پچھلے دنوں ملالہ یوسف زائی کے بیان کے بارے میں سنا ۔
بہت حیرت ہوئی اور حیرت کے ساتھ ساتھ شدید صدمہ بھی ہوا ۔ ملالہ کا شمار
پاکستان کی ان عورتوں میں سے ہے جن کو موقع ملا کہ وہ پاکستان میں اور
پاکستان سے باہر دنیا میں پاکستانی عورت کی نمائندہ بنی ۔ ایسے لوگ جو ایک
جماعت کو یا ایک قوم کے نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں تو وہ تنہا نہیں بول رہے
ہوتے وہ اس پوری جماعت کی طرف سے بول رہے ہوتے ہیں جس کے وہ نمائندہ ہوتے
ہیں ۔
مجھے صدمہ ہوا کے ملالہ جیسی سوچ رکھنے والے عورت اس ملک کی عورتوں کی
نمائندہ ہے جہاں عورتیں اپنی ساری زندگی اس جدوجہد میں گزار دیتی ہیں کہ ان
کو اچھی بیوی بننے کا اعزاز
مل سکے ۔ اس قوم کی بیٹیاں رخصت ہوتے وقت باپ اوربھائیوں کی عزت کی ڈوری
باندے نئے گھر میں قدم رکھتی ہیں اور اکثر اپنی ترجیحات کو پسِ پشت ڈال کر
صرف اس لیے بیوی کا میڈل پہنے رہتی ہے کہ اس کے باپ اور بھائیوں کا زمانے
میں سر نہ جھک جائے ۔ بےشمار بیویاں اپنی نسل کی بہتری کے لیے تمام عمر سر
جھکائے اللہ میاں کی گائے بن کرزندگی گزار دیتی ہیں کہ اس معاشرے میں شادی
کا ٹوٹنا گناہ مانا جاتا ۔
ایسے معاشرے کی ایک بیٹی کہتی ہے کہ شادی کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ ملالہ
صاحبہ آپ کو کوئی حق نہیں اتنا گھٹیا بیان دینے کا ۔ ایسا بیان تو اس
معاشرے کے عورتیں بھی نہیں دیتی جہاں آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے گئی ہوئی ہیں۔
|