ذوالفقار بخاری کے سفر بہاولپور کا احوال

گذشتہ دنوں ادب اطفال لکھاری بھائی ذوالفقار بخاری نے اپنے بہاولپور کے ہنگامی سفر کا احوال لکھا۔۔۔۔مگر مجھ سمیت اکثر دوستوں کو وہ نامکمل سا لگا۔۔۔اب میں خود کو ذوالفقار بخاری سمجھتے ہوئے ایک غائبانہ احوال لکھ رہاہوں۔۔۔امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔

ہم بعد از عصر دفتر میں سکون سے بیٹھے تھے کہ ایک ہنگامی صورت حال کی وجہ سے ۔۔بس یہی کوئی چھ سو کلومیٹر دور بہاولپور کا رخ کرنا پڑا۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ بہاولپور ہمارا آبائی شہر ہے جبکہ ہم بسلسلہ روزگار پنڈی میں مقیم ہیں ۔۔اب یہ ہنگامی صورتحال کیا ہوسکتی ہے یہ ہم بتا نہیں سکتے۔۔۔بس یوں سمجھیے کہ بیگم کی پیدا شدہ ہنگامی حالت کے علاوہ بھی کچھ دیگر صورت حال ہنگامی ہونے کا درجہ رکھتی ہیں۔( یہ بیگم کی ہنگامی حالت ہی ہوتی ہے کہ بندے کو اسلام آباد کی جنوری کی کڑکڑاتی ٹھنڈ میں برستی بارش میں موٹر سائکل پر سوار ہوکر جی الیون سے جی نائن مرکز تک سموسے لینے آنا پڑ جائے۔)

بہر حال کسی وجہ سے فی الفور یعنی جوں کا توں ہمیں خود کو بہاولپور کا مسافر ٹہرانا پڑا۔۔پنڈی سے ایک اچھی شہرت والی بس سروس پر سوار ہوئے ۔بس کی خاتون میزبان حسب معمول کم عمر اور انتہائی تشویش ناک حد تک کمزور لیکن پرکشش خاتون تھیں۔( پی آئی اے والے کچھ تو شرم کریں۔ایئر ہوسٹس بھی بالکل ویسی ہی رکھی ہیں جیسی ہم گھر پر چھوڑ کر آتے ہیں۔اب بندہ تیس پچیس ہزار بھی خرچ کرکے گھر جیسی ہی شکل وصورت، ہیت اور اطوار والی ہی ایئر ہوسٹس ہی دیکھے تو سمجھئے کہ پی آئی اے سے سفر کرنا دراصل انگلش والا سفر (suffer) ہے۔) خیر ابھی تو ہم بس میں ہی تھے ویسے تو شادی شدہ بندہ کبھی اپنے بس میں نہیں ہوتا ۔وہ ہمیشہ ہی بے بس ہوتا ہے ۔اس کا بس کبھی نہیں چلتا چاہے ہماری طرح بس کے اندر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔۔اب لگے ہاتھوں اپنی خواتین کا یہ مسئلہ بھی بیان کردیں کہ خوبصورت اور حسین دکھنے کے لیے دبلا اور کمزور ہونا کیوں ضروری ہے۔۔کیا انہیں ہماری پنجابی فلموں کی ہیروئن نظر نہیں آتیں جن کی کمر۔۔کمرے کے ہی زمرے میں گنی جاتی ہیں۔۔۔دو من کی انجمن کو بھول گئے کیا ؟

کچھ سفر طے ہوا تو ہماری قوم کی اخلاقی حالت جتنے بڑے کاغذی گلاس میں کچھ قطرے پیپسی کولا کے اور دو بسکٹ پر مشتمل فیملی پیک سے لطف اندوز ہو کر ہم نے میزبان کی مہمان نوازی کے قصیدے پڑھے ( اب قصیدے مہمان نوازی کے تھے یا۔۔۔یہ ہم کیوں بتائیں) ۔

