سیرت حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالی
آپ رضی اللہ عنہ جب اپنی والدہ رضی اللہ سے مل کر واپس آئے تو اپنے مخلصین
ساتھیوں کو جمع کیا
قَالُوا: وَكَانَ يَخْرُجُ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَهُنَاكَ
خَمْسُمِائَةِ فَارِسٍ وَرَاجِلٍ فَيَحْمِلُ عَلَيْهِمْ فَيَتَفَرَّقُونَ
مورخین کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ مسجد الحرام کے باب سے باہر نکلےاور باہر
پانچ سو سوار پیادہ شامی لشکر تھا ,
آپ رضی اللہ جب ان پر حملہ کرتے تھے سب کے سب بھاگ کھڑے ہوتے تھے,
پھر آپ رضی اللہ اور آپ رضی اللہ کے ساتھیوں نے اس قدر زور دار حملہ کیا کہ
شامی لشکر حرم کے حدود سے منتشر ہوگیا پھر آپ رضی اللہ آگے مزید اگے آۓ۔
مورخین بیان کرتے ہیں کہ حرم کے سارے دروازوں پر اہل شام نے محاصرہ کیا ہوا
تھا آپ رضی اللہ اور آپ رضی اللہ کے ساتھی ان پر حملہ آور ہوتے اور انہیں
پیچھے ہٹا دیتے یہاں تک آپ رضی اللہ کے اصحاب بہت کم رہ گئے ۔آپ رضی اللہ
ہر دروازے پر ان کا مقابلہ کرتے آپ رضی اللہ پر منجنیق سے پتھر برسائے
جارہے تھے لیکن آپ رضی اللہ برابر ان پر حملہ کرتے جاتے, یہاں تک کہ اہل
شام بطح تک پیچھے ہٹ گئے آپ رضی اللہ کی عمر مبارک ستر سال تھی ابھی کوئی
آپ رضی اللہ سے مقابلہ کی ہمت نہ کر پاتا , آپ رضی اللہ کی شجاعت کا اقرار
اہل شام بھی کرنے لگے بس 17 جمادی الاول کو آپ رضی اللہ نے ساری رات جاگ کر
عبادت میں گزاری اور جب صبح ہوئی تو آپ رضی اللہ نے نماز فجر ادا کی اور
شامیوں نے پھر سے لڑائی چھیڑ دی, آپ رضی اللہ سے لڑنے لگے آپ رضی اللہ کی
شجاعت سے بجھ کر رہ گئے بس پھر انہوں نے آپ رضی اللہ کا مقابلہٓ کرنے کے
بجائے اینٹ اور پتھر آپ رضی اللہ پر پھنکنا شروع کر دئے جس سےآپ رضی اللہ
سخت زخمی ہوگئے اور ایک بھاری پتھر آپ رضی اللہ کے سر پر آلگا اس سے بے
ساختہ ہوکر گرپڑے اور شامیوں نے آپ رضی اللہ کو شہید کردیا -انا للہ و انا
الیہ راجعوں اورعبدالمالک کے حکم سے آپ رضی اللہ کا سر مبارک شام بھیجا گیا
اور آپ رضی اللہ کی نعش مبارک کو سولی پر لٹکا دیا گیا اہل شام تکبیر کے
نعرے بلند کرنے لگے کہ یہ شور سن کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ آئے اور
معلوم کیا کہ کیا بات ہے لوگون نے کہا اہل شام نے ابن زبیر رضی اللہ کو
شہید کردیا ہے اور خوشی میں تکبیریں کہ رہے ہیں,
اس پر ابن عمر رضی اللہ نے فرمایا!
