ایسے مجموعہ کلام کم نظر سے
گزرتے ہیں جن میں پیغام امید بھی ہو،وحدانیت کی تلاش کا درس بھی ہو،رومانیت
بھی ہو،شکوہ بھی ہو،جدائی کی کسک بھی ہواور جذبہ حب الوطنی بھی ہو ،ایسا ہی
ایک مجموعہ کلام میری نظر سے گزرا جس کتاب کا نام ”فغان خرد“یعنی عقل کی
فریاد ہے کتاب کا عنوان بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور انسان سوچ
کے دریچوں میں گم ہو کر عقل سے فریاد کے متعلق پوچھتا ہے جس کے بارے ’فغان
خرد ‘میں ہے
فغان خرد صد گذارش کناں است <===>مقام خودی درد عشق حقیقت
بصد شوق جاں مبتلائے پرستش <===> حضورِ بُتاں حیف پیر طریقت
عابد رضا شاہین کی شاعری فکر انگیز بھی ہے اس میں نصیحت کا پہلو بھی ہے
جیسا کہ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں
تاروں پہ کمندیں ہوں کہ چاند بھی ہو تسخیر
پاتال سے افلاک کی جانب کو اٹھا سوچ
اس خوبصورت مجموعہ کلام میں داغ مفارقت کا ذکر بہت اچھے انداز میں کیا گیا
اور موجودہ حالات کی بے ثباتی کو خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے جو قاری کو
حقیقت کی دنیا میں لے جاتی ہے جیسا کہ وہ لکھتے ہیں
گلشن دل میں خشک سالی ہے <===>یار لوگوں کا ظرف خالی ہے
تم مجھے یہ بتاﺅ اے یارو <===> کیوں کدورت دلوں میں پالی ہے
غیر تو غیر ہیں مگر اب تو <===> چال اپنوں کی بھی نرالی ہے
’فغان خرد ‘ میں مصنف کی الفاظ پر کافی گرفت ہے نپے تلے الفاظ قاری کو اپنے
سحر میں جکڑ لیتے ہیں ان کی شاعری میں رومانیت کا پہلوبھی نمایاں ہے جیسے
وہ محبوب کی آنکھوں پر لکھتے ہوئے کہتے ہیں
غزل آنکھیں ،گلاب آنکھیں <===> ہیں میکدہ سی شراب آنکھیں
فقط حیا میں ہی ڈوب جائے <===> جو دیکھ لے ماہ تاب آنکھیں
ہر انسان کے اندر قدرت نے کچھ صلاحیتیں رکھی ہوتی ہیں جنہیں بروئے کار لا
کرانسان زندگی کے سفر کے زینے کامیابی سے طے کرتا ہے جہاں تک عابد رضا
شاہین کی شاعری کی بات ہے تو یہ وصف اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع ہی انہیں
عطا ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے اپنا پہلا شعر زمانہ طالبعلمی میں ہی کہہ
دیا تھا جب وہ نویں کلاس کے طالبعلم تھے ان کی شاعری میں کافی گہرائی ہے جو
قاری کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے جیسے کہ
کون تھے ہم ،کیا ہوئے ہیں اس کو تنہائی میں سوچ
کیا ہوئی وہ شان و شوکت جا کہ گہرائی میں سوچ
پیار کے مفہوم سے بے بہرہ ہیں لوگ
جیسے ہو خوشبوئے گل کی ایک صحرائی میں سوچ
عابد رضا شاہین پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور موجودہ حالات پر کڑی نظر
رکھتے ہیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں
اے انسان کیا تیرے انسان ہوئے جاتے ہیں
شرف مخلوق تھے حیوان ہوئے جاتے ہیں
اک اک پائی کے محتاج مسلسل اب تو
کیوں یہ مزدور ،یہ دہقان ہوئے جاتے ہیں
اور ایک جگہ وہ لکھتے ہیں
نہ منزلیں ،نہ مسافر،نہ راستے محفوظ <===> پہنچ سکیں گے کبھی بھی نہ قافلے
محفوظ
یہ جھونپڑی کو ترستی غریب کی اولاد <===> وہ کوٹھیوں میں ہیں بچے نوابوں کے
محفوظ
اس خوبصورت مجموعہ کلام کو فکشن ہاﺅس نے پبلش کیا ہے شاعرنے اپنی اس کتاب
’فغان خرد‘ کا انتساب ساکنان خلد بریں اپنے استاد محترم حضرت غضنفر روہت
کی،والدہ محترمہ اور برادر فہیم شہید کے نام کیا ہے۔ |