روبرو ہے ادیب: نوید احمد

تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری

نوید احمد ادب اطفال کے اُن لکھاریوں میں سے ایک ہیں جو کہ بچوں کی نفسیات کو خوب سمجھتے ہیں اوران کے لئے ایسی تحریریں سامنے لاتے ہیں جو کہ خوب پذیرائی حاصل کرتی ہیں۔ادب اطفال کے مختلف معاملات پر خوب گہری نظر بھی رکھتے ہیں اوران کی کوشش ہے کہ بچوں کو پھر سے کتب بینی کی جانب بھی راغب کیا جا سکے۔


نوید احمد دل کے صاف اورزبان کے کھرے ہیں اور اکثر اپنی بات مناسب لفظوں میں بیان کرنے کی ایسی قوت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے حالات کو قابومیں بھی رکھتے ہیں۔


نوید احمد اگرچہ بے حد کم لکھ رہے ہیں مگر اب ان کی کوشش ہے کہ اپنے قلم سے ادب اطفال میں کچھ ایسا اثاثہ چھوڑ جائیں جس سے کل کا مورخ ان کے کام کو خوب سراہے،نوید احمد نئے لکھاریوں کو بھی خوب حوصلہ افزائی دیتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نوجوان لکھاریوں میں خوب مقبولیت بھی رکھتے ہیں۔


ادب اطفال کے ہونہار، ملنسار اورخوش مزاح لکھاری سے ہونے والی ملاقات کی روداد پیش خدمت ہے۔



سوال: سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ اعزازی شمارے یا معاوضے کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: اعزازی شمارہ اور معاوضہ لازمی ملنا چاہئیے. لیکن اس سے پہلے لکھاری کو بھی معیار پر توجہ دینا ہوگی.



*****

سوال: سب سے پہلے کس نے لکھنے پر حوصلہ افزائی دی تھی؟
جواب: جناب احمد عدنان طارق صاحب، ڈاکٹر سید نسیم جاوید صاحب اور جناب اکمل معروف صاحب



*****


سوال: اولین تحریر کی اشاعت پر کیسا محسوس ہوا تھا؟
جواب: اولین تحریر 1997 میں چندا رسالے میں شائع ہوئی. اس وقت بھی بہت خوشی ہوئی تھی. مگر 23 سال بعد جب بچوں کی دنیا میں پھر سے میری کہانی شائع ہوئی تو بے پناہ مسرت ہوئی.



*****


سوال:آپ کی زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ کون سا ہے؟
جواب: جب میں نے آٹھویں جماعت میں تحصیل بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی.

*****


سوال: اپنے بارے میں بتائیں کب اور کہاں پیدائش ہوئی؟
جواب: میں. پندرہ اپریل1980 میں چیچہ وطنی ضلع ساہیوال میں پیدا ہوا.

*****




سوال: آپ کے بچپن کی کوئی خا ص یاد، جو قارئین کو بتا نا چاہیں؟
جواب: میرا سارا بچپن ہی یادگار اور خاص ہے. سب سے یادگار لمحہ جب پہلی بار میں نے جیبی حجم کی کہانی پڑھی اور میں حیران ہو رہا تھا کہ میں نے اپنے آپ کامیابی سے پڑھ بھی لیا اور سمجھ بھی لیا. اس وقت میری عمر آٹھ سال تھی.

*****


سوال:اب تک کتنی کتب /تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں؟
جواب: میں زود تحریر نہیں ہوں. جولائی 2020 سے. دوبارہ لکھنا شروع کیا اور اب تک میری چودہ کہانیاں شائع ہو چکی ہیں. اس کے علاوہ ایک ناولٹ بھی بھیجا ہوا ہے اور ایک ناول زیر تکمیل ہے.

