نوجوانوں میں بڑھتی منشیات کی لت


"پاکستان کے مستقبل کے اثاثوں کو بچانا ہوگا نوجوانوں کو نشہ سے چھٹکارا دلانا ہوگا"


موجودہ دور میں پاکستان کو جہاں معاشی بدحالی اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔وہی ایک اہم مسئلہ نوجوانوں میں بڑھتی نشہ کی لت بھی ہے۔وہ نوجوان جو آنے والے وقتوں میں پاکستان کے مستقبل کے معمار ہونگے۔ ان کی نشہ کی لت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنا بہت ضروری ہیں ۔ ہمارے ملک کے نوجوان خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو وہ کسی نہ کسی نشہ کی لت میں مبتلا ہیں ۔ عام طور پر یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ بچے وہ ہی بگڑتے ہیں جو احساس محرومی، عدم توجہی اور زیادتیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے، کلی طور پر نہیں۔ آپ کو بگڑے ہوئے بچے متوسط طبقے سے لے کر اعلیٰ طبقات ان پڑھ سے لے کر پڑھے لکھے سخت گیر گھرانوں سے لے کر نرم خو گھرانے تک دینی لا دینی، اکلوتے بہن بھائیوں والے سب ہی طرح کے لوگوں میں ملیںگے۔ نشہ کی لت میں بچے والدین کی عدم توجہ کی وجہ سے بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ والدین اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی بدلتی ہوئی حرکت پر نظر رکھنے سے قاصر ہیں تو کچھ والدین بہت زیادہ سوشل ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی سے باہر ہی نہیں نکلتے کہ وہ بچوں کو دیکھ سکے کے ان کے بچے کن سرگرمیوں میں ملوث ہیں کچھ والدین تو بچوں کو ماڈرن بنانے کے چکر میں ان نشوں کو جو وہ خود بھی کرتے ہیں ماڈرنزم کا نام دے کر بچوں کو ان نشوں کی طرف ترغیب دیتے ہیں آج کے معاشرے میں والدین کی توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھی زیادہ تر نوجوان نشہ کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جہاں تعلیمی ادارے منشیات کی آماج گاہ بن گئے ہیں وہی اچھے دوست نہ ہونے کی وجہ سے اچھے سے اچھا بچہ بھی چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان نشہ آوار سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں آج کے دور میں جہاں ماڈرنزم کی وجہ سے نشہ کو ترغیب مل رہی ہے وہی نشہ آوار سرگرمیوں میں مبتلا ہونے کی اہم وجہ ذہنی دباؤ ، غیر متوازن شخصیت اور دوستوں کا دباؤ بھی ہے ان نشہ آوار سرگرمیوں نے جہاں نوجوانوں کو نشہ جیسی لت کا عادی بنادیا ہے وہی نوجوانوں کو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں بھی ملوث کردیا ہے وہ اپنے نشہ کی لت کو پورا کرنے کے لیے اس حد تک گرجاتے ہیں کہ وہ کسی کی محنت کی کمائی باآسانی لے اڑتے ہیں تو کبھی چھوٹے چھوٹے ماسوم بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت کرنے سے بھی بعض نہیں آتے کبھی کبھی تو نشہ کی لت کو پورا کرنے کےلئے اگر ان کو پیسہ نہ دیا جائے تو یہ اپنے والدین، بہن بھائیوں کو بھی مارنے سے گریز نہیں کرتے محض تھوڑی دیر کی تسکین کے خاطر یہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان سے جوڑے کتنے رشتہ اس نشہ کی گندی لت کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں

ہمارے ملک میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، بالخصوص اس میں بڑی تعداد 21 سال سے 30 سال کے نوجوانوں کی ہے۔ منشیات میں چرس کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ لاعلمی کی بنیاد پر چرس کو ایک بے ضرر نشہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ تحقیق بتاتی ہے کہ 90 فیصد لوگوں نے نشے کا آغاز چرس سے کیا ہوتا ہے۔چرس کے استعمال سے انسان کی منطقی سوچ متاثر ہوتی ہے، جس سے انسان سیکھنے اور مسائل کے حل کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ 21 سال سے 30 سال کی عمر میں نوجوان جب چرس کا نشہ کرتے ہیں تو ان میں سیکھنے اور مسائل کے حل کی صلاحیت نہ صرف ختم ہوجاتی ہے بلکہ اسے دوسرے جسمانی امراض میں مبتلا کردیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عمر کا یہی حصہ سیکھنے کے عمل میں زیادہ اہم ہے

اگر بات کریں کراچی جیسے بڑے شہر کی تو آپ کو اکثر فلائی اوورز کے نیچے، تین ہٹی کے علاقے، صدر ، لیاری ندی کے کناروں پر اور بعض علاقوں کے میدانوں میں لوگ سر پر چادر اوڑھے دھواں پھونکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان کے کپڑے میلے کچیلے اور بال مٹی اور دھول سے اٹے ہوتے ہیں۔

منشیات کے عادی ان افراد کے حلیے اور ٹھکانوں سے تو اکثر لوگ باخبر اور واقف ہیں لیکن شہر کے پوش علاقوں میں شیشہ کیفے اور اعلیٰ درس گاہوں کے ذریعے سے بھی نوجوانوں کو نشہ کا عادی بنایا جارہا ہے امیر طبقے کے نوجوان بھی منشیات میں مبتلا ہو رہے ہیں، جس سے والدین اور متعلقہ محکمہ لاعلم رہتے ہیں

