مسجدحرام اورمسجدنبوی کے بعدتاریخ اسلامی کاتیسرامقدس
ترین مقام اورعظیم ترین نشانی مسجداقصیٰ ہے،جسے ہم بیت المقدس بھی کہتے
ہیں۔( یہ وضاحت ضروری ہے کہ بیت المقدس ایک بہت بڑے احاطے کانام ہے جس کے
اندرکئی مقامات مقدسہ ہیں انہی میں ایک مسجداقصیٰ ہے۔میڈیاکے ذریعے ہم لوگ
جو تصو یر دیکھتے ہیں وہ دراصل ایک مقدس مقام قبۃ الصخریٰ کی ہے) اس کی
قدامت قریب قریب اتنی ہی ہے جتنی کہ مسجدحرام کی۔ دونوں کے بانی ایک ہی نبی
ہیں ،دونوں کی تعمیرجدیدبھی انبیانے کی ،دونوں ہی کے صحن میں نبیوں نے
نمازیں ادا فرمائیں ،دونوں ہی مساجد کوقبلہ بننے کاشرف حاصل ہے،مسجداقصیٰ
قبلہ اول ہے اور مسجد حرام موجودہ قبلہ۔اس خصوص میں مسجد اقصیٰ کوایک اضافی
خصوصیت بھی حاصل ہے جومسجدحرام کو حاصل نہیں کہ یہاں سے۲۷ویں رجب کی شب میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب العٰلمین سے ملاقات کے لیے آسمانی
سفرپرتشریف لے گئے اور یہیں تمام انبیا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
امامت میں ایک ساتھ نمازادا فرمائی ۔ مسجد حرام کے تعلق سے کم ازکم ہمیں
توایسی کوئی روایت نہیں ملی جس میں تمام انبیا کا جلسہ ہواہواوراس میں
ہمارےپیار ے آقاصلی اللہ علیہ وسلم مہمان خصوصی ہوں۔یہ شرف صرف اورصرف
مسجد اقصیٰ کے پاس ہے ۔
اسی لیے ہم مسلمان جس طرح مسجدنبوی اورمسجدحرام سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں
اسی طرح مسجداقصیٰ بھی ہماری گہری عقیدتو ں کا مرکز ومنبع ہےمگرگزشتہ کئی
دہائیوں سے ہم نے مسجد اقصیٰ کے ساتھ جو سلوک روا رکھاہے اس نے ہماری
عقیدت،ہماری وراثت،ہماری روایت اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارےعشق
ومحبت کی نوعیت پرکئی ہولناک قسم کے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ان میں ایک اہم
ترین اور بنیادی سوال یہ ہے کہ آخرکیاوجہ ہے کہ ہم مسجدحرام اورمسجدنبوی
کے سفر کے لیے تواپنے دل میں زبردست تڑپ رکھتے ہیں اورایک ایک پیسہ جوڑ کر
سفرحج کو جاتے ہیں مگروہ تڑپ،وہ جذبہ،وہ جنون،وہ شوق،وہ اظہاروابستگی اور
وہ حوصلہ مسجداقصیٰ کے لیےنہیں جٹا پاتے ۔ حالاں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ثواب اورعبادت کی نیت سے جن تین مساجدکی طرف سفر کرنے کاحکم
فرمایاہے وہ یہی تینوں مساجد ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے
ہیں:
لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ
الحَرَامِ وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَمَسْجِدِ الأَقْصَىٰ
(صحیح بخاری:حدیث نمبر۱۱۸۹)
یعنی( ثواب کی نیت سے)صرف تین مسجدوں کاہی سفر کرو: مسجد حرام،نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی مسجد یعنی مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔
یہ مبارک مسجد،عظمت واحترام اورفضیلت کے اعتبارسے مسجد حرام اورمسجدنبوی کے
قریب قریب ہم پلہ ہےیایوں کہیے کہ دوسرے درجے کی ہے۔مختلف احادیث مبارکہ
میں مختلف طرق سے اس کے بے شمارفضائل بیان ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں
