سنٹرل جیل ہری پور سے قیدی کا خط


محترمی !
میں آپ کو اپنی آواز اس لئے پہنچا رہا ہوں کہ آپ میری آواز بن کر ارباب اختیار تک پہنچا دیں کہ قیدخانے میں قیدیوں کیساتھ کتنا ظلم ہورہا ہے .ٹھیک ہے کہ قیدیوں سے جذبات کی زد میں آکر کبھی کبھی ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ جیل کی کالی کوٹھڑی کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں لیکن کیا یہ جیل خانے قیدیوں کی اصلاح کیلئے بنائے گئے ہیں یا پھر ان قیدیوں کو مزید جرائم کی طرف دھکیلنے کیلئے.یہ وہ سوال ہیں جو میں آپ کے ذریعے اس معاشرے کے ہر اس شخص سے جو صاحب اختیار ہے پوچھنا چاہتا ہوں.
جناب!
یہ بھی ضروری نہیں کہ جیل کے کالی کوٹھڑیوں میں ہر کوئی جرم کرکے آیا ہوں ان میں ایسے لوگ بھی آئے ہیں جو معصوم ہیں جنہیں پھنسایا گیا ہے ' اوران کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اپنے لئے آواز اٹھائیں ' عدالت جائیں ' کسی اخبار میں اپنی خبر شائع کروائیں ان ناکردہ جرائم میں گرفتار ہونیوالوں میں مرد و خواتین بھی شامل ہیں ' ایسے خواتین بھی شامل ہیں جن کے معصوم بچے بھی اپنی مائوں کیساتھ ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں لیکن ان کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں. سینکڑوں این جی اوز اس حوالے سے اعلانات کرتی ہیں ' فنڈز لیتی ہیں لیکن کوئی بھی ان کیلئے آواز نہیں اٹھاتا .ان حالات میں اگر دو سال کے کم عمر بچے اپنے ماں کے ساتھ جرم کی وجہ سے جیل کے سلاخوں کے پیچھے پل رہے ہو ' اور ان کیساتھ وہاں بھی مختلف قسم کی زیادتیاں ہورہی ہیں ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ وہ معاشرے کے کارآمد شخص بنیں گے یا پھر مثبت سرگرمیوں میں حصہ لیں گے.بے وقوفی ہے.میرا موضوع یہ نہیں لیکن اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے میں آپ کو جیل میں ہونیوالی عمومی چیزیں بھی بتا رہا ہوں.
اس بات کو چھوڑیں کہ میں کس جرم میں اندر ہوں کیونکہ میری کوئی اہمیت نہیں رہی ' کیونکہ میں ایک سزا یافتہ قیدی ہوں ' اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم جیسے قیدیوں کیساتھ سلوک کیسے کیا جارہا ہے . میں اس وقت سنٹرل جیل ہری پور میں قیدی ہوں ' یہاں پر قیدیوں کو جو کھانا ملتا ہے وہ کھانا انسان تو کیا گدھے بھی نہ کھائیں ' ہمیں جو کھانا ملتا ہے پاپڑ ٹائپ کی اس روٹی سے پیٹ تو نہیں بھرتا البتہ اسے دیکھ کر دل کھانے سے بھر جاتا ہے ' کیونکہ رات کا کھانا ہمیں عصر کے وقت دیا جاتا ہے اس لئے اتنی سوکھی اور سخت ہوجاتی ہے کہ پانی میں بھگو کر کھانا پڑتی ہے.
سنٹرل جیل ہری پور کے قیدیوں سے پولیس لائن میں کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کیلئے روٹی تیار کروائی جاتی ہیں حالانکہ قیدیوں سے پولیس کیلئے روٹی پکانا کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی کوئی تک بنتی ہے ' کیونکہ ان پولیس اہلکاروں سے میس میں روٹی کے نام پر کٹوتی ہوتی ہیں لیکن قیدیوں سے پولیس کیلئے روٹی پکوائی جاتی ہیں ' بدلے میں قیدیوں کو کیا ملتا ہے اس بارے میں خاموشی ہیں ' روزانہ تین سو کے قریب پولیس اہلکاروں کیلئے روٹی بنانا آسان کام بھی نہیں' لیکن ہم احتجاج بھی نہیں کرسکتے ' نہ ہی انکار کرنے کی ہم میں ہمت اور جرات ہے کیونکہ قیدی جو ہوئے. اور اگر کوئی انکار کرے تو پھر یہاں کی انتظامیہ کی اپنی بدمعاشی ہے ' کال کوٹھڑی میںبھوکے پیٹ رہنا ' ساتھ میں تشدد برداشت کرنا معمولی بات نہیں.
