کلن بابا کو سکریٹر ی نے فون تھماتے ہوئے کہا پردھان جی
آپ کا فون ہے۔
بابا بولے تم سے کتنی بار کہا کہ فون دینے سے پہلے بتایا کرو کہ کس کا فون
ہے؟
لاٹ صاحب، آپ کے ساتھ کام کرتے کرتے ہم لوگ سمجھ گئے ہیں کہ جہاں پناہ کس
سے بات کرنا چاہتے ہیں اور کس سے نہیں؟
کلن بابا بولے فلسفہ نہ بگھارو ۔ میرے سوال کا جواب دو۔
صاحب وہی تو کررہا ہوں ۔ آپ بھلا یہ کیوں جانناچاہتا ہیں کہ کس کا فون ہے؟
میں نے جواب دینے کے لیے کہا تو تم سوال کرنے لگے۔ بہت منہ زور ہوگئے ہو
تمہارا علاج کرنا پڑے گا۔
صاحب ناچیز کے اس سوال میں آپ کے سوال کا جواب چھپا ہوا ہے۔ آپ اسی لیے
جاننا چاہتے ہیں کہ کسی نا پسندیدہ آدمی سے بات نہ کرنی پڑے ۔
ہاں ، تمہارا یہ اندازہ تو صد فیصد درست ہے لیکن پھر بھی فون کرنے والے کا
نام بتانے میں کیا دقت ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے آپ کو ہماری قابلیت پر شک ہے؟
اس میں تمہاری قابلیت کہاں سے آگئی ؟ اگر ایسا ہوتا تو میں کب کا تمہاری
چھٹی کرچکا ہوتا ۔
وہی تو ! جب بھروسا ہے تو یہ جاننے کی کیا ضرورت ؟ ہم اول تو ناپسندیدہ
لوگوں کا فون لیتے ہی نہیں اور غلطی سے لے لیا تو مصروفیت کا بہانہ بنادیتے
ہیں ۔
کلن بابا نے ہنس کر کہا مجھے سب پتہ ہے لیکن کم ازکم آج تو میں یہ جانے
بغیر بات نہیں کروں گا کہ یہ کس کا فون ہے؟
سکریٹری بولا ٹھیک ہے سر تو یہ بی بی جی کا فون ہے۔ اب بولیے کیا کروں ؟ کٹ
کردو ں؟؟
بی بی جی ! اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ مجھے فون کرے ۔ یہ پتہ لگاو کہ اسے کس
نے نمبر دیا ۔ میں اس پر پوٹا لگوادوں گا۔
سکریٹری سمجھ گیا کہ غلط فہمی ہوگئی ۔ وہ بولا صاحب یہ اس بی بی جی کا فون
نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں ۔ یہ اسرائیل کے بی بی جی کی کال ہے ۔
اسرائیل میں بی بی جی ؟ میں کسی اسرائیلی بی بی جی کو نہیں جانتا ۔ لگتا ہے
اب تم کو بھی ۰۰۰۰
سرخدا کے لیے مجھے پوٹا میں اندر نہ کیجیے۔ دراصل آپ کے پرم متر للن یاہو
کو اسرائیل میں پیار سے بی بی کہہ کر پکار ا جاتا ہے ۔ میں احتراماً جی لگا
دیا۔
اوہو اسرائیلی وزیر اعظم ارے بھائی لاو جلدی لاو ۔ تم نے انہیں اتنی دیر
انتظار کرایا ؟؟ یہ بہت غلط بات ہے۔
جی ہاں لیکن تفریح کے لیے رنگ ٹون پر ان کا پسندیدہ نغمہ ’یہ دوستی ہم نہیں
چھوڑیں گے ‘ لگا دیا ہے۔ وہ اس سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے۔
ارے بھائی اس کو ہندی تھوڑی نا آتی ہے جو اس گانے کا مزہ لے سکے گا ؟
سر گستاخی معاف لیکن موسیقی کی کوئی زبان نہیں ہوتی ؟ آپ جاپانی نغمے پر
ڈھول بجا سکتے ہیں تو وہ ہندی گانا کیوں نہیں سن سکتے ؟؟
وہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی کسی وزیر اعظم کو اس طرح انتظار کروانا غیر
اخلاقی حرکت ہے جو سر پھری دیدی کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا؟
سر منتری ہو یا سنتری کسی کو بھی بلاوجہ انتظار کروانا بری بات ہے ۔
اب مجھے اخلاقیات کا پروچن نہ سناو ؟ عام لوگوں کے پاس کام ہی کیا ہوتا ہے
جو تھوڑا بہت انتظار کرلینے سے فرق پڑے؟
صاحب جان کی امان پاوں تو کہوں کہ خاص لوگوں کے سارے کام تو عام لوگ ہی
کرتے ہیں ۔ اس لیے ان کے پاس تو دنیا بھر کا کام ہوتا ہے ؟
