قومی زبان کی اہمیت و قوت

قومی زبان کی اہمیت اور قوت

قومی زبان کسی قوم کی شناختی زبان ہے

ڈاکٹر نسرین شگفتہ

دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ ملک اور قوم کی بقا اس کی قومی زبان میں ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی پہچان قومی زبان ہی ہوتی ہے اور ملک و قوم کی معاشی، صنعتی اور سماجی ترقی کا دار ومدار بھی اس کی قومی زبان کے ہر میدان میں استعمال پر ہوتا ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک میں تعلیمی نظام ان کی اپنی زبان میں موجود ہے۔ ترقی یافتہ قومیں وہی ہیں جنہوں نے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کی ۔ قومی زبان کے بغیر حقیقی تعلیم و ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ذریعہ تعلیم بنا کر ہی ترقی کی ٹھوس بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ جس طرح چین، جاپان، جرمنی اور روس سمیت دنیا کے بہت سے ممالک نے قومی زبان میں تعلیم کو فروغ دے کر اپنی قوموں کے لئے ترقی کے دروازے کھول دئیے۔

قومی زبان ہی ذہنی آزادی کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں اور لہجوں کی افادیت اور اہمیت سے کسی بھی آزاد ملک میں انکار نا ممکن ہے لیکن قومی زبان یا زبانیں ہی اقوام کا امتیازی نشان ہوتی ہیں۔زبان اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک خاص نعمت ہے جو کہ معاشرتی ضرورت کے تحت بولی جاتی ہےتاکہ ہمارا مخاطب ہماری بات سمجھ سکے۔ دیگر زبانیں مثلاً عربی ، فارسی اور انگریزی وغیرہ سیکھنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن یہ ہماری قومی زبان نہیں۔ قومی زبان کی اہمیت اور قوت جب دیگر ممالک سمجھتے اور جانتے ہیں تو ہم اور ہماری حکومت کیوں نہیں جان سکی، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

دنیا میں جن اقوام نے ترقی کے مدارج تیزی سے طے کئے ہیں سبھی نے ہمیشہ اپنی قومی زبان کو فوقیت دی ہے۔ زندہ قوموں کی روایت ہے کہ وہ اپنے مذہب، اپنی زبان، اعلی ٰروایات اور تہذیب و ثقافت سے محبت کرتی ہے۔ تحریک پاکستان کا محرک اول اگر اسلام تھا تو محرک دوم اردو زبان تھی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا، "میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہوگی۔ دیگر دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔" جب یہ طے ہو چکا ہے تو ہمیں اپنی قومی زبان اردو میں لکھے اور بولے جانے پر شرمندگی کیوں؟اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنی زبان کی باوقار اور خوددار قومیں ہی قدر اور فخر کرتی ہیں نہ کہ ان کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر خود کو کمتر سمجھتی ہیں۔

ہماری قومی زبان اردو ہےجو کہ پورے پاکستان میں لکھی، پڑھی اور بولی جاتی ہے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق ہندی، ہندوستانی، دہلوی اور ریختہ بھی اردو کے قدیم نام ہیں اسی لئے اردو اتنی معروف اور دوسری زبانوں سے ملتی جلتی ہے کہ ہم بنگلہ دیش، انڈیا، نیپال غرضیکہ پورے برصغیر میں کہیں بھی اردو بولیں تو مخاطب کو بڑی حد تک سمجھ آجاتی ہے اور ہماری معاشرتی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں اردو بولنے والے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو زبان تیزی کے ساتھ بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے اس لئے ہمیں اپنی قومی زبان پر فخر کرنا چائیے جو کہ ہماری پہچان اور ہماری شناخت ہے۔ اردو زبان میں پوری پاکستانی قوم کی روح موجود ہے کیونکہ یہ پاکستان کے دیہاتوں اور شہروں میں وسیع پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

آج کے دور میں اپنی قومی زبان "اردو" کو زندہ رکھنے اور اسے بگڑنے سے بچانے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اس کی محبت اور عزت کا جذبہ نئی نسل کے دلوں میں پیدا کیا جائے۔ ابتدائی جماعتوں میں ہی سے اردو زبان دانی کا معیار بلند کیا جائے، اس کا شعور پیدا کیا جائے ، اردو سکھائی جائے اور اسے ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ نئی نسل کو باور کرایا جائے کہ دین اسلام کے بعد اگر کوئی چیز وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کو برقرار رکھ سکتی ہے تو وہ ہماری قومی زبان "اردو زبان" ہے۔