نمازپڑھنے کا کیا انعام ملتاہے ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی
سنیے:
صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ
الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ
الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي
الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي
مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ (سنن ابن ماجہ:حدیث نمبر۱۴۱۳)
ترجمہ:(ثواب کے اعتبارسے)آدمی کی نمازاپنے گھرمیں ایک نمازکے برابرہے،، اس
کی نمازمحلے کی مسجد میں پچیس نمازوں کے برابرہے، اس کی نماز جامع مسجد میں
پانچ سو نمازوں کے برابر ہے، اس کی نماز مسجد اقصیٰ میں پچاس ہزار نمازوں
کے برابر ہے، اس کی نماز میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں پچاس ہزار نمازوں
کے برابر ہے اور اس کی نماز مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔
اس حدیث میں بتایاگیاکہ مسجداقصیٰ اورمسجدنبوی میں نماز پڑھنے کاایک ہی
ثواب ہے یعنی پچاس ہزارنمازیں پڑھنے کا ثواب ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
سے جونسبت مسجدنبوی کوہے تقریباً وہی نسبت مسجداقصیٰ کوبھی ہے۔فرق صرف یہ
ہے کہ مسجدنبوی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن پاک مدینہ منورہ میں
ان کی مبارک رہائش گاہ کے بالکل پڑوس میں ہےجب کہ مسجداقصیٰ(بذریعہ سڑک)
۱۳؍ گھنٹے۴۲منٹ کی مسافت پر ۹۱۹کلو میٹر دور واقع ہے۔توپھرایک نسبت کے ساتھ
اتناجوش وخروش اوردوسری کے ساتھ اتنی سردمہری کیوں ہے؟
مسجداقصیٰ کی عظمت پر قرآن کریم گویاہے :
سُبْحانَ الَّذِي أَسْرىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ
إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بارَكْناحَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ
آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ(سورۃ الاسراء:آیت نمبر۱)
ترجمہ:پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک
لے گئی، جس کے اردگردہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں
دکھائیں۔ یقیناًوہ ذات ہربات سننے اور دیکھنے والی ہے۔
یہاں تین چیزیں بطورخاص سمجھنے کی ہیں:
(۱)مسجداقصیٰ کواللہ عزوجل نے آیات کے زمرے میں شامل کرکےاسے اپنی نشانی
قراردیا۔
(۲)حَوْلَهُسےیہ اشارہ کیاگیا کہ جب مسجداقصیٰ کے اردگرد برکا ت رکھی گئی
ہوں،اس کے اطراف و جوانب ،اس کے مضافات ، اس کی فضائوں اور اس کے ماحول
کوبرکات سے مزین کیا گیا ہوحتیٰ کہ اس پوری سرزمین کی نہروں، درختوں، پھلوں
اور پھولوں کو بھی برکات کی چادرسے ڈھانک دیاگیاہو توپھرعین مسجداقصیٰ
یااندرون مسجد کی برکات کا کیا کہنا ۔ظاہرہےجس جگہ امام الانبیاء صلی اللہ
علیہ وسلم نے امامت فرمائی ہو،تمام انبیاے کرام نے ان کی اقتدا میں نماز
ادا کی ہواوراسی جگہ سے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم خداسے ملاقات کی
خاطرمعراج کے لیے تشریف لے گئے ہوں اس جگہ کی برکتوں اور عظمتوں کا تصوربھی