کلن بابا بگڑ کر بولے اچھا تو تمہارا مطلب ہے خاص لوگ بالکل فالتو ہوتے ہیں
۔ ان کے پاس کو ئی کام نہیں ہوتا؟
جی نہیں سرکار ایسی بات نہیں ۔ خاص لوگوں کے پاس کئی نوکر چاکر ہوتے ہیں
ایک نہیں تو دوسرا کر دیتا ہے لیکن عام آدمی کو اپنا ہر کام خود کرنا پڑتا
ہے۔
اچھا تو للن بی بی کے ساتھ میرے بجائے کوئی اور یعنی تم بات کرسکتے ہو؟
صاحب میری کیا مجال ؟ آپ برا مان گئے میں معذرت چاہتا ہوں ۔ مجھے معاف
کردیجیے لیکن فی الحال ان کے پاس بھی فرصت ہی فرصت ہے۔
کیا ؟ وزیر اعظم کے پاس فرصت ہی فرصت ! یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ ؟
سر وہ اب دوچار دن کے وزیر اعظم ہیں بس ۔ ان کا بوریہ بستر گول ہوچکا ہے ۔
یہ غضب کیسے ہوگیا ؟
جیسے مغربی بنگال میں ہوگیا اور کیسے؟
لیکن بنگال میں دیدی کا بوریہ بستر گول کہاں ہوا ؟
جی ہاں نہیں ہوا مگر ہمارا تو ہوگیا ۔ اب اگلے اتوار کو للن بی بی کی بھی
چھٹی ہونے والی ہے۔ شاید غم غلط کرنے کے لیے آخری فون کررہے ہیں ۔
آخری کیوں؟ کیا عہدے کے ساتھ فون بھی چھن جائے گا؟
جی نہیں لیکن ممکن ہے جیل میں فون کے استعمال کی اجازت نہ ہو۔
اچھا یہ تو بہت برا ہے۔ خیر اب نغمہ تو دور شعلے بھی ختم ہونے والی ہوگی
لاو فون دو ۔
ہاں للن بی بی نمسکار بولو کیسے ہو؟ معاف کرنا ذرا کورونا سے الجھ گیا تھا
اس لیے دیر ہوگئی ۔
کوئی بات نہیں کلن بابا ۔لگتا ہے اب یہی سب ہوگا ۔ لگتا ہے آگے ہر کوئی
انتظار کرائے گا۔
ہر کوئی کیا مطلب ؟ میرے علاوہ کسی اور نے انتظار کروایا تھا کیا؟
جی ہاں اب تو بیوی بھی انتظار کرواتی ہے کمبخت ۔ سارا جھمیلا اسی کا کھڑا
کیا ہوا ہے۔ نہ وہ رشوت خوری کا اعتراف کرتی اور نہ میں پھنستا؟
اچھا تو کیا وہ رشوت خوری کے چکر میں جیل کے اندر چکی پیس رہی ہے؟
نہیں بھائی وہ تو میری جیب سے جرمانہ ادا کرکے چھوٹ گئی لیکن میں نہیں
جانتا میرا کیا ہوگا ؟
جیسے تمہاری بیوی چھوٹ گئی اسی طرح تم بھی کچھ دے دلا کر چھوٹ جانا ؟
ارے بھائی میرے سیاسی مخالفین چاہتے ہیں کہ میں جیل میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر
مروں اس لیے کچھ دینے دلانے کام نہیں چلے گا ۔
یار اسی لیے میں اپنی دھرم پتنی کو چھوڑ کر بھاگ گیا ورنہ وہ مجھے بھی کسی
نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردیتی ۔
اچھا تو کیا تم نے اسے تین طلاق دے دی ؟
ارے نہیں ، یہ غلطی تو ہمارے یہاں مسلمان کرتے ہیں اور ہم انہیں تین سال کے
لیے جیل بھیج دیتے ہیں ۔ ہم لوگ بغیر طلاق کے کام چلا لیتے ہیں۔
دیکھو کلن بابا میں نے ایک خاص مشورہ کرنے کے لیے فون کیا تھا اور تم
،منحوس بیوی کا قصہ لے بیٹھے ۔
للن بی بی مشورہ لینے سے پہلے یہ بتاو کہ سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کے
باوجود تم اقتدار سے کیسے محروم ہوگئے؟
ارے بھائی کلن تم تو جانتے ہی ہو کہ راون کتنا طاقتور تھا ۔ اس کے پاس علم
وحکمت اور فوج و حرفت دونوں تھی پھر بھی وہ اپنے ہی دیش میں کیسے ہار گیا؟
کلن بابا نے کہا لگتا ہے تم نے رامائن نہیں دیکھی ؟ ورنہ یہ سوال نہیں کرتے
؟؟
للن بی بی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اگر تم رامائن ٹھیک سے دیکھتے تو یہ
سوال نہ کرتے ۔
کیا مطلب ! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے رام مندر کا فیصلہ کروایا اور
شیلا نیاس بھی کیا۔
