گزشتہ دنوں ایک بیس سالہ کینیڈین نوجوان ڈرائیورنے
مسلمانوں سے شدید نفرت میں چار پاکستانی شہریوں پر اپنی گاڑی چڑھا دی ، یہ
خوفناک حادثہ درحقیقت حادثہ نہیں بلکہ اسلامو فوبیا، مسلمانوں سے حد درجہ
نفرت کا شاخسانہ تھا اس کینیڈین نوجوان نے اپنے ہر بیان میں کہا کہ اس کو
مسلمانوں سے نفرت ہے میں نے جان بوجھ کر پاکستانی فیملی پر اپنی گاڑی چڑھا
ئی، اس دہشت گردی کے نتیجہ میں چار پاکستانی شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
اور ایک کمسن بچہ شدید زخمی ہوگیاپاکستانی خاندان کے شہید ہونے والے چار
افراد میں بچوں کی دادی بھی شامل تھی،بیس سالہ کینیڈین نوجوان کو اپنے اس
فعل پر کوئی افسوس نہیں ہوا ، پولیس زرائع کے مطابق حادثہ سے تقریباً بیس
کلومیٹر دور ایک مال پر پارکنگ میں اس نوجوان نے اپنی گاڑی کھڑی کی اور
وہاں موجود لوگوں سے ہنس کر کہا کہ کوئی پولیس کو فون کر دے میں ابھی کچھ
لوگوں کو ہلاک کر کے آیا ہوں، اخبارکی خبر کے مطابق حادثہ کی اطلاع ملتے ہی
سب سے پہلے شہر کا میئر، پولیس چیف اور متعلقہ ادارے جائے وقوع پر پہنچ گئے
پھر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے فوری بیان میں کہا کہ کینیڈا
میں اسلامو فوبیا، نفرت یا تعصب کے لئے کوئی جگہ نہیں،کینیڈا کی انسان حقوق
کی تنظیم نے اپنے طور پر متاثرہ خاندان کے لئے چندہ کی اپیل کی اور بتایا
جاتا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں تنظیم کے پاس ڈیڑھ کروڑ کے قریب کینیڈین ڈالر
جمع ہوگئے، وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت
کرتے ہوئے کہا کہ تمام مہذب دنیا کو اسلامو فوبیا کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد
کرنا چاہئے یہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ
ہے،کینیڈا کے شہریوں نے بھی اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیا سانچ کے قارئین
کرام ! آپ بخوبی جانتے ہونگے نیوزی لینڈ میں15 مارچ 2019 کو کرائسٹ چرچ میں
نماز جمعہ کے دوران ایک شہری ٹیرینٹ نے نمازیوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے
50سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا اس نے خونریزی کے اس واقعے کو فیس
بک پر لائیو نشر بھی کیا تھاحملے کے 36 منٹ بعد اسے حراست میں لے لیا گیا
تھااس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب، انڈونیشیا
اور ملائشیا کے شہریوں کے علاوہ مقامی نو مسلم شہری بھی شامل تھے اس حملے
کی ساری دنیا میں شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی، برینٹن ٹیرینٹ اسلامو
فوبیا کا شکار تھا ، نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈ ا آرڈین نے اس واقعہ کے
فوراََ بعد مسجد جاکر اور متاثرہ مسلمان فیملیوں سے اظہار تعزیت کرنے کے
ساتھ اسلاموفوبیا کی ملک میں کوئی جگہ نہ ہے کا بیان بھی دیا ، سانچ کے
قارئین کرام ! اگر اسلامی ریاست کی بات کی جائے تو اسلامی ریاست میں ہر فرد
کو خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہو ،بلاتفریق عقیدے اور مذہبی معاملات
میں پوری طرح آزادی حاصل ہوتی ہے اُن پر مذہبی معاملات میں کسی قسم کا کوئی
جبر و زبردستی نہیں کی جاسکتی اس حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دین کے
بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں(سورۃ البقرہ)،دین اسلام کی تعلیمات کے
مطابق دین کے قبول کرنے میں یا کسی دین کو رد کرنے میں کسی کو مجبور نہیں
کیا جاسکتا،حضرت محمد ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور عہد خلافتِ راشدہ میں کوئی ایسی
مثال نہیں ملتی، جس سے یہ ثابت ہو کہ اسلام کی تبلیغ میں زور، جبر، زبردستی
یا تشدد کا استعمال ہوا ہو، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ دین کے