ہمارے آپ کے ذہن سے پرے ہے۔
(۳)یہ آیت حضورصلی اللہ وسلم کی عظمت وشان کی مظہر بھی ہے۔مسجداقصیٰ
سفرمعراج کی شب میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی منزل تھی ۔یہاں وہ کچھ
دیررکے پھر آسمانی سفرپرتشریف لے گئے چنانچہ اللہ عزوجل نے حضورصلی اللہ
علیہ وسلم کے قدم پاک کی برکت سے مسجداقصیٰ کے اس پورے ماحول اور علاقے
کوہی ہمیشہ کے لیے پرنوربنادیا،اس کی فضائوں کو برکتوں سےمعمورکر دیااوراس
پیغام کو قیامت تک کے لیے محفوظ بھی کردیا۔واقعی پوراقرآن میرے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی نعت ہے۔
یہاں سوال ہم جیسے نکموں سےہے جوقدم قدم پراپنے نبی سے محبت کادم بھرتے
ہیں،ہم جیسے بدعمل ’’عاشقان رسول‘‘سے ہے جو گستاخان رسول کے سرکوتن سے
جداکرنے کے لیے مظاہرے کرتے ہیں،دھرنے دیتے ہیں،سڑکیں بلاک کردیتے
ہیں،اخباری بیان بازیاں کرتے ہیں، اسٹیجوں سے تقریریں کرتے ہیں اورجوحضرات
گستاخ رسول کے قتل کے حق میں نہ ہوں،ان کے مسلمان ہونے میں بھی شک کرتے ہیں
اورانہیں ان کی مسلمانیت پرعاردلاتے ہیں۔افسوس ہمیں’’دینی مظاہرے‘‘تویادرہے
مگرمسجداقصیٰ کی طرف ترغیب دلانے والی اپنے نبی کی مبارک احادیث یادنہیں
رہیں،نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پاک کی وہ نسبت یادنہیں رہی جوبیت
المقدس کی عظمت پرنص اترنے کی موجب بنی اورہمیں خداکی وہ آیت(نشانی)
یادنہیں رہی جو قیامت تک کے لیے ہماری عظیم میراث ہے۔جوکام ہمارے بس میں ہے
اسے حکمت و مصلحت کی کھونٹی پر ٹانگ دیااورجوکام ہمارے بس کانہیں ا س کے
لیے آسمان سر پر اٹھالیا ۔واہ واہ کیاکہنے ہمارے ’’عشق نبی ‘‘کے۔اس مقدس
مسجدکوظالم یہودیوں کے پنجے سے چھڑاناتوبہت دورکی بات ہے ہم نےوہاں کا سفر
بھی ترک کردیااورستم یہ ہواکہ اسے اپنی حکمت اورمصلحت سے تعبیر کیا ۔
اناللہ واناالیہ راجعون۔
اس مسجدکی عظمت وبرکت کاایک اورنشان دیکھیےاورسوچیے کہ آخر ہم نے کیوں
خودکواس کی زیارت کے ثواب سے محروم کررکھا ہے ۔
حضرت ابوذرغِفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں:
سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوَّلِ
مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قُلْتُ:
ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟
قَالَ: أَرْبَعُونَ عَامًا ثُمَّ الْأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ فَحَيْثُمَا
أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ
(صحیح مسلم:حدیث نمبر۵۲۰)
ترجمہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےروے زمین پر سب سے پہلے تعمیر
کی جانے والی مسجد کے حوالے سے سوال کیا۔ آپ نے فرمایا:مسجد حرام۔ میں نے
سوال کیا: پھر کون سی مسجد؟ آپ نے فرمایا : مسجد اقصیٰ۔ میں نے سوال کیا:
ان دونوں کی تعمیر کے دوران کتنا وقفہ ہے؟ آپ نے فرمایا:چالیس سال۔پھر
پوری زمین تمہارے لیے مسجد ہے ، جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے، نماز
پڑھ لو۔
اس حدیث سے سمجھ میں آیا کہ دنیامیں اللہ کی وحدانیت کااعلان کرنے والی سب