أَمَا وَاللَّهِ لَلَّذِينِ كَبَّرُوا عِنْدَ مَوْلِدِهِ خَيْرٌ مِنْ
هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كبروا عند قتله،
تو فرمایا کہ اللہ کی قسم ان کے پیدا ہونے پر تکبیریں کہنے والے ان کے قتل
ہونے پر تکبیریں کہنے والوں سے زیادہ افضل تھے۔
پھر آپ رضی اللہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ کی لٹکی ہوئی نعش پر گئے اور
فرمایا
فَقَالَ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ يَا أَبَا خُبَيْبٍ، أَمَا وَاللَّهِ
لَقَدْ كُنْتَ صَوَّامًا قَوَّامًا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا آنَ لِهَذَا
الرَّاكِبِ أَنْ يَنْزِلَ؟ فَبَعَثَ الْحَجَّاجُ فَأُنْزِلَ عَنِ الْجِذْعِ
وَدُفِنَ هُنَاكَ (البدایہ النہایہ)
اے ابا خبیب اللہ تعالی آپ پر رحمتیں ہوں اللہ قسم آپ قیام و صیام والے تھے
پھر کہا کیا اس سوار کے اترنے کا وقت نہیں ایا ؟ پھر آپ حجاج نے اپ کو کھلا
بھیجا تو آپ نے ان کی نعش اترواکر دن کردی۔
آپ رضی اللہ کے کچھ گورنر
عبداللہ بن یزید الخطمی رضی اللہ ، نعمان بن بشیر رضی اللہ (قتل ہونے تک)
ابن زبیر رضی اللہ کے حمص کے گورنر بعد میں مروان نے حملہ کرکہ آپ رضی اللہ
کو قتل کردیا۔ عبدالرحمن بن جحدم رضی اللہ (مصر) زفر بن حارث رضی اللہ
(قنسرین ) عبداللہ بن مطیع رضی اللہ (کوفہ ) مہلب بن ابی صفرہ رضی اللہ
(خراسان) مصعب بن زبیر رضی اللہ (بصرہ) ضحاک بن قیس رضی اللہ ( شام ),ضحاک
نے شام میں آپ رضی اللہ کی بیعت لے لی تھی بعد میں مروان کے ساتھ اردن میں
جنگ کی اور قتل ہوئے) اور نائل بن قیس (فلسطین – مروان کے قبضہ سے پہلے) آپ
رضی اللہ کے قاضیوں میں عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ ، ہشام بن ہبیرہ رضی اللہ
اور شریح بن حارث رضی اللہ مشہور ہیں۔
آپ رضی اللہ کے فضائل!
حضرت ابن زبیر رضی اللہ کے بارے میں روایات بکثرت آتی ہیں کہ آپ رضی اللہ
کی عبادت بہت ہی تاثیر والی ہوتی تھی اور آپ رضی اللہ استقامت کے ساتھ قیام
فرماتے تھے اور بہت زیادہ نماز پڑہتے تھے اور روایات میں آتا ہے کہ آپ رضی
اللہ رکوع مین سورہ بقرہ ، آلعمران ، نساء اور مائدہ پڑھ لیتے تھے اور ہلتے
تک نہ تھے شامیوں کی سنگ باری کے دوران آپ رضی اللہ حرم مین نماز ادا کر
رہے تھے تو ایک پتھر آکر آپ رضی اللہ کو لگا لیکن آپ رضی اللہ اسی حالت مین
نماز پڑھتے رہے اور حرکت تک نہ کی اور سخی بھی تھے,
آپ رضی اللہ کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ آپ رضی اللہ کے پیدا ہونے پر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے خوشی منائی تھی اور یہود کے
مقابلے میں تکبیریں کہیں تھیں اور آپ رضی اللہ کا نام رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے خود رکھا تھا ۔
آپ رضی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت بھی کی تھی,
وَقَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ عَنْ
عَامِرِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ
أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلِّمَ
فِي غِلْمَةٍ تَرَعْرَعُوا مِنْهُمْ عَبْدُ اللَّهِ ابن جَعْفَرٍ، وَعَبْدُ
اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَعُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، فَقِيلَ يَا
رَسُولَ اللَّهِ لَوْ بَايَعْتَهُمْ فَتُصِيبَهُمْ بَرَكَتُكَ وَيَكُونُ
