پروفیسر ڈاکٹر شمشاد اختر
اسلام ایک عالمگیر اور ہمہ گیر دستور حیات ہے انسانی زندگی کا کوئی پہلو
ایسا نہیں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ، سیاسی ہو یا معاشی، اخلاقی ہو
یا معاشرتی جس کے متعلق دین اسلام میں اصول ِ رہنما ئی موجود نہ ہوں ۔
انسانی زندگی میں معاشی معاملات کی اہمیت کی وجہ سے دین اسلام نے مضبوط
بنیادوں پراستوار نظام معیشت متعارف کروایا،اور معیشت کے بارے میں اولین
حقیقت، جسے قرآن نے بار بار بیان کیا ،یہ ہے کہ وہ تمام ذرائع ، وسائل جن
پر انسان کی معاش کا انحصار ہے ،اﷲ تعالی کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور تمام
ذرائع وسائل انسان کے لیے نافع ہیں ۔ارشاد باری تعالی ہے : (وجعلنا لکم
فیھا معایش) ’’ اور ہم نے تمہارے لئے زمین میں معیشت کے سامان بنائے ‘‘
۔اسی طرح رسول اکرم ﷺ کا اسوہ ، آپ ﷺ کی تعلیمات ہمیں بھر پور معاشی جدو
جہد کی ترغیب دیتی ہیں ۔حضرت عائشہ ؓ سے مروی کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’ بے
شک سب سے عمدہ کھانا وہ ہے جو انسان اپنی کمائی سے کھائے ۔‘‘ نبی کریم ﷺ سے
پوچھا گیا کہ آدمی کی سب سے زیادہ پاکیزہ کمائی کون سی ہے ؟ فرمایا : ’’
آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر وہ تجارت جو نیکی اور بھلائی پر مشتمل
ہو ۔‘‘ قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے : ’’اور البتہ تحقیق ہم
نے تم کو زمین میں رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لیے اس میں سامان معیشت
پیدا کیے ۔ تم میں کم لوگ شکر ادا کرتے ہیں ۔ ‘‘ یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ
دین اسلام نے وسائل رزق صرف مردوں کے لیے مخصوص نہیں کیے۔یہی وجہ ہے کہ عہد
نبوی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی کسب معاش کی کوششیں کی اور
معاشی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا ۔ مطالعہ عہد نبوی ﷺ سے بہت سے ایسے
شواہد ملتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین مختلف معاشی سر گرمیوں میں
حصہ لیتی تھیں اور ان کا طرز عمل آج کی مسلمان خواتین کے لیے نمونہ عمل ہے
۔
وسائل معیشت میں سب سے اہم وسیلہ تجارت ہے ۔ عہد نبوی ﷺ میں بھی مردوں کے
ساتھ ساتھ خواتین نے بھی تجارتی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا ۔اس حوالے سے
سر فہرست حضرت خدیجۃ الکبری ؓ کا نام آتا ہے ’’ الطبقات الکبری ‘‘ میں
مذکور ہے کہ : ’’ آپ ؓ مردوں سے تجارت کرایا کرتی تھیں سرمایہ آپ ؓ کا ہوتا
تھا اور نفع میں آپ اور آپ کا شریک مرد دونوں برابر کے حصہ دار ہوتے تھے
۔‘‘ ان کے علاوہ بھی بہت سی دوسری خواتین تھیں جو مختلف اشیاء کی تجارت
کرتی تھیں ۔ حضرت خدیجہ ؓ کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد چمڑے کی کھال کی
تجارت کرتی تھیں ۔ عہد نبوی میں خواتین کا ایک اہم پیشہ عطر فروش تھا سید
ملیکہ ام سائب یہ سائب بن اقرع کی والدہ تھیں عطر بیچا کرتی تھیں ۔ اور
حولاء بنت تویت یہ ایسی عطر فروش خاتون تھی کہ ’’ العطارہ ‘‘ کے نام سے
مشہور ہو گئی تھی ۔اسماء بنت مخربہ مشہور سردار مکہ ابو جہل مخزومی کی ماں
تھیں ۔ ان کے فرزند عبداﷲ بن ابی ربیعہ یمن سے عمدہ عطر ان کے پاس بھیجا
کرتے تھے ۔ جسے وہ فروخت کرتی تھیں اور بالعموم خواتین ِ خانہ ان ہی سے عطر
خریدتی تھیں ۔ ام معبد خزاعیہ کے حوالہ سے روایت بیان کی جاتی ہے کہ انہوں
نے اشیاء فروخت کرنے کے لیے اپنا خیمہ مقرر کیا ہوا تھا ۔
عہد نبوی میں خواتین کا ایک معروف تجارتی طریقہ گھر گھر جا کراشیاء فروخت
کرنا تھا ۔ جیسا کہ حضرت حولاء کے متعلق مذکور ہے کہ وہ گھر گھر جا کر عطر