*****


سوال:آپ نے ابھی تک کس اُردو لکھاری/ادیب کو خوب پڑھا ہے،کتنا متاثر ہوئے ہیں؟
جواب: بہت سوں کو پڑھا ہے اور ان سے متاثر بھی ہوں. زبان و ادب کے لحاظ سے تو میں پرانے ادباء جن میں ڈپٹی نذیر احمد، مرزا فرحت اللہ بیگ، منشی پریم چند، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی کو پسند کرتا ہوں. انہیں پڑھا بھی ہے. مزاح نگاری میں پطرس بخاری، ابن انشاء. شوکت تھانوی، شفیق الرحمٰن اور مشتاق احمد یوسفی بہت پسند ہیں. ان کے علاوہ جناب انوار صدیقی صاحب مجھے بہت پسند ہیں اللہ انہیں صحت و تندرستی دے کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں. محی الدین نواب سا مصنف آج تک نہیں دیکھا. ان کے علاوہ اے حمید صاحب، ایم اے راحت صاحب، ہاشم ندیم صاحب، کاشف زبیر صاحب، حسام بٹ، نوشاد عادل صاحب. مؤخر الذکر یعنی نوشاد بھائی تو ویسے استاد کا درجہ رکھتے ہیں. ان سے بڑی رہنمائی ملی. اب آتے ہیں بچوں کے ادباء کی طرف تو ان میں سر فہرست ہیں جناب احمد عدنان طارق صاحب. بہت شفیق، مخلص انسان اور مصنف بھی بہت اچھے ہیں. خاص طور پر مجھے نئے سرے سے لکھنے پر مہمیز کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے میں انکا ہی ہاتھ ہے. ان کے علاوہ نذیر انبالوی صاحب بہت اچھے مصنف ہیں بچپن میں. انکی بہت سی کہانیاں پڑھی ہیں. نوشاد عادل بھائی بھی بچوں کے لیے بہت عمدہ لکھتے ہیں. ادب اطفال کے پرانے مصنفوں میں میرے پسندیدہ جناب سعید لخت صاحب، یونس حسرت صاحب، ابو ضیاء اقبال، مقبول جہانگیر صاحب، محترمہ زبیدہ خاتون صاحبہ، مہر نگار مسرور صاحبہ، کمال احمد رضوی صاحب اور اشتیاق احمد صاحب اور بھی ہیں لیکن سب کے نام یاد رکھنا مشکل ہیں.

*****




سوال: ایک اچھے لکھاری /ادیب میں کن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے؟
جواب: سب سے پہلے ایک اچھے مصنف کی زبان شستہ اور تحریر شگفتہ ہو. قواعدِ انشاء پردازی پر عبور ہو کیونکہ فی زمانہ نئے لکھنے والوں میں مجھے اس بات کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے. ادب کا سب سے پہلا مفہوم ہی علم و اخلاق کی درس و تدریس ہے. جب آپ اپنی زبان اور اصول زباندانی سے ہی نابلد ہو ں گے تو اچھا ادب تخلیق نہیں کر پائیں گے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے. ہم انگریزی زبان سیکھنے کی خاطر سر پٹکتے رہتے ہیں تو اپنی قومی زبان کے بنیادی اصول و ضوابط سیکھنے میں کیا امر مانع ہے؟ پھر ہم مصنف کہلانے کے دعویدار بھی ہیں. لیکن اس سے پہلے ہمیں اردو زبان و ادب کا طالب علم بننا ہوگا اپنا مطالعہ وسیع کرنا ہوگا. کیا آپ نے ایسا تلوار باز دیکھا ہے جو شمشیر زنی کی تربیت کے بغیر تلوار کمر سے لگائے خود کو جنگجو سمجھتا ہو؟ اسی طرح شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری بھی ایک فن ہے جو شاعری کی نسبت زیادہ دقیق تو نہیں مگر ایک پر اثر تحریر اپنے اندر ابلاغ کی بڑی طاقت رکھتی ہے. اس کے ساتھ ساتھ ادبی حسن و چاشنی تحریر کو چار چاند لگا دیتے ہیں. بر محل محاورات و ضرب الامثال، نادر تشبیہات و خوبصورت تراکیب لفظی وہ ہتھیار ہیں جن سے ایک ادیب کو لیس ہونا ضروری ہے. اسلوب انہی چیزوں سے ترکیب پاتا ہے. منفرد اور عمدہ اسلوب ایک بہترین تحریر کی بنیادی ضرورت ہے.