لَهُمْ ذِكْرٌ، فَأُتِيَ بِهِمْ إِلَيْهِ فَكَأَنَّهُمْ تَكَعْكَعُوا
وَاقْتَحَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «إِنَّهُ ابْنُ أَبِيهِ
وَبَايَعَهُ»
زبیر بن بکار رضی اللہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
نوجوانوں کے بارے میں بات کی جن میں عبداللہ بن جعفر رضی اللہ ، عبداللہ بن
زبیر رضی اللہ اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ شامل تھے اور آپ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ صلی اللہ
علیہ والہ وسلم ان سے بیعت لیں گے تو ان کے لئے باعث برکت و شہرت ہوگی بس
پھر انکو لایا گیا یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ
جھکے, لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ بڑی دلیری سے داخل ہوئے تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرایا اور کہا کہ یہ اپنے باپ کا بیٹا ہے (مطلب
زبیر رضی اللہ کی طرح شجاعت ہوگا واللہ عالم )
آپ رضی اللہ کی آواز و تقریر کا انداز مثل صدیق اکبر رضی اللہ تھا اس پر آپ
رضی اللہ کے والد زبیر رضی اللہ کی گواہی۔
ابن کثیر البدایہ مین لکھتے ہیں کہ جب افریقہ فتح ہوا اس میں آپ رضی اللہ
نے بے پناہ شجاعت کا مظاہرہ کیا تو عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ امیر مصر
نے آپ رضی اللہ ہی کو حضرت عثمان رضی اللہ کے پاس خوشخبری کے ساتھ بھیجا
,جب آپ رضی اللہ نے آکر امیر المومنین عثمان رضی اللہ کو سب کچھ بتایا تو
حضرت عثمان رضی اللہ نے آپ رضی اللہ سے فرمائش کی کہ منبر پر چڑھ کر یہ سب
کچھ لوگوں کو بتائیں ۔آپ رضی اللہ خود ہی اس کو روایت کرتے ہیں ۔۔۔
قال له عثمان: إن استطعت أَنَّ تُؤَدِّيَ هَذَا لِلنَّاسِ فَوْقَ
الْمِنْبَرِ، قَالَ: نَعَمْ! فَصَعِدَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَوْقَ
الْمِنْبَرِ فَخَطَبَ النَّاسَ وَذَكَرَ لَهُمْ كَيْفِيَّةَ مَا جَرَى،
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَبِي الزُّبَيْرُ فِي
جُمْلَةِ مِنْ حَضَرَ، فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهُ كَادَ أَنْ يُرْتَجَ
عَلَيَّ فِي الْكَلَامِ مِنْ هَيْبَتِهِ في قلبي، فرمزنى بعينه وأشار إلى
ليحصني، فَمَضَيْتُ فِي الْخُطْبَةِ كَمَا كُنْتُ، فَلَمَّا نَزَلْتُ
قَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنِي أَسْمَعُ خُطْبَةَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ
حِينَ سَمِعْتُ خُطْبَتَكَ يَا بُنَيَّ.
حضرت عثمان رضی اللہ نے مجھے سے کہا کہ یہ بات لوگوں کو منبر پر چڑھ کر
بتاو میں نے کہا ٹھیک ہے اور ابن زبیر رضی اللہ نے منبر پر چڑھ کر خطاب کیا
اور اس وقت کی کیفیت بیان کی کہتے ہیں کہ میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ لوگوں
میں میرے والد زبیر رضی اللہ بھی موجود ہیں جب میں نے آپ رضی اللہ کے چہرہ
کو دیکھا تو قریب تھا کہ میں ان کی ہیبت سے جو بات میرے دل میں تھی اور
تقریر بند ہوجاتی تو پھر آپ رضی اللہ (زبیر رضی اللہ) نے مجھے اشارہ کیا
اور اپنے سے بچنے کا کہا تو میں رواں ہوگیا جسے میں پہلے رواں تھا جب میں
منبر سے اتراتو آپ رضی اللہ نے مجھے کہا اے میرے بیٹے جب میں نے تمہاری
تقریر سنی تو اللہ کی قسم مجھے یوں معلوم ہوا کہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ
کی تقریر سن رہا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ کی ابن زبیر رضی اللہ سے محبت!
