#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالحج ، اٰیت ، 28 ، 29
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لیشھدوا
منافع لھم ویذکروا
اسم اللہ فی ایام معلومٰت
علٰی مارزقھم من بھیمة الاَنعام
فکلوامنھاواطعمواالبائس الفقیر 28
ثم لیقضواتفثھم ولیفوانذورھم ولیطوفوا
بالبیت العتیق 29
فرمانِ بالا میں ھم نے ابراھیم کی زبان سے عالَم کے ہر خاص و عام کو اِس
سفرِ حج کی یہ دعوتِ عام اِس لیۓ دی تھی تاکہ ہر خاص و عام جب زمین کی
پستیوں اور بلندیوں سے گزر کر مسجدِ حرام تک آۓ تو وہ مسجدِ حرام کے اِس
مقام پر اِس حج کے اِن تربیتی اَیام کے دوران ملنے والے ھمارے اُس علمی و
عملی رزق و رحمت کا بچشمِ خود مُشاھدہ کرے جو علمی و عملی رزق و رحمت ھم
انسان کی حیوانی وحشتوں کے با وجُود بھی انسان کو دیتے رہتے ہیں تاکہ انسان
جب بھی ھم سے جو علمی و عملی رزق و رحمت پاۓ تو ھمارے اُس علمی و عملی رزق
و رحمت سے وہ خود بھی فائدہ اُٹھاۓ اور دُوسرے اہلِ طلب کو بھی فائدہ
پُہنچاۓ یہاں تک کہ نفع خواہی و نفع بخشی کے اِس عظیم عمل کے نتیجے میں وہ
اپنے فیصلے آپ ہی کرنے کے قابل ہو جاۓ اور اِس قابل ہونے کے بعد وہ اِس
قابل بھی ہو جاۓ کہ اپنے دل کے مُثبت و مَنفی ارادوں کو اپنے اختیار و عمل
کے دائرے میں لے آۓ اور وہ اِس قابل بھی ہو جاۓ کہ اپنی اِس علمی و عملی
صلاحیت کو دیر تک اور دُور تک برقرار رکھنے کے لیۓ اللہ تعالٰی کے اِس عظیم
اور قدیم گھر میں بار بار آنے جانے کا عادی و عامل بھی ہو جاۓ !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
حَجِ بیت اللہ کے بارے میں قُرآنِ کریم کا یہ وہی مُسلسل مضمون ھے جس
مُسلسل مضمون کا تَسلسل اُس پہلی اٰیت کے اُس پہلے مضمون کے ساتھ جُڑا ہوا
ھے جس پہلی اٰیت کے پہلے مضمون میں اللہ تعالٰی نے ابراھیم علیہ السلام کو
حَجِ بیت اللہ کے لیۓ ایک اعلانِ عام کا حُکم دیا ھے اور ابراھیم علیہ
السلام نے اللہ تعالٰی کے اِس حُکم پر عمل کرتے ہوۓ وہ اعلانِ عام کیا ھے ،
قُرآنِ کریم نے اپنے اِس سلسلہِ کلام کی اِس ترتیبِ کلام کے مطابق پہلے تو
اِس اٰیت سے پہلی اٰیت کے اُس پہلے مضمون میں ابراھیم علیہ السلام کے اُس
اعلانِ عام کا ذکر کیا ھے جس اعلان کے ذریعے ابراھیم علیہ السلام نے دُنیا
کے تمام انسانوں کو حَجِ بیت اللہ کی ایک دعوتِ عام دی ھے اور اِس کے بعد
موجُودہ اٰیت کے موجُودہ مضمون میں قُرآنِ کریم نے ابراھیم علیہ السلام کے
اُس اعلان کی مِن جُملہ وجوہ میں سے ایک ابتدائی وجہ بیان کی ھے کہ بیت
اللہ اور حَجِ بیت اللہ کے بارے جو اَحکام مقصود بالذات ہیں اُن اَحکام کی
وہ تعلیم اِس کتابِ نازلہ میں موجُود ھے لیکن بیت اللہ کو اللہ تعالٰی نے
چونکہ اپنے سارے عالَم کے لیۓ اپنا ایک علمی مرکز بنا دیا ھے اِس لیۓ اللہ
تعالٰی نے اہلِ عالَم پر یہ اَمر بھی لازم کر دیا ھے کہ دُنیا کے جس مُلک
کا جو طالبِ علم دین و دُنیا کا جو مسئلہ سمجھنا چاہتا ھے وہ بیت اللہ کے
اِس علمی مرکز میں جا کر سمجھے اور دُنیا کے جس ملک کا جو طالبِ علم دین و
دُنیا کا جو مسئلہ سمجھانا چاہتا ھے وہ بھی بیت اللہ کے اسی علمی مرکز میں
جا کر سمجھاۓ تاکہ سمجھے جانے اور سمجھاۓ جانے کا ہر مسئلہ اِس ایک ہی علمی
و عملی مجلس میں سمجھ اور سمجھا لیا جاۓ ، قُرآنِ کریم نے اپنی اِن اٰیات
میں انسان کی اِس علمی و عملی نفع یابی و نفع دہی کی تفہیم کے لیۓ سب سے
