اَقوامِ عالَم کی سَرکَشی اور سَر کُشی !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالحج ،
اٰیت 42 تا 48 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ان یکذبوک
فقد کذبت قبلھم
قوم نوح وعاد وثمود 42
وقوم ابرٰھیم وقوم لوط 43 واصحٰب
مدین وکذب موسٰی فاملیت للکٰفرین ثم اخذتھم
فکیف کان نکیر 44 فکاین من قریة اھلکنٰہا وھی ظالمة فہی
خاویة علٰے عروشہا وبئر معطلة وقصر مشید 45 افلم یسیروافی الارض
فتکون لھم قلوب یعقلون بھااواٰذان یسمعون بھا فانھالاتعمی الابصار ولٰکن
تعمی
القلوب التی فی الصدور 46 ویستعجلونک بالعذاب ولن یخلف اللہ وعده وان یوما
عند ربک
کالف سنة مما تعدون 47 وکاین من قریة املیت لھا وھی ظالمة ثم اخذتھا والی
المصیر 48
اے ھمارے رسُول ! اگر آپ کی قوم کے لوگ آپ کی تکذیب کر رھے ہیں تو یہ حیرت
کی بات نہیں ھے اور اگر آپ کی قوم کے مزید لوگ آپ کی مزید تکذیب کریں گے تو
پھر بھی حیرت کی بات نہیں ہو گی کیونکہ اِس سے پیشتر قومِ نُوح و قومِ عاد
اور قومِ ثمود بھی اپنے نبیوں کی تکذیب کر چکی ھے اور اُس سے پیشتر قومِ
ابراھیم و قومِ لوط بھی اپنے نبیوں کی تکذیب کر چکی ھے اور اِن ہی قوموں کی
طرح اصحابِ مَدین نے شعیب اور اَصحابِ مصر نے مُوسٰی کی تکذیب کی ھے اور
اِن سب قوموں کی تکذیبِ نبوت کے باوجُود بھی ھم نے اِن سب قوموں کو سوچنے
کی مُہلت ، سمجھنے کی مُہلت اور سنبھلنے کی بھی ایک مُہلت دی ھے لیکن جب وہ
سب قومیں ھماری اِس مُہلت بخشی کی مُدت میں بھی سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے
کے لیۓ آمادہ نہیں ہوئی ہیں تو پھر ھم نے اُن کو اُن کے اُس زمانہِ غفلت کے
دوران اَچانک ہی اپنی پکڑ میں جکڑ لیا ھے ، دیکھنے والے دیکھ لیں کہ جن
معصیت کار بستیوں کو ھم نے تہہ و بالا کیا ھے اُن کی چَھتیں اُن بستیوں پر
اُلٹی پڑی ہوئ ہیں ، اُن کے خُشک کوئیں سُنسان ہو چکے ہیں اور اُن کے خالی
محل بھی ویران ہو چکے ہیں ، کیا آپ کی بستی کے اِن مُنکر مکینوں نے تباہ
ہونے والی اُن زمینوں میں چل پھرکر اُن بستیوں کا اور اُن بستیوں میں بسنے
والوں کی تباہی کا مُشاھدہ نہیں کیا ھے کہ اِن کے دل اُس تباہی کے فہم آثار
ہو جاتے اور اِن کے کان بھی اُن کی آہ و بکا کے سماعت کار ہوجاتے لیکن اَصل
حقیقت تو یہ ھے کہ حق کو قبول کرنے کے وقت پر حق سے گریز کرنے والے اِن
انسانوں کی صورتوں پر سَجی ہوئی دیکھتی آنکھیں ہی اَندھی نہیں ہوجاتیں بلکہ
اِن کے سینوں میں چُھپے ہوۓ دَھڑکتے دل بھی اَندھے ہو جاتے ہیں ، آپ کی قوم
کے یہ سر کش لوگ اللہ کی جس بڑی سزا کے لیۓ ابھی سے مَچل رھے ہیں اُس سزا