*****

سوال: آپ کے مستقبل کے کیا ارادے ہیں؟
جواب: مستقبل کے ارادے تو نہیں بس ایک ارادہ ہے کہ اردو ادب اطفال کے معیار کو بلند کرنے کے لئے مجھ سے جو ہو سکا وہ کر جاؤں. حال میں طبعزاد اور تراجم کی بحث بہت مقبول ہے اور جہاں طبعزاد لکھنے والے ترجمہ نگاروں کو تخیل کی کمی کا طعنہ دیتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ترجمہ نگار انہیں غیر دلچسپ اور بور مرکزی خیال پر مورد الزام ٹھہراتے ہیں. اس حوالے سے میری اپنی رائے ہے کہ کیوں نہ اردو ادب اطفال کا معیار اتنا اعلیٰ کیا جائے کہ وہ دلچسپی، زبان و بیان کی خوبی، تفریح اور تربیت کردار کے حوالے سے عالمی زبانوں کے ادب کا مقابلہ کرے بلکہ ان سے بھی بہتر ہو جائے. اس حوالے سے ایک بڑی پرانی بحث بھی موجود ہے کہ ادب کا مقصد محض تفریح ہے یا تعلیم تو میرا خیال ہے کہ اس میں توازن کی بہت ضرورت ہے خاص طور پر بچوں کے ادب کے معاملے میں بچوں کو ادبی تفریح زیادہ سے زیادہ مہیا کرنے کی ضرورت ہے.



*****

سوال: آپ کے خیال میں کوئی مخصوص کردار تخلیق کرکے لکھاری کو اپنی پہچان بنوانی چاہیے؟
جواب: مخصوص کردار تخلیق کرنے میں کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ آپ کا اسلوب یکسانیت کا شکار نہ ہو.



*****

سوال:کیا آج کے نوجوان ادیبوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے؟
جواب: نوجوان ادیبوں کی حوصلہ افزائی رائی برابر ہے اور تربیت کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں. میرے خیال میں کامرس، کمپیوٹر سائنس اور صحافت کی طرح ادب کے مختصر تربیتی پروگرام اور کورسز بھی ہونے چاہئیں.



*****


سوال: کیا آپ کو سچ بولنے کی کوئی قیمت ادا کرنی پڑی ہے؟
جواب: مجھے اندازہ ہے کہ اس سوال سے آپکی کیا مراد ہے. لیکن اگر آپ اس کی مزید وضاحت کر سکیں تو بہتر ہوگا. فی الحال تو ایسی کوہی صورت حال نہیں ہے.



*****

سوال: آپ کے خیال میں کیا لکھاری ایک دوسرے سے کوئی عناد رکھتے ہیں؟آپ کا کوئی ایسا تجربہ ہوا کہ جب آپ کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہو؟
جواب: عناد تو کسی بھی میدان میں مصروف عمل ساتھیوں کے درمیان پیدا ہوجاتا ہے. لیکن شاعر و ادیب حضرات اس معاملے میں کچھ حساس ہوتے ہیں اور یہ زمانہ قدیِم سے رسم چلی آرہی ہے. دھڑے بندیاں مخالفتیں عروج پر رہی ہیں. میرے ساتھ مختصر عرصے میں ہی ایک دو تجربات ہو چکے ہیں کہ بلاوجہ کچھ لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ ہوگیا. لیکن صرف چند ایک کو چھوڑ کے باقی بہت سے دوست نے حد پیار اور عزت کرنے والے بھی ملے ہیں اور میں ہمیشہ ان کا شکر گزار رہوں گا. آپ اپنی مرضی اور سوچ کسی دوسرے پر مسلط نہیں کر سکتے. ہر انسان کی اپنی انفرادی سوچ اقر شخصیت ہوتی ہے جس کے حوالے سے آپ اس سے اپنے تعلقات کی گہرائی کا تعین کر سکتے ہیں. اس طرح طرفین کو کسی جذباتی جھٹکے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا. تیز رفتاری کا دور ہے اور اسی مناسبت سے لوگوں کے ذاتی نظریات و خیالات بدلتے رہتے ہیں. ہمیں بھی اس معاملے می. اہنا ظرف وسیع رکھنے کی ضرورت ہے.



*****




سوال: آپ کے خیال میں ادب اطفال کا فروغ کس طرح سے آج کے دور میں ممکن ہو سکتا ہے؟
جواب: ایک ایسی ادبی تنظیم کا قیام جو بچوں کے متوازن تفریحی ادب کی تخلیق و ترویج میں سنجیدہ و مخلص ہو. جس کا ہر رکن شخصی و ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر رضاکارانہ طور پر اپنے مقاصد میں سنجیدہ ہو. اس کے علاوہ سرکاری سرپرستی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے. بچوں کے رسائل و کتب کو کم از کم قیمت پر شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے.



*****


سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: دلچسپ اور اچھا پڑھیں، اچھا بولیں اورخوش رہیں.

آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522566 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More