قرآن حکیم سے متعلق ارشادِ ربانی ہے : ’’(اے نبیؐ) جو
کتاب ہم نے آپ کی طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی ہے وہی حق ہے‘‘، اس آیت میں
رب کائنات نے اپنی کتاب کو حق و باطل کی کسوٹی قرار دیا ہے یعنی اس سے ہم
آہنگ بات مجسم حق اورمتصادم سراپا باطل ہے ۔ قرآن کریم کی بابت اہل کتاب
کو یہ مژدہ سنایا گیا ہے کہ دیکھویہ :’’ تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے اُن کتابوں
کی جو اِس سے پہلے آئی تھیں بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور
ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کا
جن لوگوں کو وارث بنایا ان کے متعلق فرمایا:’’ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث
بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن
لیا ‘‘۔یہ آیت پوری امت مسلمہ کے اس کی وراثتِ عظمیٰ سے نوازے جانے کا
اعلان ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سےکیا جانے والایہ انتخاب یقیناً
ایک عظیم سعادت ہے لیکن اس کے تقاضے بھی اہم ہیں۔ وارثینِ کتاب کے درمیان
ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے اور اس کے تین
درجات بیان کیے گئے ہیں ۔
ارشادِ حق ہے: ’’اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے،‘‘ یہ
سب سے نچلا درجہ ہے ۔ یہ طبقہ اسلامی احکامات کی نافرمانی کرکے نہ جانے کس
کس پر ظلم کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ اپنی ان حق تلفیوں کی سزا اس کو خود
بھگتنی پڑے گی ۔ سچ تو یہ ہے خود اپنے نجات کی فکر ہی اس کو ظلم و جبر سے
روک سکتی ہے اس لیے دوسروں کا ذکر کرنے کے بجائے یاددہانی کی گئی کہ وہ
اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ یہی احساس کسی بھی انسان کو اللہ کی نافرمانی سے
روک سکتا ہے ۔ انسان اگر اس سزا کو مستحضر رکھے کہ جو اس کو روز قیامت ملے
گی تو یقیناً اپنے رویہ میں تبدیلی کرسکےگا وگرنہ اس کے بچنے کی کوئی صورت
نہیں ہے۔ ان لوگوں سے اونچے درجہ پر فائز لوگوں کے بارے میں فرمایا :’’ اور
کوئی بیچ کی راس ہے‘‘۔ یعنی نہ ان تو ظالمین میں سے اور نہ تو بہت اعلیٰ
اور ارفع ۔ ان کے بعد سا بقون اور اولون کا ذکر اس طرح فرمایا کہ: ’’ اور
کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے‘‘۔
ان لوگوں کے متعلق سورۂ واقعہ میں فرمایا : ’’اور جو سبقت لے گئے وہ تو
سبقت ہی لے گئے‘‘۔
مسند احمد کی ایک حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے
فرمایا : ’’ سابقین تو بےحساب جنت میں جائیں گے اور درمیانہ لوگوں سے آسانی
کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے طولِ محشر میں
روکے جائیں گے۔ پھر اللہ کی رحمتوں سے تلافی ہوجانے پرکہیں گے: ’’ اللہ کا
شکر ہے کہ اس نے ہم سے غم و رنج دور کردیا ہمارا رب بڑا ہی غفور و شکور ہے۔
جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے رہائش کی ایسی جگہ عطا فرمائی جہاں ہمیں کوئی
درد دکھ نہیں‘‘۔ احتسابِ نفس کی تدریج یہی ہے کہ انسان سب سے پہلے یہ جائزہ
لے کہ کہیں وہ اس آیت کی روشنی میں ظالموں کے اندر شمار تو نہیں ہوتا ۔ یہ
کیفیت خطرے کی بہت بڑی گھنٹی ہے۔ وہ اگرخود کو درمیان میں پائے تو اللہ کا
شکر ادا کرے اور سابقون کی صف میں آنے کی سعی میں لگ جائے ۔ حضرت عائشہ ؓ
اس آیت کی بابت فرماتی ہیں’’ یہ سب جنتی ہیں۔ ’ سابق بالخیرات‘ تو وہ ہیں
جنہیں رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دی۔ ’مقتصد‘ میں ان کا شمار ہے جو آپ ﷺ
کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ان سے جا ملے۔ اوراپنے نفس کے ظالم ہم جیسے
ہیں‘‘ ۔ حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں حدیث ہے کہ انہیں تمام عورتوں پر وہی
فضیلت ہے جو فضیلت ثرید کو دیگر پکوان پر ہے۔ اس کے باوجود ان کی کسرنفسی
اور تواضع کا یہ عالم ، اللہ اکبر ۔ سابق الخیرات حضرت عائشہؓ کے عجز و
انکسار سے اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی نوازے ۔
|