سے پہلی مسجد،مسجدحرام ہے،پھراس کے بعد مسجد اقصیٰ اور دونوں کی تعمیرمیں
چالیس سال کاوقفہ ہے۔
مسجدحرام کی بنیادحضرت آدم علیہ السلام نے رکھی اور مسجد اقصیٰ کے بانی
بھی حضرت آدم ہی ہیں۔البتہ مسجدحرام بلکہ یوں کہہ لیں کہ کعبہ مقدسہ کی
تعمیرجدیدحضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی اور مسجد اقصیٰ کی تعمیرتجدیدحضرت
یعقوب علیہ السلام یاحضرت داؤد علیہ السلام نے کی لیکن اس کی تکمیل
کافریضہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے انجام کوپہنچا۔بیت المقدس کی یہ
سرزمین انبیاے بنی اسرائیل کامسکن رہی ہےجن میں حضرت دائود،حضرت یعقوب،حضرت
سلیمان، حضرت زکریا،حضرت یحییٰ،حضرت اسحٰق،حضرت ابراہیم علیہم السلام کے
اسماے گرامی تاریخ نے محفوظ کردیے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلا م نے اسی
سرزمین سے اپنی مقدس دعوت کاآغازفرمایا،یہ سرزمین نہ جانے کتنے انبیاے
کرام کامدفن ہے۔یہ مہبط ملائکہ ہے، یہاں وحی نازل ہوئی ہےاوریہی وہ سرزمین
ہے جہاں قیامت قائم ہوگی اور جہاں شروع سے اخیرتک کےسارے انسان جمع ہوں گے۔
مسلمانوں کی یہ مقدس میراث حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدسے
ہی مسلمانوں کے پاس رہی ۔۱۴؍ہجری میں حضرت عمر فاروق اعظم کے زمانے میں بیت
المقدس فتح ہوا ، ۴۸۹ برسوں تک یہ مسلمانوں کے پاس رہاپھر۴۹۳ھ میں پہلی
صلیبی جنگ ہوئی اوریہ صلیبیوں کے ہاتھ میں چلا گیا، حضرت صلاح الدین ایوبی
نے نوے سال کےبعد۵۸۳ھ میں بیت المقدس فتح کیااوریہ ۱۹۴۷تک مسلمانوں کے پاس
رہا مگر۱۴مئی ۱۹۴۸کوباقاعدہ طور پر فلسطین کی ہی پچپن فیصد جگہ پر
ناجائزقبضہ کرکے ایک آزادملک اسرائیل کااعلان کر دیا گیا ۔ ان ۹۰ سالو ں
کے علاوہ عہدفاروقی سے ۱۹۴۸تک بیت المقد س ہمارے ہی پاس تھا ۔ اِدھر ۷۲۔
۷۳سا لو ں سےغاصب یہودی اس پر قابض ہیں مگر آج بھی مسجد اقصی اس کا انتظام
وانصرام اردن کی ’’وزارت ِاوقاف اور شئونِ مقدّساتِ اسلامیہ‘‘ کے تحت ہے۔
مسجداقصیٰ مسلمانوں کاوہ عظیم ترین سرمایہ ہے جس کے لیے مسلمانوں نے بے
شمارجانوں کانذرانہ پیش کیاہے،جس کے لیے ترکی کی ساڑھے چھ سوسالہ عثمانی
سلطنت کے حصےبخرے کردیے گئے اور جس کی وجہ سے آج بھی فلسطینی مسلمان
شہیدکیے جارہے ہیں ۔ اسرائیل اورفلسطین کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں
اورجھڑپیں تو روز کامعمول ہیں جس میں زیادہ ترنقصان فلسطینیوں کاہی ہوتا ہے
مگر دنیا کاکوئی بھی ملک عملی طورپران مظلوم فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں
کررہا۔ ظاہرہے جب ہم ہی اپنے لیے کچھ نہیں کریں گے تو دوسرا کیوں ہماری
مددکرے گا ۔ہم جب خودہی اپنی اس مقدس امانت کو فراموش کیے بیٹھے ہیں
تودوسراکیوں ہمارے لیے لڑے گا ۔ ہرانسان کو اپنے حق کی لڑائی خودلڑنی پڑتی
ہےمگر ہم مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ خودتوکچھ کرتے نہیں مگرصرف مظاہرے
کرکےاپنی اپنی حکومتوں سے توقع کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ ذرا سوچیےکہ ہم حج پرحج