پہلے اپنی جو ایک خاص اصطلاح استعمال کی ھے وہ سلسلہِ کلام کی پہلی اٰیت {
و یذکروااسم اللہ فی ایام معلومٰت } میں آنے والی "ایام معلومٰت" کی اصطلاح
ھے اور { وذکرھم بایام اللہ } کی یہی اصطلاح سُورَہِ ابراھیم کی اٰیت 5 میں
بھی استعمال کی گئی ھے ، ہر چند کہ زمانے کے سارے ماہ و اَیام ، اللہ ہی کے
ماہ و اَیام ہیں لیکن جہاں پر اِن اَیام کا بطور خاص ذکر کیا جاتا ھے تو
اُس خاص ذکر میں وہ خاص اَیام اہلِ حق کی خوش حالی اور اہلِ باطل کی
بَدحالی کے اَیام ہوتے ہیں اور حَجِ بیت اللہ کے ضمن میں اِن ایام کا ذکر
اِس اَمر کی نشان دہی کرتا ھے کہ اگر حج کا عمل علمی و عملی طور پر بامقصد
ہو ، حَج کے اِس عمل میں عالَم کے عالمی مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے والے
لوگ شریک ہوتے ہوں اور دُنیا سے یہاں پر آنے والے لوگ اور دُنیا میں یہاں
سے جانے والے لوگ حَج کے اِس عمل سے کُچھ سیکھ کر اور کُچھ سکھا کر آتے اور
جاتے ہوں تو حَج کا یہ عمل سارے عالَم کے اہلِ حق کی خوش حالی اور سارے
عالَم کے اہلِ باطل کی بَدحالی پر مُنتج ہوتا ھے اور اگر حج کا معاملہ اِن
شرائط کے برعکس ہوتا ھے تو اِس کے نتائج بھی اِس کے برعکس ہوتے ہیں ، اِس
اٰیت میں استعمال ہونے والی قُرآن کی دُوسری اصطلاح "رزق" ھے اور علمی
اعتبار سے ہر وہ چیز رزق ہوتی ھے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کو دی
جاتی ھے اور حج کے ضمن میں اِس رزق سے مُراد انسان کا وہ مطلوبہ علم و عمل
ھے جو اِنسان حج سے حاصل کرتا ھے ، اِس سلسلہِ کلام میں آنے والی قُرآن کی
تیسری اصطلاح "بھیمة الاَنعام" ھے جس سے عُلماۓ روایت جگالی کرنے والے وہ
جانور مُراد لیتے ہیں جن کو قُربان کرنے کا وہ لوگوں کو حُکم دیتے ہیں لیکن
"اَنعام" قُرآنِ کریم کی وہ معروف اصطلاح ھے جس کا مفہوم قُرآنِ کریم نے
سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 179 { اولٰئک کالاَنعام بل ھم اضل } میں خود ہی
بیان کر دیا ھے اور اِس قُرآنی مفہوم سے مُراد وہ حق گریز لوگ ہیں جو حق کو
حق سمجھنے کے بعد بھی حق سے گریزاں رہتے ہیں اور جن کا عقلی اُفق چوپائیوں
کی تاریک عقل سے زیادہ تاریک ہوتا ھے کیونکہ اُن کے اِس بے نُور عقلی افق
پر ہر وقت جہالت کے بادل چھاۓ رہتے ہیں ، اٰیات ھٰذا میں چوتھی اصطلاح
"یقضوا" ھے اور اِس سے مُراد انسان کی وہ علمی قُوت و بصیرت ھے جس کے مطابق
وہ اپنے فیصلے کرتا ھے ، پانچویں اصطلاح "تفث" ھے جس سے انسان کی جسمانی
گندگی مُراد لی جاتی ھے لیکن اِس سے انسان کی اَخلاقی و رُوحانی گندگی
مُراد ھے ، چَھٹی اصطلاح "نذور" ھے جو نذر کی جمع ھے اور اِس سے انسان کا
وہ عزم و ارادہ مُراد ہوتا ھے جس سے وہ اپنے عھد و معاھدے کی تکمیل کرتا ھے
، ساتویں اصطلاح "طوفوا" ھے جس سے کسی کا کسی جگہ پر بار بار آنا یا جانا
ہوتا ھے اور حج کے سلسلہِ کلام میں اِس سے مُراد عملِ حج کے ذریعے انسانی
رُوح و جسم کی اصلاح ھے اور انسانی رُوح و جسم کی اِس اصلاح کے لیۓ انسان
کا بار بار حج کی اِس بین الاقوامی کانفرنس میں علم و عمل سیکھنے کے لیۓ
جانا اور مطلوبہ علم و عمل سیکھ کر واپس آنا ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ حَج کے
ان اعمال کا مقصد مَحض جانور گرانا ، خون بہانا ، گوشت کھانا اور کھا پی کر
واپس آنا نہیں ھے !!
|