پر
بڑی تیزی کے ساتھ کام جاری ہے۔
ایک نئی نسل جو دینی اقدار، دینی عقائد اور دینی مسائل سے ناآشنا ہے، اس کے
سامنے اسلام کی ایسی تعبیر کی جائے کہ اگر کسی کفر صریح پر اسلامی لیبل لگا
دیا جائے تو وہ اسی کو اسلام سمجھنے لگے ۔
دوسری طرف اہلِ حق اور اربابِ دین میں مختلف ذرائع سے اتنا شدید اختلاف
وانتشار پیدا کردیا جائے کہ ان کی قوت مفلوج ہوکر رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ جب
ملحدین کو ٹوکنے والے کسی اور دھندے میں مشغول ہوں گے تو اسلام کو ذبح کرنے
کا اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں آئے گا۔
تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کو دو قسم کے لوگوں نے ہمیشہ سخت نقصان پہنچایا ہے‘
پہنچتے بھی ہیں, ایک کفار ومشرکین جن میں یہود وہنود نصاریٰ اورتمام ملت
کفر شامل ہے‘ اور دوسرے ملحدین یعنی وہ لوگ جو دل سے منافقین اور دشمنانِ
اسلام ہوتے ہوئے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں دینِ حق کے خلاف اپنے
مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں
ایک گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اسلام کے کھلے دشمن ہوتے ہیں‘انکی دشمنی‘
ان کا وار اور ان کا خبثِ باطن کھل کر سامنے آتاہے اور ان سے بچاؤ کی تدبیر
بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے‘ جبکہ مؤخر الذکر دشمنان اسلام کا ظاہری حال چونکہ
مسلمانوں جیسا ہوتا ہے‘ بلکہ کبھی اپنے آپ کو ظلِ نبی اور کبھی اہلِ قرآن
وغیرہ بتاکر پکے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ لہذا ان کی اسلام دشمنی ‘
ریشہ دوانیاں اور خبثِ باطن بھی کھل کر سامنے نہیں آتا اور یہ لوگ مارے
آستین بن کر مسلمانوں کو ڈستے رہتے ہیں۔
برٹش حکومت کے محکمہٴ انفارمیشن کے ایک وفادار ملازم چوہدری غلام احمد
پرویز نے اپنے ملحدانہ سفر کا آغاز اس خطہ کے اکابر علمأ حق کے خلاف اپنی
تند وتیز بلکہ سوقیانہ تحریروں سے کیا‘ اور پھر آہستہ آہستہ احادیثِ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہاتھ صاف کیا‘
ابتداء میں چونکہ وہ اپنے آپ کو مسٹر محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا
شیدائی اور ان کے طریق پر کار بند ظاہر کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح خادمِ
دین گردانتا تھا‘ اس لئے اس کا دجل مسلمانوں پر فوراً واضح نہ ہو سکا‘ مگر
علمأ حق نے جلدہی اس کا علمی تعاقب کیا اور اس کے دجل وفسوں کا پردہ چاک
کیا۔
پرویز کا خبثِ باطن اس وقت کھل کر سامنے آیا جب اس نے احادیثِ رسول اکرم
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انکار کیا اور بے باکانہ انداز میں برملا اظہار
کیا کہ احادیث‘ قرآن کے خلاف عجمی سازش ہیں‘ اور یہ رسولِ اکرم صلی اللہ
علیہ والہ وسلم کے دو سو سال بعد مرتب ہوئی ہیں‘ لہذا یہ ناقابلِ اعتبار
ہیں‘
برصغیر میں عبداللہ چکڑالوی نے سب سے پہلے انکار حدیث کے فتنہ کی تخم ریزی
کی، حافظ اسلم جیراجپوری اور غلام احمد پرویز نے اس کی آبپاشی کی اور اپنے
افکار و نظریات کی بنیاد انکار حدیث پر رکھی۔ چنانچہ انھوں نے علی الاعلان
کہا کہ حجت شرعیہ صرف قرآن کریم ہے دینی معاملات میں حدیث حجت نہیں، اور
اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حدیث کا استہزا کیا اور اس کے لیے گستاخی کے
جملے بولے۔ علمائے کرام نے فتنہ پرویزیت کا ادراک کرتے ہوئے ان کے لٹریچر
کا بھرپور تعاقب کیا اور مسکت جوابات دئیے۔ تحریک رد پرویزیت کے سلسلے میں
جو علمی تحقیقی کام ہوا اور ملک کےاخبارات وجرائد میں چھپا .