فروخت کرتی تھیں ۔ ذرائع کسب معاش میں سے ایک اہم ذریعہ زراعت ہے ۔ بخاری
میں ایک ایسی خاتون کا ذکر ملتا ہے جو سبزیوں کی کاشت کیا کرتی تھی ۔ حضرت
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ : ’’ ہمارے یہاں ایک خاتون تھیں جن کی اپنی
کھیتی تھی وہ نالیوں کے اطراف میں چقندر کی کاشت کیا کرتی تھیں ۔‘‘ عہد
نبوی میں خواتین شجر کاری بھی کرتی تھیں ۔ حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ کی خالہ نے
دوران عدت اپنے کھجور کے درخت کاٹنے کی اجازت لی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’
کیوں نہیں ! کھیت میں جاؤ اور اپنے درخت کاٹو۔۔‘‘ام مبشر انصاریہ کے کھجور
کے باغ تھے اور وہ شجر کاری کرتی تھیں ۔ آپ ﷺ ان کے باغ میں تشریف لے گئے
اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔‘‘اس کے علاوہ خواتین دوسروں کے کھیتوں میں
مزدوری بھی کرتی تھیں اگراپنی زمین نہ ہوتی ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓاپنی
شادی کے متعلق طویل روایت ذکر کی ہے جس میں مذکور ہے کہ : ’’ میں زبیر کی
زمین سے اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں لایا کرتی تھی ۔’’ حرقا ‘‘ نامی حبشہ
عورت تھی جو گٹھلیاں چنتی تھی ۔ ابوداؤد میں ایک روایت ہے ذکر کی گئی ہے کہ
عمران بن سہل نے اپنی زمین ایک عورت کو دوسو درہم کے بدلے ٹھیکے پر دی تھی
۔
عہد نبوی میں خواتین کے لئے ایک اہم ذریعہ معا ش دباغت تھا ، خواتین کھال
کو دباغت دے کر چمڑا بناتی تھیں پھر اس کی مختلف اشیاء بنا کر فروخت کرتی
تھیں یعنی لیدر فیکٹری کا کام کرتی تھیں ۔ حضرت زینب بنت جحش ؓ زوجہ رسول ﷺ
اس کام میں بہت مہارت رکھتی تھیں ۔ حضرت سودہ ؓ زوجہ رسول ﷺ بھی اس صنعت
میں مہارت رکھتی تھیں ۔ ان کے بارے میں روایت ہے کہ : ’’ وہ ( سودہ ؓ) ان
میں سب سے زیادہ اچھے حال والی تھیں وہ طائفی چمڑا بناتی تھیں ۔اسی طرح
عہدنبوی میں خواتین سوت کات کر اور پھر اس کی بنائی کر کے کپڑا تیار کر کے
بیچتی تھیں اور ان کے ذریعے رزق حلال کماتی تھیں ۔ شعیزہ نامی خاتون اون
اور کھجور کے درخت کی چھال جمع کیا کرتی تھیں جسے کات کر گولہ وغیرہ بناتی
تھیں ۔ فاطمہ بنت ولید خود بیان کرتی ہیں کہ جب میں ملک شام میں تھی تو
اپنے خیمے ریشمی کپڑے سے بناتی تھی ۔ عہد نبوی میں خواتین رنگ سازی میں بھی
مہارت رکھتی تھیں اور بعض خواتین نے اس کو بطور پیشہ اختیار کیا ہوا تھا ۔
عہد نبوی میں خواتین کشیدہ کاری اور دستکاری میں مہارت رکھتی تھیں ۔ ایک
خاتون آپ ﷺ کے پاس ایک چادر لے کر ٓائی عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ میں نے اپنے
ہاتھوں سے اس پر کشیدہ کاری کی ہے ۔حضرت زینب زوجہ ابن مسعود کشید کاری اور
دستکاری میں بہت مہارت رکھتی تھیں ۔وہ ایک کاریگر خاتون تھیں اور ابن مسعود
بالکل مفلس تھے ان کی زوجہ اپنی صنعت سے جو کچھ کماتی وہ شوہر اور بیٹے پر
خرچ کرتی تھیں ۔ اسی طرح عہد نبوی میں خواتین مختلف فنون میں مہارت رکھتی
تھیں اور اس کے ذریعے کسب معاش کرتی تھیں اور مختلف کاموں میں اپنے فن اور
صلاحیتوں کا اظہار کرتی تھیں ۔ مثلاََحضرت شفاء بنت عبداﷲ ؓ : کتابت کے فن
میں بہت مہار ت رکھتی تھیں اور دوسری خواتین کو بھی سکھاتی تھیں ۔سیدہ ام ّ
درداء : تختی پر لکھنے کی مشق کیا کرتی تھیں اور طلباء کو تختی پر لکھنا
سکھایا کرتی تھیں ۔ اس طرح عہد نبوی میں کپڑے سلائی کرنے کا رواج بھی تھا
اور خواتین نے اس کو بطور ذریعہ کسب معاش اپنایا ہوا تھا ۔ البتہ عصر حاضر
میں ایک کثیر تعداد خواتین سلائی کے ذریعہ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں با
عزت طریقے سے کما رہی ہیں ۔
|