اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ کی توفیق ملنے اور نہ ملنے کے
اعتبار سے لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں :
ایک قسم تو ان لو گوں کی ہے جن کو زندگی بھر سچی توبہ کی تو فیق نہیں ملتی،
ان کی تمام عمر سنِ شعور سے لے کر موت تک پورا عرصہ گناہوں اور معصیت میں َصرف
ہو جا تا ہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں ان کو موت آجاتی ہیں،یہ بد بخت لوگوں
کی حالت ہے ۔
ان سے قبیح اور برے وہ لوگ ہیں جن کو ابتدا سے لے کر آخر تک تمام عمر نیک
اعمال کی توفیق ملتی رہی، پھر آخری وقت میں کسی برے عمل میں مبتلا کر دیے
گئے ،یہاں تک کہ وہ اسی برے عمل کو کرتے ہوئے مرگئے، جیسا کہ صحیح حدیث میں
آیا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ اہلِ جنت والے اعمال اختیار کرتے ہیں یہاں تک
کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے ،پھر اس پر
تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ جہنمی لو گوں والا کوئی عمل اختیار کرتا ہے، جس
کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔ (صحیح البخاری،کتاب الأنبیاء، باب
قول الله تعالیٰ:﴿وإذ قال ربک للملائکة إني جاعل في الأرض خلیفة﴾،رقم:3332،
صحیح مسلم، کتاب القدر، باب کیفیة خلق الآدمي في بطن أمہ․․․، رقم:6892، سنن
أبي داود، باب في القدر، رقم4710، سنن الترمذي، کتاب القدر، باب ما جاء أن
الأعمال بالخواتیم، رقم:2137، سنن ابن ماجہ، باب في القدر، رقم:76)
ایک تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنا کل متاع عزیز اور ساری زندگی غفلت و
دھوکے میں گزار دیتے ہیں، یہاں تک کہ پھر انہیں کسی عملِ صالح کی توفیق مل
جاتی ہے ا ور وہ اس پر انتقال کر جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو عمر بھر جہنمی
لوگوں والے اعمال کر تے رہے، یہاں تک کہ ان کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک
بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ اہلِ جنت جیسا
عمل اختیار کر کے جنت میں داخل ہو جاتے ہیں ۔(حوالہ سابق)
یہ بات تو واضح ہے کہ اعما ل کا دار و مدار خاتمہ پر ہے،اعتبار خیر یا شر
پر خاتمے کا ہے ،حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ
بھلائی کا معاملہ فرماتے ہیں تو اسے کسی نیک عمل کی توفیق عنایت فرمادیتے
ہیں، پھر اسی پر اس کی روح قبض کر لیتے ہیں ۔(سنن الترمذي، کتاب القدر،باب
ما جاء أن الله کتب کتاباً لأہل الجنة وأ ہل النار، رقم2142، صحیح ابن
حبان، کتاب البر والإحسان، باب ما جاء في الطاعات وثوابہا، رقم:341
،342،343 )
ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ اور پل پل اللہ کی
اطاعت و فرماں بر داری میں گزار تے ہیں، پھر موت سے پہلے ان کو متنبہ کیا
جاتا ہے کہ اب اللہ سے ملاقات کا وقت آ پہنچا ہے تو وہ اس ملاقات کی تیاری
میں لگ جاتے ہیں اور ایسا زادِ راہ و توشہ اختیار کرتے ہیں جو اس ملاقات کے
شایانِ شان ہو،یہ لوگوں کی سب سے بہترین اشرف و اعلیٰ قسم ہے، حضرت ابنِ
عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم پر ﴿إِذَا
جَاء نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ﴾(النصر:1) نازل ہوئی، جس میں رسول اللہ
صلی الله علیہ وسلم کو دنیا سے پردہ کرنے کے بارے میں اشارہ فرمایا گیا ہے
تو آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی تمام تر صلاحیتیں اور کوششیں آخرت میں کام
آنے والے اعمال میں صرف کرنے لگے (جیسا کہ نبوت ملنے کے بعد سے آپ صلی الله
علیہ وسلم کا معمول تھا )۔(الدر المنثور،سورة النصر:15/722،723، تفسیر ابن
کثیر:6/562)،حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله
علیہ وسلم حیات کے آخری لمحات میں اٹھتے ، بیٹھتے ، آتے جاتے ہر وقت ”سبحان
اللّٰہ وبحمدہ، أستغفر اللّٰہ وأتوب إلیہ“کہا کر تے تھے، میں نے آپ صلى
الله عليه وسلم سے اس کثرت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے
فرمایا : مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے ،پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے سور ہ
نصر تلاوت فرمائی۔ (تفسیر الثعلبي،النصر:10/321، تفسیر ابن کثیر،
النصر:5/564، تفسیر السراج المنیر،النصر:4/442،تفسیر القرطبی،
النصر:10/166، اللباب في علوم الکتاب، النصر: 20/542، 543)
آپ صلی الله علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ ہر سال رمضان میں دس دن
اعتکاف فرماتے اور حضرت جبرئیل کو ایک دفعہ قرآن مجید سناتے تھے ، وصال
والے سال بیس دن اعتکاف کیا اوردو دفعہ قرآن ِ پاک کا دور فرمایا اور آپ
صلی الله علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اب اللہ سے ملاقات کا وقت قریب ہے ،پھر
آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع ،آخری حج، ادا فرمایا،اس موقع پر
ارشاد فرمایا : لوگو! مجھ سے حج کے مسائل سیکھو ،شاید میں اس سال کے
بعددوبارہ حج نہ کر سکوں،یا آپ سے نہ مل پاوٴں۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب
استحباب رمي جمرة العقبة یوم النحر راکباً، رقم:3137، سنن أبي داود، کتاب
المناسک، باب في رمي الجمار، رقم:1970، سنن النسائي، کتاب مناسک الحج، باب
الرکوب إلیٰ الجمار واستظلال المحرم، رقم:3064)
اس کے علاوہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے قرآن و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے اور
ان پر عمل کر نے کا حکم دیا اور مدینہ واپس آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد دنیا سے
پردہ فرمالیا ۔(تفسیر القرطی:20/167)
|