اس فرقے کا بانی ایک غلام احمد پرویز نامی شخص ہے جو اپنے آپ کو اہل قرآن
کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے ۔ یہ فرقہ اس بنیاد پر تمام احادیث کا انکار
کرتا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے دو سو سال بعد لکھی
گئی اس لیے یہ درست نہیں ہے
یہ فرقہ ظاہرا" یہی کہتا ہے کہ صرف قران پر عمل کرو کیونکہ قرآن مکمل ضابطہ
حیات ہے ۔ دیکھنے میں اس کی بات بہت اچھی لگتی ہے لیکن اہل علم جانتے ہیں
کہ قرآن کریم پر بغیر احادیث کی رہنمائی کے عمل ہو ہی نہیں سکتا مثلا" قران
میں نماز اور زکوۃ ادا کرنے کا بار بار حکم دیا گیا ہے لیکن اسکے مکمل
احکامات اور طریقہ کار نہیں بتایا گیا ۔ وہ تمام تفصیلات احادیث مبارکہ میں
ملتی ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص حدیث کو چھوڑ کر صرف قران پر عمل کرنے کو کہے
تو وہ نماز کس طرح ادا کرے گا اور زکوتہ میں بھی اپنی مرضی چلائے گا
۔ اس لیے قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث کو ماننا بھی بہت ضروری اور لازم ہے
لیکن یہ فرقہ اپنے آپ کو اہل قران کہہ کر احادیث کا انکار کرتا ہے
اس کی کتابوں سے کچھ اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جن کو پڑھ کر خود فیصلہ
کریں کہ یہ فرقہ مسلمان کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے۔
۱…”قرآن کریم میں جہاں اللہ و رسول کا ذکر آیا ہے، اس سے مراد مرکز نظامِ
حکومت ہے“۔
۲…”رسول کو قطعاً یہ حق نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے“۔
۳…”رسول کی اطاعت نہیں، کیونکہ وہ زندہ نہیں“۔
۴…”ختم نبوت“ سے مراد یہ ہے کہ اب دنیا میں انقلاب شخصیتوں کے ہاتھوں نہیں،
بلکہ تصورات کے ذریعہ رونما ہواکرے گا۔ اب سلسلہ ٴ نبوت ختم ہوگیا ہے، اسکے
معنی یہ ہیں کہ اب انسانوں کو اپنے معاملات کے فیصلے آپ کرنے ہوں گے الخ“۔
۵…”اب رہا یہ سوال کہ اگر اسلام میں ذاتی ملکیت نہیں تو پھر قرآن میں وراثت
وغیرہ کے احکام کس لئے دیئے گئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن انسانی معاشرے کو
عبوری دور کے لئے بھی ساتھ کے ساتھ راہنمائی دیتا چلا جاتا ہے، ورثہ، قرضہ،
لین دین اور خیرات سے متعلق احکام عبوری دور سے متعلق ہیں“۔
۶…”صحیح قرآنی خطوط پر قائم شدہ مرکزِ ملت اور اس کی مجلس شوریٰ کا حق ہے
کہ وہ قرآنی اصول کی روشنی میں صرف ان جزئیات کو مرتب کرے، جن کی قرآن نے
کوئی تصریح نہیں کی، پھر یہ جزئیات ہر زمانہ میں ضرورت پر تبدیل کی جاسکتی
ہیں، یہی اپنے زمانہ کے لئے شریعت ہیں۔
۷…”جن اصول کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے وہ قانون اور عبادت دونوں
پر منطبق ہوگا، نماز کی کسی جزئ شکل میں جس کا تعین قرآن نے نہیں کیا، اپنے
زمانے کے کسی تقاضے کے ماتحت کچھ رد وبدل ناگزیر سمجھے تو وہ ایسا کرنے کی
اصولاً مجاز ہوگی الخ“۔
۸…مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے جو سازش کی گئی اس کی پہلی کڑی یہ
عقیدہ پیدا کرنا تھا کہ رسول کو اس وحی کے علاوہ جو قرآن میں محفوظ ہے ایک
اور وحی بھی دی گئی تھی، یہ وحی روایات میں ملتی ہے، دیکھتے دیکھتے روایات
کا ایک انبار جمع ہوگیا اور اسے اتباعِ سنت ِرسول اللہ قرار دے کرامت کو اس
میں الجھادیا، یعنی یہ جھوٹ مسلمانوں کا مذہب بن گیا، وحی غیر متلو اس کا
نام رکھ کر اسے قرآن کے ساتھ قرآن کی مثل ٹھیرادیاگیا، ان احادیث مقدسہ کے
جو حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں محفوظ ہیں اور جو ملاّ کی غلط نگہی اور