چلو ٹھیک ہے پولیس اہلکاروں کیلئے روٹی پولیس لائن کے بجائے قیدیوں سے پکائی جائے لیکن اس سے قیدیوں کو کیا ملتا ہے ' پیسے تو میس والے لیتے ہیں یہ وہ سوال ہیں جو یہاں پر پولیس میس کیلئے روٹی تیار کرنے والے ہر قیدی کی خواہش ہے کہ وہ پوچھ سکیں لیکن تشدد اور مار پیٹ کے ڈر سے وہ یہ سوا ل نہیں کرسکتے.اگر ہمیں یعنی قیدیوں کو اس کے بدلے میں کچھ مراعات ملتے تو پھر بھی کوئی بات ہوتی لیکن سوال یہ ہے کہ قیدیوں سے پولیس کیلئے روٹی بنانے کی مشقت کیوں لی جاتی ہے اور جیل کے لنگر سے پولیس کو روٹی کیوں تیار ہوتی ہے. سنٹرل جیل ہری پور میں ہفتے میں دو دن یعنی بدھ اور ہفتے کو قیدیوں کو سو گرام پیس چکن ملتا ہے لیکن وہ بھی کاغذات میں ' واللہ کہ کبھی چالیس گرام بھی کسی قیدی کو چکن پیس ملا ہو ' کیا کوئی غلطی سے آکر چیک کرسکتاہے لیکن یہ بھی ارینج وزٹ نہ ہو جس میں ہر چیز پہلے سے ارینج ہوتی ہے.
مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہر جیل کی طرح یہاں بھی اضافی قیدی رکھے گئے ہیں اور یہ بھی جیل انتظامیہ کی اپنی مرضی ہوتی ہے کیونکہ جتنے زیادہ قیدی ہونگے اتنا فنڈز زیادہ ملے گا ' فنڈز زیادہ ملے گا تو خرد برد بھی آسانی سے ہوگی ' یہ الگ بات کہ قیدی جیل میں جانوروں سے بدتر حالت میں اس سخت گرمی میں گھسے رہتے ہیں ' یہاں پر دن کو بھی گھٹن ہوتی ہیں اور رات. اللہ تعالی کسی دشمن کو بھی ایسی حالت میں نہ لائے..
جناب صحافی صاحب!
قانون کے مطابق اگر کوئی قیدی دوران قید تعلیم حاصل کرے یا کوئی ٹیکنیکل ایجوکیشن کرے تو اس کی سزا میں معافی ہوتی ہے جو کہ تین ماہ سے لیکر چھ ماہ تک ہے یہاں سنٹرل جیل ہری پور میں متعدد قیدیوں نے اپنے تعلیمی پراگرس میں اضافہ کیا ' ٹیکنیکل تعلیم بھی حاصل کی جو کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن بورڈ کی طرف سے سرٹیفائیڈ ہوتی ہیں لیکن نہ جانے ہماری سزائوں میں کمی کیوں نہیں ہوتی.کیا ہم انسان نہیں ' ہمارے ساتھ یہ ظلم کیوں ہورہا ہے.ہم کوئی دہشت گرد نہیں ' جن پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ' یہاں پر منشیات اور قتل کے مقدمات میں گرفتار قیدی ہیں جنہوں نے اپنی تعلیم کو امپرو کیا لیکن کچھ نہیں ہورہا.
آخر میں ایک بڑے چیز کی اور بھی وضاحت کردوں کہ ایسے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں جن کے استاد تک نہیں .جن کو سکھانے والے بھی کوئی نہیں. اس بارے میں قیدی کچھ بول بھی نہیں سکتے. ججز یہا ں کا دورہ تو کرتے ہیں لیکن انہیں دورے بھی بند دروازوں کے کروائے جاتے ہیں قیدی سارے بند ہوتے ہیں ' کوئی اپنی شکایت انہیں بیان نہیں کرسکتا ' اور اگر کسی نے غلطی سے سچ بولنے کی ہمت بھی کی تو تشدد کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار ڈی آئی خان جیل بھی بھیجاجاتا ہے. ایسے میں کوئی پاگل ہے کہ کوئی سچ بول دے..
میری یہ درخواست آپ کسی بھی فورم پر انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کے سامنے لائیں ' وزیراعلی خیبر پختونخواہ پشاور کے سنٹرل جیل کیساتھ ساتھ یہاں سنٹرل جیل ہری پور کا بھی دورہ کریں اور قیدیوں کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لیں.
شکریہ
ایک قیدی
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 419797 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More