بارے میں کسی قسم کا جبر نہیں،اس کی وضاحت اس طرح بھی کی گئی ہے:(ترجمہ)اگر
تیرا پروردگار چاہتا کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو زمین کے سب لوگ ایمان لے
آتے،تو کیا اے پیغمبر،آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ ایمان لے
آئیں‘‘(سورہ یونس:۱۰۰)،اسلام ایک ایسا دین ہے جو کسی بھی مذہب کو بری نگاہ
سے نہیں دیکھتا، بلکہ تمام آسمانی مذاہب کی تصدیق کرتا اور ان کے پیروکاروں
کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں، یہودیت اور عیسائیت
کی طرح وہ اپنا دروازہ ہدایت کے لیے بند نہیں کرتا، حضرت محمدﷺ اور خلفائے
راشدین نے مختلف اقوام سے جو معاہدے کیے اور ان کے ساتھ جو صلح نامے کئے ،ان
میں اسلام کی وسعت نظری اور دریادلی کا ثبوت ملتا ہے،سانچ کے قارئین کرام !اسلامو
فوبیا جس کی بنا پر یورپ اور دیگر ممالک میں مسلمانوں سے ہتک آمیز سلوک روا
رکھا جارہا ہے وہ ہے کیا ؟اسلاموفوبیا لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ’’فوبیا‘‘
(یعنی ڈر جانا) کا مجموعہ ہے اس سے غیر مسلم ’ اسلامی تہذیب سے ڈرنا‘ اور ’
مسلم گروہ سے ڈرنا ‘ مطلب لیتے ہیں غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بڑھکایا
جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہوتا ہے اس کو
اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے، 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے
بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہورہا ہے،جوکہ انتہائی تکلیف دہ ہے ، دین
اسلام کی تعلیمات ہیں کہ مسلمان دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے ساتھ مساوات،
ہمدردی، غم خواری ورواداری کا معاملہ کریں، جبکہ یورپ اور امریکہ میں
اسلاموفوبیا کی لہر دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے ، ہمسایہ ملک بھارت میں بھی
مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک انتہائی تکلیف دہ ہے خاص طور پر
مقبوضہ وادی کشمیر کے مسلمانوں اور بھارت کے دیگر چند صوبوں میں مسلمانوں
کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے ، ’ساوتھ ایشین وائر‘کی رپورٹ کے
مطابق بھارت میں ہندو انتہاپسند جماعتیں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور
ان کے خلاف منافرت آمیز مواد کے فروغ کے لئے فیس بک پر منظم انداز میں مہم
چلارہی ہیں۔مشہور امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ
لیب کے مطابق ہندو جنجاگرتی سمیتی (ایچ جے ایس)، سناتن سنستھا(ایس ایس)کی
ذیلی تنظیم ہے۔جوہندوستان میں مقیم ایک بین الاقوامی متشدد اور دائیں بازو
کی مذہبی قوم پرست مذہبی جماعت ہے۔ ڈیجیٹل فارنسک لیب دنیا بھر میں جھوٹ
اور غلط معلومات کا پھیلا ؤروکنے پر کام کرتی ہے۔ڈی ایف آر لیب کے مطابق اس
گروپ نے فیس بک پر کم از کم 46 پیجز اور 75 گروپوں پر مشتمل ایک نیٹ ورک
تیار کیا ہے جس کا مقصد بھارت کی مذہبی اقلیتی آبادیوں کو نشانہ بنانے والے
دشمن بیانئے کا فروغ ہے۔9.8 ملین فیس بک استعمال کرنے والوں کی ممکنہ تعداد
کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، تنظیم نے بھارت کی مذہبی اقلیتوں کو بدظن کرنے کے
لئے تحریری پوسٹس ، پیشہ ورانہ طور پر ترمیم شدہ گرافکس ، اور دائیں بازو
اور ریاست سے وابستہ ذرائع ابلاغ کے ویڈیو تراشے شائع کیے ہیں اور ہندوستان
کی اکثریتی ہندوبرادری میں اقلیتوں کے حوالے سے خوف اور غلط فہمیوں کو جنم
دیا ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق اس وقت تک 46 فیس بک پیجز میں سے 35 کو
فیس بک کے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا گیا ہے ، جبکہ ابھی بھی تمام 75 گروپس
سرگرم عمل ہیں٭
|