ام المومنین عائشہ رضی اللہ آپ رضی اللہ سے بے پناہ محبت کرتی تھیں اور آپ
رضی اللہ نے اپنی کنیت آپ رضی اللہ ہی کے نام پر ام عبداللہ رکھی تھی گویا
کہ یہ آپ رضی اللہ کو بخش دیے گئے تھے اور تقریباً ہر وقت آپ رضی اللہ ام
المومنین رضی اللہ کے گھر ہی رہتے تھے اسی گھر میں آپ رضی اللہ نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پی لیا تھا جس پر آپ علیہ السلام نے ان پر
جہنم کو حرام قرار دیا تھا ۔جنگ جمل میں آپ رضی اللہ نے اشترسے شدید لڑائی
کی تھی اور آپ رضی اللہ بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے ام المومنین رضی اللہ نے
آپ رضی اللہ کے بارے میں جاننے کے لئے آدمی بھیجے تو وہ واپس آکر آپ رضی
اللہ کو بتایا کہ زندہ ہیں تو سر بسجود خدا ہوگئیں ۔
ابن کثیر لکھتے ہیں!
وَقَدْ أَعْطَتْ عَائِشَةُ لِمَنْ بَشَّرَهَا أَنَّهُ لَمْ يُقْتَلْ
عَشَرَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ وَسَجَدَتْ للَّه شكرا، وكانت تُحِبُّهُ حُبًّا
شَدِيدًا، لِأَنَّهُ ابْنُ أُخْتِهَا، وَكَانَ عزيزا عليها، وقد روى عن
عروة أن عائشة لم نكن تُحِبُّ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأبي بكر مثل حبها ابن الزبير، قال: وَمَا
رَأَيْتُ أَبِي وَعَائِشَةَ يَدْعُوَانِ لِأَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ مِثْلَ
دُعَائِهِمَا لِابْنِ الزُّبَيْرِ
اور جس شخص نے ام المومنین کو اطلاع دی کہ ابن زبیر رضی اللہ زندہ ہیں تو
ام المومنین عائشہ رضی اللہ نے اسے دس ہزار درہم عطا کئے اور اللہ کے حضور
شکرانہ کا سجدہ کیا آپ رضی اللہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ سے بہت پیار کرتی
تھیں یہ آپ رضی اللہ کی بہن کے بیٹے تھے اور آپ رضی اللہ کو بہت عزیز تھے
عروہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اور ابوبکر رضی اللہ کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کے سب سے زیادہ
عزیز رکھتی تھیں اور میں نے عائشہ رضہ کو مخلوق میں سے کسی کے لئے بھی
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کی مانند دعا کرتے نہیں دیکھا۔
ابن عمر رضی اللہ اور ابن زبیر رضی اللہ
آپس تعلق!
حضرت ابن عمر رضی اللہ آپ کو خلافت کے معاملے میں پڑنے سے روکتے تھے اور جب
آپ رضی اللہ شہید ہوئے اور آپ کی نعش مبارک سولی پر لٹکائی گئی تو حضرت ابن
عمر رضی اللہ روزانہ آپ رضی اللہ کی نعش پر آتے اور آپ رضی اللہ کو سلام
کرتے تھے اس وجہ سے حجاج کو شرم آئی اور آپ رضی اللہ کو دفنایا گیا۔ آپ رضی
کی شہادت پر شامیوں کو خوشی کے نعرے لگاتے سنا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ نے
بے ساختہ یہ الفاظ بولے جن کو ابن زبیر رضی اللہ کی صحیح تعریف و منقبت
کہیں تو بیجا نہ ہوگا,
یہاں پر ابن عمر رضی اللہ نے فرمایا
أَمَا وَاللَّهِ لَلَّذِينِ كَبَّرُوا عِنْدَ مَوْلِدِهِ خَيْرٌ مِنْ
هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كبروا عند قتله،
اللہ کی قسم ان کے پیدا ہونے پر تکبیریں کہنے والے ان کے قتل ہونے تکبیریں
کہنے والوں سے بہت زیادہ افضل تھے۔
پھر آپ حضرت ابن زبیر رضی اللہ کی لٹکی ہوئی نعش پر گئے اور فرمایا
فَقَالَ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ يَا أَبَا خُبَيْبٍ، أَمَا وَاللَّهِ
لَقَدْ كُنْتَ صَوَّامًا قَوَّامًا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا آنَ لِهَذَا
الرَّاكِبِ أَنْ يَنْزِلَ؟ فَبَعَثَ الْحَجَّاجُ فَأُنْزِلَ عَنِ الْجِذْعِ
وَدُفِنَ هُنَاكَ
اے ابا خبیب اللہ تعالی آپ پر رحمتیں ہوں اللہ قسم آپ قیام و صیام والے تھے
پھر کہا کیا اس سوار کے اترنے کا وقت نہیں ایا ؟ پھر آپ حجاج نے اپ کو کھلا
بھیجا تو آپ نے ان کی نعش اترواکر دن کردی۔
ابن زبیر رضی اللہ و ابن عباس رضی اللہ.