کرتے ہیں اور عمر ے پہ عمرے۔نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو درجن بھرسے زیادہ عمرہ
کرچکے ہیں۔ ہر سال رمضان المبارک میں عمرہ کو حاضرہوتے ہیں مگر آخر کیو ں
مسجداقصیٰ کا سفر ہماری ترجیحات میں نہیں ہوتا؟بے شمارفضائل و برکات اپنے
اندرسمیٹے ہوئے اس مقام کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟
اگرہم مسجداقصیٰ کاسفرکریں توایک طرف ہم مذکورہ حدیث نبوی پرعمل کریں
گےاوروہاں کی برکات سے اپنے دامن بھریں گے تو دوسری طرف اپنے ان فلسطینی
بھائیوں کی حوصلہ افزائی کاسبب بھی بنیں گے جو سترسالوں سے لگاتاراسرائیلی
بربریت کاشکار ہیں اور نہتھے ہونے کے باوجوداسرائیل کےجدیدترین ہتھیاروں
کےسامنے سینہ سپرہیں۔ ہمار ے فلسطینی بھائی دنیا بھر کے مسلمانوں کوپکاررہے
ہیں،انہیں بھولاہواسبق یاددلارہے ہیں مگر ہم سب نے اپنے کانوں میں تیل ڈال
رکھاہے۔ ۵۶؍مسلم ممالک کے باوجودہماری آواز کمزورہے۔سترسالوں سے لگاتار
اسرائیل کا حجم بڑھتاجارہاہے اور فلسطین کارقبہ سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ یہ
سراسر ظلم ہے مگرپوری دنیااس بدترین ظلم پرخاموش ہے۔ہرسال ماہ رمضان
المبارک میں اسرائیلی فوجیوں کے پیٹ میں درد شروع ہوجاتا ہےاوروہ فلسطینیوں
پر اچانک حملے شروع کردیتا ہے لیکن امسال تو حد ہی ہوگئی۔مسجداقصیٰ میں
نمازپڑھ ر ہے مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا گیا ،پوری مسجد کو یرغمال
بنالیاگیااوراس کے بعد۱۱؍ دنوں تک لگاتاریہ بدتمیزی کا طوفان جاری
رہا۔دنیاکے کئی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔۵۶؍مسلم ممالک کی تنظیم
اوآئی سی بھی صرف جلسہ کرتی ہے اورمذمتی قراردادپاس کرکے خاموش بیٹھ جاتی
ہے ۔ دراصل وہ اس کے سواکچھ کربھی نہیں سکتی کیوں کہ بیشترعرب ممالک کے
حکمراں ضمیرفروش ہیں،صرف ان کاظاہرمسلمان ہیں، اندرونی طور پر وہ انہی
کافروں جیسے ہیں جن کے لیے مفادات ہی سب سے عزیز ہوتے ہیں۔
بیت المقدس یہودیوں کے نزدیک ان کے مذہب کامقدس ترین مقام ہے ۔ان کے عقیدے
کے مطابق ان کاآخری مسیحایہیں آئے گا۔بیت المقدس کے علاوہ ان کے کئی
دیگرمقدس مقامات بھی یہیں آس پاس ہیں اس لیے وہ اس سرزمین کواپنی بپوتی
سمجھتے ہیں اوراس راہ میں آنے والی ساری رکاوٹوں کوختم کرنے کے لیے وہ کسی
بھی حدتک چلے جاتے ہیں ۔ہمارے عقیدے میں بھی بیت المقدس کامقام بہت عظیم ہے
مگرہم ٹھہرے نکمے ،ہم سے کچھ نہیں ہورہاہے۔ ہم نام کے مسلمان صرف جذباتی
ہیں اورزیادہ ترجذباتیت ،جہالت کا زائیدہ ہوتی ہے۔ توکیااس کامطلب یہ ہے کہ
ہم بحیثیت قوم جاہل ہیں؟ شاید اس کاجواب ہاں میں ہے۔
ہم اگرکچھ نہیں کرسکتے توفی الحال ہمیں ایک کام کسی بھی قیمت پر کرناہی
ہوگااوروہ ہے مسجداقصیٰ کازیادہ سے زیادہ سفر۔جیسے ہم مکہ مکرمہ اورمدینہ
منورہ حاضرہوتے ہیں اسی طرح یروشلم بھی جائیں۔ یہودیوں کامنصوبہ تھا کہ وہ
بیت المقدس پرقبضہ کرکے اس پر کنٹرول حاصل کرلیں اورمسلمانوں کے داخلے
پرپابندی عائد کردیں۔ وہ اپنے منصوبے میں پورے کے پورے کامیاب ہو رہے
