آج کل کرپشن کا موضوع اتنا عام ہوچکا ہے کہ ہر طرف اسی پر
بات ہوتی ہے کسی بھی ٹی وی چینل کا ٹاک شو سن لیں کرپشن کی باتیں ہی ہوتی
ہیں حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ایسے افراد بھی دوسروں پر کرپشن کے الزامات
لگارہے ہوتے ہیں جو خود کرپشن کے کیسز بھگت رہے ہیں اور باقاعدہ جیلوں میں
بھی رہ کر آئے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ اس وقت کرپشن کی اتنی کہانیاں منظر
عام پر نہیں جتنی پچھلے دور میں آتی رہی تھیں اس وقت پنجاب حکومت کرپشن پر
قابو پانے کے حوالہ سے بہترین کام کررہی ہے مسلم لیگ ن کے دور میں انتقامی
کاروائیوں کے طور پر بھی کرپشن کے مقدمات درج کروائے جاتے رہے اور ان کیسز
کو زیادہ تر نیب کے سپرد کیا جاتا رہا کچھ دن قبل نیب کے چیئرمین نیب
جسٹس(ر) جاوید اقبال نے بھی کرپشن کے خاتمہ کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت
پر زور دیا انہوں نے مزید کرپشن کے تدارک کے لیے کیا کہا وہ بعد میں لکھوں
گا پہلے ایک ایسے شخص کی کہانی جو مسلم لیگ ن کے دور سے انتقامی کاروائیوں
کا نشانہ بنا اور پھر بنتا ہی چلا گیا ایسا شخص جو 13سال کی عمر میں جی ہاں
بلکل صحیح پڑھا آپ نے صرف 13سال کی عمر میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا وہ
بھی اس وقت کے مقبول عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جب پیپلز پارٹی
بنی تو شامل تھا جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو وہ شامل تھا جب پارٹی پر
برا وقت آیا تو وہ ساتھ کھڑا تھا جب بینظیر بھٹو برسراقتدار آئی تو وہ بی
بی شہید کے ساتھ تھا اور اب جب پیپلز پارٹی پنجاب میں گمنامی کے راستہ پر
گامزن ہے تو وہ اس وقت بھی پارٹی کے ساتھ ہے اور اسے پھر سے نیا خون دینے
کو تیار ہے اسے جب جب موقعہ ملا اس نے عوام کے بے لوث خدمت کی اور تو اوربے
گھر لوگوں کو چھت فراہم کرنے والا آج بھی کرایہ پر رہ رہا ہے میں بات کررہا
ہوں عوامی خدمتگار سید آصف ہاشمی کا جو مختلف اعلی عہدوں سے ہوتا ہوا جب
ہندو وقف املاک کے ادارے کی چیئرمین شپ سے علیحدہ ہوا تو پھر بعد میں آنے
والوں کے خلاف کرنے کو کوئی کام نہیں تھا سوائے انتقامی کاروائیوں کے مسلم
لیگ ن کے صدیق الفاروق نے ان پر کرپشن کے ایسے ایسے کیس بنوائے جن کو پڑھ
کر ہنسی آتی تھی مگر کیا کیا جائے اس وقت تو نیب بھی انہی کے زیر اثر تھا
مقدمات بنے جو ابھی تک وہ بھگت رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ایسے افراد
پارٹیوں اور عہدوں سے بالا تر ہوتے ہیں یہ وہ مخلص اور محب وطن پاکستانی
ہیں جن کی رگوں میں خون کی بجائے عوام کا درد دوڑ رہا ہوتا ہے ایسے افراد
کسی بھی پارٹی میں ہوں یا انکا کوئی بھی نظریہ ہو اہر حکومت کو چاہیے کہ ان
سے کام لیا جائے بلکہ قومی سطح پر کوئی ایسا تھنک ٹینک بنا یا جائے جس میں
ایسے افراد کو رکھا جائے اور ان سے عوام کی خدمت کا کام لیا جائے نیب کو
چاہیے کہ وہ انکے مقدمات کو بغور دیکھے اور پھر سید آصف ہاشمی کو بلا کر
تسلی سے انہیں سنا جائے ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ایسے بہت سے
افراد ہیں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی لڑائی کے دوران انتقام کا
نشانہ بنے جبکہ کرپشن کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں اسی کرپشن کے معامہ پر
چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کا کہنا بھی ہے کہ کرپشن ہمارا سب سے بڑا
معاملہ ہے آئندہ نسلوں کیلئے ایک بہتر اور خوشحال پاکستان کرپشن کے خلاف
کوششوں سے ہی ممکن ہے، کرپشن کا ارتکاب کرنے والا اپنی حیثیت اور اختیار کا
ناجائز استعمال کرتے ہوئے ذاتی فوائد سمیٹتا اور بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہے
دوسرے لفظوں میں کرپشن کے ذریعے ایک فرد جسے کوئی فرض سونپا جاتا ہے وہ
اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اس پوزیشن کو اپنے مقصد کے حصول
کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اس میں رشوت اور مالی بدعنوانی بھی شامل ہے جو کہ
پاکستان کی معیشت کیلئے زہر قاتل ہے کرپشن نہ صرف برائیوں کی جڑ ہے بلکہ یہ
ریاست کی معیشت، سماجی انصاف اور معیار زندگی کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ملک اگر پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی اور سرمایہ
کاری کا خواہاں ہے تو اسے ہرقیمت پر کرپشن کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ کرپشن
معاشرے کو اس بری طرح سے متاثر کرتی ہے کہ اب یہ ملک کیلئے ایک چیلنج بن
چکی ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے پائیدار اقدامات کئے گئے ہیں جن کے
ذریعے کرپشن کم ترین سطح پر آ گئی ہے نیب نے اس کیلئے انفراسٹرکچر بنایا ہے
لیکن ترقی پذیر ملکوں میں ابھی یہ تشکیل کے مرحلہ میں ہے پاکستان میں منی
لانڈرنگ ، کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال، نامعلوم ذرائع آمدن سے زائد
اثاثے اور عوام سے دھوکہ دہی بڑے چیلنجز ہیں۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی
جناح نے دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ہی قوم کو اس مسئلہ سے خبردار
کرتے ہوئے کہا تھا کہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ایک لعنت ہے اور یہ قوم
کیلئے زہر قاتل ہے اور ہمیں اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا میں سمجھتا
ہوں کہ قومی احتساب بیورو کرپشن کے خا تمے کیلئے پرعزم ہے تاکہ پاکستانی
معاشرہ سے کرپشن کی لعنت کو ختم کیا جا سکے اس وقت نیب سہ جہتی حکمت عملی
پر عمل پیرا ہے، اس میں آگاہی، تدارک اور انفورسمنٹ شامل ہیں ، انفورسمنٹ
کے ساتھ ساتھ آگاہی و تدارک پر بھی توجہ مرکوز رکھی جانی چاہیے نیب نے اس
وقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آگاہی پروگرام کے تحت 50ہزار سے
زائد کردار سازی کی انجمنیں قائم کی ہوئی ہیں جو کہ نوجوان نسل کو کرپشن کے
برے اثرات کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہیں کیونکہ پاکستان کے مستقبل کو
روشن اور تابناک بنانے کیلئے نوجوان نسل کو اس معاملہ پر آگاہی فراہم کرنا
بہت ضروری ہے اور ہمیں کرپشن کے خاتمہ کیلئے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت نیب کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے مگر اس ساری
تنقید کے باوجود نیب احتساب سب کیلئے کی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے
پاکستان سے کرپشن کے خاتمہ کیلئے تمام وسائل اور ذرائع بروئے کار لا رہا ہے
اور پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے اپنے عزم پر پوری طرح قائم ہے۔
|