ابن عباس رضی اللہ آپ رضی اللہ کی بیعت سے رکے رہے تو لوگوں نے خیال کیا کہ
شاید وہ آپ رضی اللہ کے رہن سہن کو پسند نہیں کرتے اور آپ رضی اللہ کے
مخالف ہیں اس لئے کسی نے آکر عباس رضی اللہ سے آپ رضی اللہ کے بارے میں
پوچھا تو آٗپ رضی اللہ نے فرمایا!
ابن کثیر لکھتے ہیں
وَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ الْبَغَوِيُّ —–َسُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ
ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَ كَانَ قَارِئًا لِكِتَابِ اللَّهِ، مُتَّبِعًا
لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، قَانِتًا للَّه صَائِمًا فِي الْهَوَاجِرِ مِنْ
مَخَافَةِ اللَّهِ، ابْنُ حَوَارِيِّ رَسُولِ اللَّهِ، وَأُمُّهُ بِنْتُ
الصِّدِّيقِ، وَخَالَتُهُ عَائِشَةُ حَبِيبَةُ حَبِيبِ اللَّهِ، زَوْجَةُ
رَسُولِ اللَّهِ، فَلَا يَجْهَلُ حَقَّهُ إِلَّا مَنْ أَعْمَاهُ اللَّهُ
(اس طرح کی روایت بخآری میں بھی ہے اور ابن عباس رضی اللہ ہی سے مروی ہے)
ابو القاسم البغوی سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ابن عباس رضی اللہ سے آپکے متعلق
پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ نے کہا ابن زبیر رضی اللہ کتاب اللہ کے قاری اور
سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متبع اللہ کے فرمانبردار اورخوف
الہی سے دوپہروں کو روزہ رکھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری
کے بیٹے تھے اور آپ رضی اللہ کی ماں صدیق اکبر رضی اللہ کی بیٹی اور آپ رضی
اللہ کی خالہ عائشہ رضی اللہ تھیں, جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
محبوب بیوی تھیں آپ رضی اللہ کے حق سے وہی شخص ناواقف ہوسکتا ہے جس کو خدا
نے اندھا کیا ہو۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ابن زبیر رضی اللہ
حضرت عمر بن عبدالعزیز سے آپ رضی اللہ کی عبادت کا زکر کیا گیا تو آپ نے
جستجو کی کہ مجھے ان کے بارے میں بتاو آپ نے ابن ابی ملیکہ سے کہا ان کو
اوصاف بیان کرو تو انہوں نے بیان کئے
ابن کثیر اپنی تاریخ میں حمیدی و سفیان بن عیینیہ کی روایت درج کرکہ لکھتے
ہیں
وَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَوْمًا لِابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ:
صِفْ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا
رَأَيْتُ جِلْدًا قَطُّ رُكِّبَ عَلَى لَحْمٍ وَلَا لَحْمًا عَلَى عَصَبٍ
وَلَا عَصَبًا عَلَى عَظْمٍ مِثْلَهُ، وَلَا رَأَيْتُ نَفْسًا رُكِّبَتْ
بَيْنَ جَنْبَيْنِ مِثْلَ نَفْسِهِ، وَلَقَدْ مَرَّتْ آجُرَّةٌ مِنْ رَمْيِ
الْمَنْجَنِيقِ بين لحيته وصدره فو الله ما خشع وَلَا قَطَعَ لَهَا
قِرَاءَتَهُ، وَلَا رَكَعَ دُونَ مَا كَانَ يَرْكَعُ، وَكَانَ إِذَا دَخَلَ
فِي الصَّلَاةِ خَرَجَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَيْهَا. وَلَقَدْ كان يركع
فيكاد الرخم أن يقع عَلَى ظَهْرِهِ وَيَسْجُدُ فَكَأَنَّهُ ثَوْبٌ
مَطْرُوحٌ.
