COVID کہانی

ڈیڑھ سال سے زائد عرصے تک فیلڈ آئسولیشن سینٹر میں کام کرنے کے بعد ہم نے اپنے کورونا پروف ہونے پر خود ساختہ مہر ثبت کر لی تھی اور یہ یقین کر لیا تھا کہ اب کووڈ کم از کم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اور ہم اپنے بچپن کی اس کہانی کو یکسر فراموش کر بیٹھے جس کا عنوان تھا “غرور کا سر نیچا“ ڈیڑھ سال سے گھر والوں سے علیحدہ رہنے کا لطف اپنی جگہ مگر ان کو یہ باور کروا دیا تھا کے یہ سب مشق لا حاصل ہے کیونکہ کورونا کم از کم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ایک دن صبح سویرے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ ہم انتہائی تیز بخار میں مبتلاء ہیں خوش فہمی اب بھی برقرار تھی کہ وائرل انفلوینزہ ہو گیا ہو گا مگر جب سانس لینے میں حد سے زیادہ دشواری ہونے لگی اور قدم اٹھانے کے لئے تمام طاقت کو مجتمع کرنا پڑا تو شک گزرنے لگا کہ بے خودی بلا سبب نہیں ہے خیر اٹھنے کی ہمت تو تھی نہیں ٹیلیفون پر ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کو حالات سے آگاہ کیا انہوں نے وہیں رکنے کا کہا اور کچھ دیر بعد آ کر ہمارا کووڈ کا ٹیسٹ لیا اور شام میں ہمارے کووڈ پاسیٹیو کی نوید ہمیں سنا دی ہم اب سوچنے لگے کہ کس طرح اس خبر کا اعلان کریں کہ احباب سے کم سے کم مذاق کا نشانہ بنیں خیر سب سے پہلے فیملی واٹس ایپ گروپ میں اعلان ضروری تھا تاکہ گھر والے احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں، جیسے ہی ہم نے یہ خبر اہلِ خانہ تک پہنچائی ہمارے بڑے صاحب زادے کا میسج آ گیا کہ آپ اپنے دام میں خودہی صیاد آگیا جسے پڑھ کر تن بدن میں آگ تو لگی مگر جواب نہ دینا ہی بہتر لگا کیونکہ ایک تو تمام لوگ ایک طرف ہوتے اور ہم تن تنہا اس فوج کا مقابلہ کرنے کی سکت ہر گز نہیں رکھتے تھے اور دوسرے اس گرپ میں والدہ محترمہ بھی موجود ہیں جو حب نسل میں ہماری اگلی پجھلی نسلوں کو وہ کھری کھری سناتیں کہ ہم کو دم دبانی ہی پڑتی تو ہم نے سوچا کہ پہلے ہی دم دبا لی جائے، اب ہم نے قرنطینہ ہونے کا انتظام مکمل کیا اور مکمل طور پہ گوشہ نشین ہو گئے اور دل میں خوشی کے شادیانے بجانے لگے کہ کم از کم ان لوگوں سے پندرہ دن تو جان چھوٹے گی مگر وائے حسرت یہ ہو نہ سکا۔

اگلی صبح سات بجے ہی ہماری بیگم صاحبہ بڑی دھونس کہ ساتھ ایک بیگ اٹھائے ہمارے قرنطینہ کے مقام یعنی ہمارے کمرے میں آن دھمکی ہم نے کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا تو انہوں نے ایک عدد لفافحہ ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیا جو کہ ایک عدد کووڈ کے ٹیسٹ کی رپورٹ تھی جو کہ ہماری بیگم صاحبہ کی تھی اور شومئی قسمت پازیٹو تھی اب جب ہم نے ان کی طرف دیکھا تو احساس ہوا کہ وہ بھی تیز بخار میں تپ رہیں تھیں لیکن وہ بھی ڈاکٹر سے ٹریٹمنٹ لے کر قرنطینہ ہونے آئیں تھیں خیر یہ تو ایک خوبصورت ساتھ تھا جو قدرت نے مہیا کر دیا تھا پندرہ دن تک صرف وہ اور میں سینے میں ارمان مچلنے لگے، اور ہم خواب سجانے لگے کہ ان دنوں ہم ان سے وہ تمام باتیں کر ڈالیں گے جو ہم نے وقت کی کمی کے باعث کئی سالوں سے نہیں کیں اور ان تمام وعدوں اور قسموں کو دوبارہ سے زندہ کریں گے، مگر ہمارے خواب اور حقیقت کا روپ دھار لیں!

