عائشہ یاسین (کراچی)
رافع ایک بہت ہی ہونہار بچہ تھا۔ بڑوں کا ادب کرتا تھا اور سب کی مدد کے
لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ اسے جانوروں سے بھی بے حد محبت تھی۔ وہ روز منڈیر
پر بیٹھنے والی چڑیوں اور کوؤں کے لیے ایک تھال میں باجرہ اور ایک تھال میں
پانی ڈالا کرتا۔ ایک دن جب وہ گھر سے نکلا تو گلی کے کنارے اس کو ایک زخمی
کتا نظر آیا۔ کتے کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ اٹھ بیٹھ بھی نہیں پا رہا
تھا۔ رافع کو اسے دیکھ کر بڑا رحم آیا۔ وہ فوراً گھر گیا اور مرہم پٹی کرنے
کے لیے دوائیں ایک تھیلے میں ڈالی اور ساتھ میں اس کے پینے کے لیے پانی اور
کھانا بھی لے لیا۔ جب رافع اس کتے کے پاس پہنچا تو وہ کچھ ڈر سا گیا۔ رافع
نے اس کا خوف دور کرنے کے لیے پہلے تو اس کو پانی پلایا اور کھانے کو دیا۔
کتا بہت بھوکا پیاسا تھا۔ لگتا تھا کہ اس نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔
کتے نے رافع کو پیار بھری نگاہ سے دیکھا تو رافع کو بہت خوشی ہوئی۔ پھر اس
نے اس کے زخموں کی مرہم پٹی کی اور صبح آنے کا کہہ کر گھر آ گیا۔
دوسرے دن جب رافع اس کی خبر گیری کرنے گیا تو کتا وہاں موجود نہیں تھا۔ یہ
دیکھ کر رافع خوش ہوا کہ وہ صحت مند ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔ ابھی وہ خوشی
خوشی واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اس کے پیچھے کچھ غنڈے لگ گئے۔ رافع ڈر کے
مارے سہم گیا۔ وہ غنڈے جیسے ہی اس کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے چیخنا
شروع کر دیا مگر وہاں کوئی موجود نہ تھا جو اس کی مدد کو آتا کہ اچانک ایک
کتے نے زور زور سے بھوکنا شروع کر دیا۔ غنڈے ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔
رافع نے جب غور سے دیکھا تو یہ وہی کتا تھا جس کی اس نے مدد کی تھی۔ رافع
نے اس کو گلے لگایا اور اس طرح وہ دونوں اچھے دوست بن گئے۔ پیارے بچو! آپ
نے دیکھا۔ کتے نے کیسے احسان کا بدلہ احسان سے اتارا۔
|