نشہ کی ایک شکل چرس،اورشراب ہے جس کے عادی بڑی تعدادمیں چہاروں جانب موجود ہیں وہیں دوسری شکلوں میں گٹکہ ماوا ،اور شراب نوشی میں مبتلا افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔نشہ کی ایک اوربھیانک شکل گٹکہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں ہر عام و خاص کے درمیان گٹکہ کی وبا عام ہوئی ہے۔یہاں تک کہ کم عمر بچوں کو بھی گٹکہ چباتے دیکھا جا رہا ہے ۔نوجوانوں میں فروغ پانے والی منشیات میں گٹکہ اور ماوا ، شیشہ ، چرس ، ہیروئن، نیکوٹین ، کرسٹل، شراب وغیرہ شامل ہیں جو کہ کھلے عام کراچی کی بازاروں میں فروخت بھی ہورہا ہیں۔ ضلعی انتظامیہ ان تمام مافیا کے سامنے بے بس نظر آتی دکھائ دے رہی ہے اور کسی بھی قسم کے اقدام اٹھانے سے آنکھیں کبوتر کے مانند بند کردیتی ہے نشے کے اس رجحان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہلک اثرات پڑھ رہے ہیں وہیں ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ منشیات کے استعمال کے باعث عموماً دیکھا گیا ہے کہ طلبہ کی ذہنی صلاحتیں بالخصوص یادداشت بہت زیادہ متاثر ہورہی ہے۔

شہر میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مراکز میں ان دنوں ایک نئے نشے کے عادی نوجوانوں کو لایا جا رہا ہے، جسے کرسٹل میتھ کہا جاتا ہے۔ اس کا شکار عموماً نجی تعلیمی اداروں اور امیر گھرانوں کے نوجوان بن رہے ہیں۔

میرے ایک دوست کی سبق آموز کہانی میں اس کی اجازت سے فرضی نام کے ذریعے آپ سب کے گوش گزار کرنا چاہونگی۔ ولید اپنے دوستوں کی وجہ سے کرسٹل کے نشہ کا عادی بن گیا تھا

’یونیورسٹی میں داخلہ ہوا وہاں ایک نیا ماحول تھا، میرے کلاس فیلوز کوئی چیز استعمال کرتے تھے۔ ان سے جب میری دوستی ہوئی تو انھوں نے آہستہ آہستہ مجھے اس کے استعمال کے لیے آمادہ کر لیا۔ جیسے جیسے میں نے وہ چیز استعمال کی تو میں نے ذہنی اور جسمانی طور پر خود کو کافی بہتر محسوس پایا اور میں اس کا عادی ہونے لگا بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ تو کرسٹل ہے۔ جب میں یہ استعمال نہیں کرتا تھا تو مجھے سکون نہیں آتا تھا۔‘

نشے کے عادی افراد کی بحالی کا عمل اتنا آسان نہیں

ولید کو اہل خانہ بحالی مرکز میں لے تو آئے ہیں، لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔

ولید کے مطابق جب گھر والوں کو پتہ چلا تو انھوں نے مجھے علاج کرانے کے لیے کہا لیکن میں نے انکار کر دیا کیونکہ کرسٹل کے استعمال سے مجھے راحت ملتی تھی۔ لیکن گھر والے بضد رہے اور ایک روز بہانے سے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے آئے جہاں ڈاکٹر نے مجھے علاج پر قائل کر لیا۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کرسٹل کے مسلسل استعمال سے خوشی اور مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور کسی توانائی کے مشروب کی طرح طاقت محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ کیفیت تھوڑی دیر ہی برقرار رہتی ہے۔

منشیات کے استعمال کی بڑھتی ہوئی اس وبا کے آگے بند باندھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گھر کے نوجوانوں سے کام شروع کیا جائے۔ والدین کو خود منشیات کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے تاکہ بچے اس مہلک قسم کی عادت میں مبتلا نہ ہوں۔ دوسرا یہ کہ تعلیمی اداروں اور دفتروں میں منشیات کے منفی پہلوؤ ں سے متعلق آگاہی کا انتظام کیا جائے۔اب وقت آ چکا ہے کہ عوام اور ارباب اختیار انسداد منشیات کے لئے غیر لکچدار اور سخت گیر موقف اختیار کریں۔ منشیات کی لت کو روکنے کے لئے ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبہ بندی ان مخصوص منشیات کی نشاندہی کرے جو نوجوان زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس منصوبہ بندی کی بنیاد انسداد منشیات سے متعلق دستیاب وسائل اور تحقیقات پر ہونا چاہیے

بحثیت نوجوان میری والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور ان پر نظر رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ میری حکمائے بالا سے یہ گزارش ہے کہ نشہ کے استعمال کی روک تھام کے لیے بہتر سے بہترین اقدامات کیے جائیں اس کی روک تھام کے لیے سوشل میڈیا ، ٹی وی اور اخبارات میں اشتہارات نشر کیے جائیں اور ان نوجوانوں کی اس لت کو چھڑوانے کے لیے سیمینار منعقد کروائیں جائیں اور والدین کی آگاہی کے لیے بھی پروگرام تشکیل دیا جائے اور معاشرے کی فلاح اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے اس اثاثہ کو بچایا جائے ۔

پالیسی ساز اداروں کو منشیات کے خاتمے کے لیے سخت ترین قوانین بنانے ہونگے اور ان پر عمل کرنا ہوگا۔ یاد رکھیے ہماری نوجوان نسل ہی ہمارے مستقبل کا اثاثہ ہے۔ ہمیں اپنی بقا کے لیے قیمتی اثاثے کو بچانا ہوگا، اسی میں ہماری خوشحالی اور ترقی کا راز ہے۔
 

Taba sagheer
About the Author: Taba sagheer Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.