ہیں،اب یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم انہیں ان کے منصوبوں میں کامیاب نہ ہونے
دیں اوربیت المقدس کی زیارت کے لیے شدرحال کریں تاکہ فلسطینی مسلمانوں کی
حوصلہ افزائی ہواورانہیں یہ احساس نہ ہوکہ وہ دنیامیں یکہ وتنہارہ گئے ہیں
۔بیت المقدس کی حفاظت صرف فلسطینی مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ہماری بھی ہے
۔ہم سے ہماری ذمے داری کے بارے میں پوچھاجائے گا۔اس باب میں ہمیں بوہرہ
فرقے کے لوگوں کی تعریف کرنی ہوگی کہ ان کے یہاں سال میں ایک مرتبہ بیت
المقدس کاسفرلازمی طورپرکیاجاتاہے ۔یہ ان کے عقیدے کاحصہ ہے مگرہم حالات کی
خرابی کابہانہ بناکرخوف اوربزدلی کا شکار ہو جاتے ہیں اوراسے حکمت ومصلحت
جیسے خوب صورت الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔اگربوہرہ حضرات مشکلات اورخوف کے
باوجودوہاں کا سفر کر سکتے ہیں توہم کیوں نہیں کرسکتے۔بوہریوں کے علاوہ بہت
سارے سیاح بھی شوقیہ طور پر یامذہبی جذبے کے ساتھ وہاں کاسفر کرتے ہیں ۔
دراصل جب شوق دامن گیرہوتوبڑی سی بڑی مشکلات بھی بکھرجاتی ہیں اور ہمارے
لیے توہماری عقیدت اورہماری میراث ہی سب سے بڑی حقیقت ہے اس لیے مشکلات
اورحالات کی ابتری کوئی معنی نہیں رکھتی۔اگرآج بھی مسلمان بیت المقدس کی
طرف متوجہ ہوجائیں تو ممکن ہے کہ ہم اسرائیلی مظالم بالکلیہ ختم نہ کرسکیں
لیکن شایدکم ضرور کر دیں۔اگرکچھ اور نہیں کرسکتے تویہی کریں اورقیامت کے دن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خود کو شرمسارہونے سے بچائیں۔
دوسرااہم کام یہ کرناہوگا کہ ہمیں بیت المقدس کامقدمہ اب مذہبی بنیادوں سے
زیادہ انسانی بنیادوں پرلڑناہوگا۔سات دہائیوں سے ہم اسے مذہب کے غلاف میں
دنیاکے سامنے پیش کرتے رہے اور اپناکیس کمزور کرتے رہے۔اس کانتیجہ ہمیشہ
الٹاہی نکلا، فلسطینیوں کاحال سے بد سے بدترہوتاگیااوراسرائیل کے منصوبے
کامیاب ہوتے گئےاس لیے اب تھوڑاسارخ بدل کردیکھتے ہیں۔ ارے بھئی!
دنیاکوہمارے مذہبی معاملات سے کیاغرض۔ہم اسے حقوق انسانی کا مقدمہ بناکرپیش
کریں توممکن ہے کہ دنیاکااجتماعی شعور ہمار ے ساتھ کھڑا ہوجائے۔اس کےساتھ
ساتھ ہمیں فلسطین واسرائیل قضیے کو گہرائی سے سمجھنےکی ضرورت ہے۔ہم
عموماًمذہبی معاملات میں جذبا ت کی خریدو فروخت کرتے ہیں ۔ ہمیں اپنی دوسری
آنکھ کی پٹی اتارکراس کامطالعہ کرنا چاہیےکہ کہیں یہ مذہبیات سے زیادہ
سیاسیات اور مفادات کا معاملہ تونہیں ہے۔ایک اورحقیقت کی طرف بھی توجہ
مرکوز رکھیےکہ اسرائیل اس وقت دنیاکاطاقت ورترین ملک ہے ،صرف سائبر سیکورٹی
میں دنیاکی پوری سرمایہ کاری کابیس فیصدحصہ اسرائیل کو جاتاہے ،اس اسرائیل
کوجس کی کل آبادی دنیاکی مجموعی آبادی کاایک فیصدبھی نہیں ہے۔یہ سرمایہ
کاری کس لیےہے ؟کیا اس لیے کہ دنیاکو فلسطین اور مسلمانوں سےعداوت
اوریہودیوں ا و ر اسرائیل سے محبت ہے ؟ نہیں،بلکہ اس لیے کہ وہ اس قابل
ہےاوراس نے دنیاکواپنے ساتھ تجارت کرنے پرمجبورکررکھاہے۔اس لیے ہمیں یہ
روناپیٹنابند کرنا ہوگاکہ پوری دنیافلسطینیوں اورمسلمانوں کے خلاف ہے۔
|