ایک دن عمر بن عبدالعزیز نے ابن ابی ملیکہ سے کہا کہ ابن زبیر رضہ کے اوصاف
ہمارے سامنے بیان کرو تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں نےکبھی بھی ایسا
بہادر گوشت پر سوار نہیں دیکھا نہ گوشت پٹھوں پر نہ پٹھے ہڈیوں پر دیکھے
ہیں اور نہ میں نے کسی جان کو آپ رضی اللہ کی جان کے مثل دونوں پھلوں پر
سوار دیکھا ہے اور منجنیق کی ایک اینٹ آپ کی داڑھی اور سینے کے عین درمیان
سے گزری اللہ کی قسم نہ آپ رضی اللہ کی آواز کم ہوئی اور نہ ہی آپ رضی اللہ
نے قرآت کو قطع کیا اور نہ اس سے کم قرآت پر جس پر آپ رضی اللہ رکوع کرتے
تھے رکوع کیا اور جب نماز میں داخل ہوتے تو ہر بات سے باہر نکل کر اس کی
طرف آتے اور آپ رضی اللہ رکوع کیا کرتے تو قریب تھا کہ آپ کی پیٹھ پر بیٹھ
جاتا اور سجدہ کرتے تو یوں معلوم ہوتا کہ گرہ ہوا کپڑا ہے۔.
عثمان ابن ابی طلحہ فرماتے تھے کہ تین چیزوں میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ
عنہ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
( 1 ) شجاعت میں ( 2 ) عبادت میں
( 3 ) بلاغت میں ۔ (ابن کثیر)
پھر ابن کثیر خؤد لکھتے ہیں
كَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ لَا يُنَازَعُ فِي ثَلَاثٍ، فِي الْعِبَادَةِ
وَالشَّجَاعَةِ وَالْفَصَاحَةِ. وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ عُثْمَانَ جَعَلَهُ
فِي النَّفَرِ الَّذِينَ نَسَخُوا الْمَصَاحِفَ مَعَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ
وَسَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ
هِشَامٍ وَذَكَرَهُ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ فِي خُطَبَاءِ الْإِسْلَامِ
مَعَ مُعَاوِيَةَ وَابْنِهِ وَسَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ وَابْنِهِ
ابن کثیر کہتے ہیں کہ ابن زبیر رضی اللہ کے ساتھ عبادت ، شجاعت و فصاحت کے
متعلق جھگڑا نہیں کیا جا سکتا اور یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ
نے آپ رضی اللہ کو ان لوگوں میں شامل کیا ہے جنہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی
اللہ اور سعید بن العاص رضی اللہ اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ
کے ساتھ مصاحف لکھے تھے اور سعید بن مصیب رضی اللہ نے آپ رضی اللہ کو حضرت
معاویہ رضی اللہ اور ان کے بیٹے اور سعید بن العاص اور ان کے بیٹے کے ساتھ
خطباء اسلام میں شامل کیا ۔
(حوالہ جات: صحیح مسلم ، تاریخ طبری ، و تاریخ ابن کثیر )
اللہ آپ کو اور مجھے ایمان کی حلاوت نصیب فرمائے اورحقیقی خوشیاں عطا
فرمائے اور ہمیں اِن پاک نفوس کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور اللہ پاک
سے دعا ھے ہر کمی معاف فرما کر ﺫریعہ نجات بناۓ..آمین
|