ہاں معلوم ہے لیکن رامائن کو پڑھنا یا دیکھنا اور سمجھنا اس سے مختلف شئے
ہے۔ میں بھی اس طرح کے کئی سیاسی تماشے کرچکا ہوں ۔
ارے بھائی میں نے ایک سیدھا سوال کیا تم کہیں اور لے گئے اگر نہیں بتانا تو
مت بتاو۔
بھئی دیکھو ایسا ہے کہ راون کے کا تو صرف ایک وبھیشن تھا میرے تو نصف درجن
وبھیشن نکل آئے۔
نصف درجن میں نہیں سمجھا ؟
وہ ایسا ہئ کہ میں نے جن لوگوں کو اپنا وزیر دفاع ، وزیر مالیات ، وزیر
خارجہ تک بنادیا بلکہ جس کو میرے بعد وزیر اعظم بننا تھا وہ سب دشمن سے
جاملے ۔
کلن بابا نے کفِ افسوس ملتے ہوے پوچھا : یہ کیسے ہوگیا ؟ ان لوگوں نے اتنی
بڑی غداری کیوں کردی ؟
اقتدار کے لیے اور کیوں؟ اب کیا مجھے یہ بتانا پڑے گا کہ جمہوری سیاست میں
ساری وفاداری اور غداری کا دارومدار اقتدارکے حصول کی خاطر ہوتا ہے۔
ہاں بھائی ۔ ویسے ابن الوقتی کا کوئی علاج نہ تو فسطائیت میں ہے اور نہ
صہیونیت کے اندر ہے ۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے کوئی ویکسین نہیں ہے۔
للن بی بی نے سوال کیا وہ تو ٹھیک ہے لیکن آگے مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
کلن بابا گھبرا کر بولے دیکھو تم ہندوستان آنے کا خیال اپنے دل سے نکال دو
کیونکہ اگر میں نے پناہ دے دی تو یہ مسلمان میر اجینا حرام کردیں گے ۔
اوہو میرا دماغ خراب ہے جو ہندوستان آنے کا سوچوں ۔ یہ تم نے کیسے سوچ
لیا؟
اوہو میں نے سوچا کہ مجھ سے پوچھ رہے تو یہی سوچ بھی رہے ہوگے ۔ اگر نہیں
آرہے ہوتو کیا ارادہ ہے؟
میرا خیال ہے کیوں نہ اپنے دادا کے پاس چلا جاوں ۔
دادا! کس دادا کی بات کررہے ہو؟
وہی جس کو کامیاب کرنے کی خاطر تم ہیوسٹن گئے تھے اور نمستے کرنے کے لیے
احمد آباد بلایا تھا ۔
ارے بھائی بیچارہ جمن دادا بھی تو ہار گیا ۔ اب اس کے پاس جاکر کیا کروگے؟
وہ تو ٹھیک لیکن تم ۶ ماہ کے اندر اپنے جمن دادا کو بھول جاوگے ۔ مجھے یہ
توقع نہیں تھی۔
دراصل اس عمر میں چیون پراش بھی کام نہیں کرتا ۔ کیا بتاوں کچھ یاد نہیں
رہتا۔ ایسے میں ویکسین کے بارے میں کچھ بول دیتا ہوں تو لوگ پکڑ لیتے ہیں۔
لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دادا ہار چکے ہیں ان کے پاس نہیں جاوں ،
بابا ہارے نہیں ہیں ان کے پاس بھی نہ جاوں۔ توآخر جاوں تو کہاں جاوں ؟
کہیں جانا کیا ضروری ہے ۔ بس خاموشی سے ہمارے ماما اڈوانی کی طرح جہاں ہو
وہیں پڑے رہو ۔
اچھا خود اپنے بارے میں تو کہتے ہو جھولا اٹھا کر چلا جاوں گا مجھے منع
کرتے ہو۔
بابا نے ہنس کر کہا یار جانے کا مطلب ملک چھوڑ کر جانا تھوڑی نا ہوتا ہے۔
دہلی سے جھولا اٹھاکر احمد آباد چلا جاوں گا۔
بی بی نے ہنس کر کہا سمجھ گیا تو یہ بھی ایک انتخابی جملہ ہے۔ ویسے میرا
ایک مخلصانہ مشورہ ہےکہ تم بھی لکھنو کے وبھیشن سے ہوشیار رہنا ورنہ ۰۰۰۰۰؟
ورنہ کیا ؟ یہ بولتے بولتے رک کیوں گئے؟
ورنہ یہی کہ جو حشر دادا اور بی بی کا ہوا ہے وہی بابا کا بھی ہوجائے گا ۔
ٹھیک ہے اگر ایسا ہے تو تم ابھی دادا کے پاس نکل جاو ۔ ضرورت پڑنے پر میں
بھی وہیں پہنچ جاوں گا ۔
ٹھیک اب مجھے اجازت دو :’’اچھا تو ہم چلتے ہیں ‘‘
ہم بھی چلتے ہیں لیکن یاد رکھنا ’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے‘ ۔
ہاں بھائی نہ کرسی چھوڑنا اور نہ دوستی چھوڑنا کیا سمجھے ۔ شب بخیر۔
|