کوتاہ اندیشی سے ہمارے دین کا جز بن رہی ہیں، سلام علیک کیجئے اور ہاتھ ملا
لیجئے، جنت مل گئی، دو مسلمان جب مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے
سے پہلے اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیتا ہے، اب مسجد میں چلئے اور وضو کیجئے،
جنت حاضر ہے الخ“۔
۹…”اور آج جو اسلام دنیا میں مروج ہے وہ زمانہ قبل از قرآن کا مذہب ہو تو
ہو، قرآنی دین سے اس کا کوئی واسطہ نہیں الخ“۔
۱۰…”خدا عبارت ہے ان صفات ِ عالیہ سے جنہیں اپنے اندر منعکس کرنا چاہتا ہے،
اس لئے قوانین ِ خداوندی کی اطاعت درحقیقت انسان کی اپنی فطرت ِ عالیہ کے
نوامیس کی اطاعت ہے“۔
۱۱…”قرآن ماضی کی طرف نگاہ رکھنے کے بجائے ہمیشہ مستقبل کو سامنے رکھنے کی
تاکید کرتا ہے، اسی کا نام ایمان بالآخرت ہے“۔
۱۲…”بہرحال مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں، انسانی ذات کی کیفیات
ہیں لہزا کوی جنت نہیں کوئ دوزخ نہیں۔
۱۳…”ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب
کرتے ہیں، ملائکہ کے آدم کے سامنے جھکنے سے مراد یہ ہے کہ یہ قوتیں جنہیں
انسان مسخر کرسکتا ہے، انہیں انسان کے سامنے جھکاہوا رہنا چاہئے الخ“۔
۱۴…”آدم کوئی خاص فرد نہیں تھا، بلکہ انسانیت کا تمثیلی نمائندہ تھا، قصہ
آدم کسی خاص فرد کا قصہ نہیں، بلکہ خود آدمی کی داستان ہے جسے قرآن نے
تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے الخ“۔
۱۵…”رسول اکرم کو قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیاگیا“۔
۱۶…”واقعہ ٴ اسراء“ اگر یہ خواب کا نہیں تو یہ حضور کی شبِ ہجرت کا بیان
ہے، اس طرح مسجد اقصیٰ سے مراد مدینہ کی مسجد نبوی ہوگی جسے آپ نے وہاں
جاکر تعمیر فرمایا“۔
۱۷…”مجوسی اساورہ نے یہ سب کچھ اس خاموشی سے کیا کہ کوئی بھانپ نہ سکا،
انہوں نے ”تقدیر“ کے مسئلے کو اتنی اہمیت دی کہ اسے مسلمانوں میں جزء ایمان
بنادیا“۔
۱۸…”اب ہماری صلاة وہی ہے جومذہب میں پوجا پاٹ یا ایشور بھگتی کہلاتی ہے،
روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت کہتے ہیں، زکوٰة وہی شے ہے جسے مذہب دان
خیرات کرکے پکارتا ہے، ہمارا حج مذہب کی یا تراہے، آپ نے دیکھا کہ کس طرح
دین (نظام زندگی) یکسر مذہب بن کررہ گیا، ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق
ہے نہ عقل وبصیرت سے کچھ واسطہ الخ“۔
۱۹…”قرآن کریم نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ قیامِ صلاة یعنی نماز کے
نظام کے قیام کا حکم دیا ہے، عجم میں مجوسیوں کے ہاں پرستش کی رسم کو نماز
کہا جاتا تھا، لہذا صلاة کی جگہ نماز نے لے لی الخ“۔
۲۰…”زکوٰة اس ٹیکس کے علاوہ اور کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد
کرے، اس ٹیکس کی کوئی شرح متعین نہیں کی گئی الخ“۔
۲۱…”حج عالم اسلامی کی بین الملی کانفرنس کا نام ہے، اس کانفرنس میں شرکت
کرنے والوں کے خورد ونوش کے لئے جانور ذبح کرنے کا ذکر قرآن میں ہے الخ“۔
۲۲…”یہ عقیدہ کہ بلا سمجھے قرآن کے الفاظ دہرانے سے ثواب ہوتا ہے، یکسر غیر
قرآنی عقیدہ ہے، یہ عقیدہ درحقیقت عہد سحر کی یادگار ہے“۔
جی تو پڑھی اپ نے پرویزیت ۔ میں زاتی طور پر خود یہ نقطہ اٹھاتا ہوں کہ اس
طرح قران میں یہ کہیں نہیں لکھا کتا حرام ہے۔ تو یہ کاٹ کے کھا کیوں نہیں
جاتے۔۔؟
اس قسم کے فتنوں سے خود بھی آگاہ رہیں اور دوسروں کو آگاہ کرکے انکا ایمان
بھی بچائیں۔۔
نوٹ!!
مکمل تفصیلات کے لئے مدرسہ عربیہ اسلامیہ کی شائع کردہ کتاب ”علماء امت کا
متفقہ فتویٰ“ پرویز کافر ہے“ کا مطالعہ کیا جائے۔
|