|
|
ایسا لگتا ہے ڈرامہ انڈسٹری ریٹنگ کے چکر میں ساری حدود
و قیود فراموش کرچکی ہے۔ مغرب اور بھارت کی اندھی تقلید میں پاکستانی شوبز
انڈسٹری لباس کے معاملے میں تو “روشن خیال“ ہو ہی چکی تھی البتہ اب بنیادی
اخلاقیات کا بھی بیڑا غرق کرنے پر تل گئی ہے۔ مشہور ڈرامہ سیریل “خدا اور
محبت“ کی کہانی اگرچہ اچھی ہے لیکن اس کی گزشتہ کچھ اقساط میں ایسے مناظر
دکھائے گئے ہیں جن پر لوگوں نے سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ اور انھیں مناظر پر
ہم آج اس آرٹیکل میں بات کریں گے |
|
کسی کے کمرے میں جانا
غیر اخلاقی حرکت ہے |
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ اقراء عزیز جو کہ ماہی کا
کردار ادا کررہی ہیں شوہر کے مرنے کے بعد عدت میں ہیں۔ یوں تو عدت کے بعد
اقراء کے تمام سین ہی نا محرم کے ساتھ شوٹ کیے گئے ہیں جبکہ عدت کی اصل شرط
ہی یہی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے بیوہ یا متعلقہ دورانِ عدت نامحرم کے سامنے
نہیں جاسکتی۔ خدا اور محبت کی قسط نمبر 19 میں دکھایا گیا ہے کہ ماہی اپنے
جیٹھ کے کمرے میں ملازمہ کے ساتھ گفتگو کررہی ہے۔
Something Haute نامی پروگرام میں ڈراموں کے تجزیہ نگار “حسن چوہدری“ اس
منظر پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کسی عدت میں ہونے والی خاتون کا اپنے جیٹھ کے
کمرے میں جانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟ |
|
|
|
ہاتھ پکڑنا |
اسی سین کا اگلا منظر پہلے والے سے بھی زیادہ بے تکا
معلوم ہوتا ہے جس میں ماہی کے ہاتھ سے اپنی مرحومہ جیٹھانی کی تصویر کا
فریم ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔ ملازمہ کی موجودگی میں بھی ماہی صاحبہ فریم کا
کرچی کرچی ہوا کانچ خود اٹھانے لگتی ہیں وہ بھی ہاتھ سے۔ اور جب ان کا ہاتھ
زخمی ہوجاتا ہے تو ماہی کا جیٹھ (جنید خان) آکر ان کا زخمی ہاتھ پکڑ لیتا
ہے جبکہ ایک بیوہ خاتون کا ہاتھ پکڑنا تو دور اس کی طرف نامحرم کی نظر پڑنا
بھی درست نہیں |
|
|
|
ریٹنگ کے علاوہ کہانی پر
بھی توجہ دیں |
ڈرامہ دیکھنے والا کوئی بھی ذی ہوش اس بات کو سمجھ سکتا
ہے کہ یہ دونوں مناظر کتنے غیر ضروری اور بے تکے تھے۔ اصل زندگی میں ملازمہ
کی موجودگی میں نا ہی کوئی کانچ ے ٹکڑے اٹھانے کی حماقت کرتا ہے اور نا ہی
عدت میں بیٹھی خاتون کا ہاتھ کوئی نامحرم پکڑ سکتا ہے۔ بہتر ہوگا ڈرامہ
نگار اور چینلز صرف مرچ مصالحہ لگا کر ریٹنگ اکھٹی کرنے کے بجائے کہانی
بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کریں |
|