ابھی ہم اپنی بیگم صاحبہ سے دل کی بات کر بھی نہ پائے تھے کہ ہمارے کمرے کے دروازے کے سامنے والے کمرے سے ہماری والدہ محترمہ کی آواز سنائی دی کے واہ واہ میاں صاحب یہاں اکیلے رہتے ہیں بیگم صاحبہ میرے پاس میرے گھر میں رہتی ہیں لیکن ایک ساتھ کووڈ کیا یہ صرف ہمیں بیوقوف تو نہیں بنایا جا رہا ہے سامنے کی جانب سے ایک ساتھ کئیں آوازیں ان کی تائید کرتی سنائی دیں تو معلوم ہوا کہ تمام کے تمام اہل خانہ سامنے کے کمرے میں موجود ہیں۔ خیر ہم بھی کہاں ہاتھ آنے والے تھے ہم نے بھی ادائے دلبرانہ سے کہا کہ یہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے آپ کو کیا مسئلہ ہے مگر وہ بھی ہماری ہی والدہ ہیں انہوں نے فوری ارشاد فرمایا ہم بھی پندرہ دن تک آپ کے سامنے بمع لاؤ لشکر موجود ہیں اور آپ کی ذاتیات کی تو ایسی کی تیسی اور سب سے زیادہ زور دار قہقہ اپنے چھوٹے بھائی صاحب کا سن کر حیران ہوئے کیونکہ وہ تو حیدرآباد میں رہتا ہے اور وہیں ایک آئل مل میں بطورِ پلانٹ انجینئر ملازمت کرتا ہے میں نے حیرت سے استفسار کیا اور جان بوجھ کر لہجے کو کڑکدار بناتے ہوئے پوچھا فراز صاحب آپ کس مد میں حاضر ہیں تو ہمارے لہجے کی گھن گرج سے ان کی کچھ دیر کے لئے سٹی گم ہوئی اور ہوں ہاں کی آوازیں نکالتے ہوئے صدمے سے باہر آنے کی کوشش کرتے ہوئے انتہائی باریک آوااز میں گویا ہوئے کہ وہ میں نے سوچا کہ پینے کے پانی کا مسئلہ ہو گا وہ کون لائے گا اس لئے چھٹی لے کر آ گیا، ہم نے غصے سے چیختے ہوئے جواب دیا کہ وہ روزانہ خود پہنچا کر جاتے ہیں آپ کی ہر گز ضرورت نہیں شاباش واپس جائیں مگر اب وہ جان چکا تھا کہ ہم فقط الفاط کی گولہ باری تک محدود ہو چکے ہیں اس لئے بہت اطمینان بھرے لہجے میں گویا ہوا اب تو چھٹی لے لی ہے پندرہ دن بعد ہی جاؤں گا اب اور اس پر بچہ پارٹی کا یاہو کا نعرہ اگلے پندرہ دنوں کا احوال بیان کرنے کے لئے کافی تھا، تو جناب ان اگلے پندرہ دنوں تک چاچا اور بھتیجے لگاتار باہر گھوم پھر کر پکنک مناتے رہے کبھی برنس روڈ اور حسین آباد کے ناشتے تو کبھی میٹرو اور شنواری کے ڈنرز کیونکہ روک ٹوک کرنے والے دونوں کی پہنچ ان سے دور تھی مگر ایک بات تھی کہ ہمارے لئے پارسل کا خاص انتطام ہر بار ہوتا تھا، اور پندرھویں دن سے پہلے ہی بھائی صاحب حفظ ماتقدم کی راہ اپناتے ہوئے حیدرآباد فرار ہو گئے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔

اس دورانیہ میں جو سب سے اچھا احساس ہوا وہ میری چھوٹی بہن اور میری بھابھی نے دیا ان پندرہ دنوں تک انتہائی خلوص کے ساتھ دونوں اپنے خاندانی فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ جس تندہی سے ہماری خدمت کرتے رہے وہ واقعی میرے لئے بہت قیمتی ہے خاص کر جب انفیکشن کے ابتدائی دن تھے اور دس دنوں تک ہم بہت زیادہ تکلیف میں تھے تب ان دونوں نے ہمیں ہاتھوں کا چھالہ بنا کر رکھا، لیکن میرے تمام کے تمام خاندان کے لوگوں میں اپنی اہمیت کا اور ان کی خود سے محبت کا احساس ہوا کہ سن کے سب اپنے تمام کام چھوڑ کر اس وقت میرے ساتھ آ کر کھڑے تھے اس بات کے لئے میں اپنے رب کا شکر گذار ہوں اور اپنے گھر والوں کا بھی-

اور ایک بات جو میں اپنی بیگم صاحبہ سے کرنا چاہتا ہوں کہ واقعی آپ نے ساتھ کو نبھایا ہے ایک دن بھی تکلیف اکیلے اٹھانے نہیں دی ہمیشہ کی طرح پھر میرے ساتھ کھڑی تھیں جب کہ یہ تو ایک قدرتی آفت تھی لیکن اس میں بھی حیران کن طور پہ آپ کا کووڈ پاسیٹو ہونا اور ایک ہی دن ہونا میں حیران ضرور ہوتا اگر میں آپ کے اور اپنے تعلق کو نہ جانتا۔
 

Sheeraz Khan
About the Author: Sheeraz Khan Read More Articles by Sheeraz Khan: 19 Articles with 23288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.