بس میں ہمارے علاوہ بھی بہت شرفا موجود تھے۔چند ایک کو چھوڑ کر سب کی شرافت کا عملی ثبوت یہ تھا کہ اکثر ہی ہماری قوم کےشعار کے عین مطابق آگے بیٹھی ہوئی ایک روح کو تڑپاتی اور قلب کو گرماتی تنہا مسافرہ کو مسلسل دیکھ رہے تھے۔جو بس میں سب سے آگے دروازے کے سامنے والی نشست پر تشریف فرما تھیں۔موصوفہ نے اپنے زہد شکن سراپے کو حتی الامکان کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے بہت تنگ پوشاک میں مقید کیا ہوا تھا کہ یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ پوشاک انہوں نے سلائی کروا کر زیب تن کی ہے یا پہن کر سلوائی ہے۔دوپٹے وغیرہ کا تکلف بھی بس اتنا ہی تھا کہ جتنا ہماری نیوز اینکرز کا ہوتا ہے۔ان کا وہی معاملہ تھا کہ "صاف چھپتے بھی سامنے آتے بھی نہیں۔۔۔ " اب جو جہاں بیٹھا تھا ۔اسے وہاں سے مسافرہ کا جو بھی اور جتنا بھی حصہ میئسر ہورہا تھا ۔وہ اتنی ہی اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر رہا تھا۔اور جوجو حصے نظر نہیں آرہے تھے۔وہ بھی سب اپنے اپنے وجدان اور تخیل سےکام لیکر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ہم اپنے متعلق کیا بتائیں۔۔۔بس یہ بتا دیتے ہیں کہ ہم بھی بینا ہیں۔اندھے تھوڑی ہیں کوئی۔۔۔

بہاولپور پہچنے سے قبل ہی احمد شیر خان سے ملاقات طے ہوگئی تھی۔وہ ایک خاص محکمے میں ملازم ہیں ۔ہمیں تو یہ خاص والی اصطلاح سمجھ نہیں آئی۔۔۔ہر سرکاری محکمہ خاص ہی ہوتا ہے جس میں ہر خاص و عام کو کار خاص انجام دینے کے لیے خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔(ذوالفقار بھائی نے دانیال چغتائی اور رانا رفاقت نامی دو اشخاص کا بھی ذکر کیا ہے مگر یہ ہمارے لیے اجنبی ہیں۔اس لیے ان کے متعلق کچھ لکھنے سے قاصر ہیں۔پھر اپنے قلم کو دیکھتے اس لیے بھی کچھ نہں لکھ رہے کہ کوئی گستاخی نہ ہوجائے)۔

احمد شیر خان بچوں کے بہت اچھے ادیب ہیں۔وہ ایک بہت خوش نصیب آدمی ہیں کہ ان کی بیگم انہیں شیر کہ کر مخاطب کرتی ہیں ( یہ الگ بات ہے کہ سمجھتی وہ اس کے مترادف ہوں)۔ویسے آپس کی بات ہے کہ شوہر صاحبان کا نام اگر شیر بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔حیثیت ان کی شیر کی خالہ جیسی ہوتی ہے جو بھیگی ہوئی بھی ہو۔

احمد بھائی سے بہت اچھی گفتگو رہی ۔اکمل معروف اور دیگر دوستوں کا ذکر خیر بھی ہوا(غیبت بالکل بھی نہیں۔۔۔اللہ کا پکا وعدہ)۔ادب اطفال کے فروغ کے لیے تجاویز کا بھی تبادلہ ہوا۔اسکے بعد طعام کا سلسلہ رہا( ذوالفقار بھائی نے اسے لذیذ ترین قرار دیا ہے۔۔۔مگر ہم سنی سنائی پر یقین نہیں رکھتے مگر حق الیقین پر کامل یقین ہے ہمارا۔۔احمد شیر بھائی۔۔۔ یہ یقین آپ نے دلوانا ہے ضرور ۔)۔۔پھر کچھ اور وقت گزر گیا ۔گرم موسم میں گرم چائے نے یہ یاد دلایا کہ ہمیں کوئی ہنگامی حالت درپیش ہے ۔جس کے پیش نظر ہم بہاولپور بجھوائے گئے ہیں۔ہم نے احمد شیر خان سے رخصت چاہی اور مشن امپاسبل کے لیے گھر روانہ ہوگئے۔

( ذوالفقار بھائی نے ہنگامی حالت کی وجہ بیان نہیں کی ہے۔۔۔۔اللہ کرے کہ وہ کوئی ٹھوس وجہ ہی ہو۔۔۔ایسا نہ ہو کہ خاتون نے پڑوس میں ہونے والے میلاد کے لیے میچنگ کی جیولری جو قریب ہی واقع صرف چھ سو کلو میٹر دور بہاولپور میں رکھی ہو ۔۔۔منگوائی ہو۔۔۔خواتین کی ایمرجینسی ایسی ہی ہوتی ہے میرے سجنو۔۔۔اللہ پاک سب کو "سکون" عطا فرمائے۔آمین۔ )
 

Arif Majeed Arif
About the Author: Arif Majeed Arif Read More Articles by Arif Majeed Arif: 8 Articles with 5828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.