کا دن تو ضرور آۓ گا لیکن وہ دن اِن کی خواہش پر نہیں آۓ گا بلکہ اُس وقت
پر آۓ گا جو وقت اللہ تعالٰی نے اُس کے آنے کے لیۓ مقرر کیا ہوا ھے اور
اللہ تعالٰی نے اُس کے آنے کے لیۓ جو وقت مقرر کیا ہوا ھے اُس کا نظام
الاوقات تُمہارے نظام الاوقات سے اتنا مُختلف ھے کہ تُمہارے نظام الاوقات
میں ایک ہزار برس کی جو طویل مُدت ہوتی ھے وہ مُدت اللہ تعالٰی کے اُس نظام
الاَوقات کے صرف ایک دن کے برابر ہی ہو تی ھے اور جہاں تک اہل زمین پر اسی
زمین میں آنے والے کسی عذاب کا تعلق ھے تو اُس عذاب کے لانے سے پہلے بھی ھم
انسان کو سنبھلنے کے لیۓ مُہلت دیتے ہیں اور جب وہ مُہلت ختم ہوجاتی ھے تو
پھر ھم اُس کو پکڑ لیتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ اٰیات کا مُنتہاۓ کلام اللہ تعالٰی کے اِس ارشاد پر مُنتہا ہوا تھا
کہ جب کبھی بھی ھم اپنے اِس عالَم میں اپنے اِس عالَم کے کم زور لوگوں کو
اپنی طاقت اور اپنی لیاقت کا حامل بناتے ہیں تو ھماری طاقت و لیاقت کے حامل
یہ لوگ انسانی معاشرے میں انصاف قائم کرنے کے لیۓ انسانی معاشرے میں خیر کی
ترویج اور شر کی بیخ کنی کر کے انسانی معاشرے کو ایک پاکیزہ انسانی معاشرہ
بنانے کوشش میں لگے رہتے ہیں لیکن اِس معاشرتی انقلاب میں اُن اَعلٰی
انسانوں کی ذمہ داری اُن کی ایک اَعلٰی کوشش ہی ہوتی ھے جو اُن کو بہر حال
تاحیات کرنی چاہیۓ لیکن جہاں تک اُن کی کوشش سے بر پا ہونے والے اِس
معاشرتی انقلاب کی ایک نتیجہ خیز تکمیل کا تعلق ھے تو اِس کے اعلٰی نتائج
اُن کی وہ نسلی میراث ہوتے ہیں جو اُن کی آنے والی نسلوں پر ظاہر ہوتے رہتے
ہیں اور اُن کی نسلوں میں اِن نتائج کے ظہور کا دار و مدار اللہ تعالٰی کی
اُس حکمت و مصلحت پر ہوتا ھے کہ وہ اِس عالَم میں کس وقت اِس عالَم کی کس
قوم کے اَعلٰی اعمال کے صلے میں اُس کو پستی سے اُٹھاتا ھے اور اِس عالَم
میں کس وقت وہ اِس عالَم کی کس قوم کے بُرے اعمال کے بدلے میں اُس قوم کو
پستی میں گراتا ھے تاہَم اللہ تعالٰی کے ہر نبی اور ہر رسُول نے ہر زمانے
میں انسان کو یہ بتایا ھے کہ انسان کے مُثبت اعمال اپنے مُثبت نتیجے کے طور
پر انسان پر ایک مُثبت مُستقبل لاتے ہیں اور انسان کے مَنفی اعمال اپنے
مَنفی نتیجے کے طور پر انسان پر ایک مَنفی مُستقبل لے کر آتے ہیں اِس لیۓ
انسان کی آسانی کے لیۓ اللہ تعالٰی نے قُرآن کا سارا موضوعِ سخن "الدنیا"
اور "الاٰخرة" کے ایک مُحدُود علمی دائرے میں محدُود کر دیا ہوا ھے اور
انسان کو اِس محدُود علمی دائرے میں رَکھ کر یہ تعلیم دی جاتی ھے کہ انسان
ایک دُنیا سے اِس دُنیا میں آیا ھے اور ایک دُنیا میں جانے کے لیۓ اِس
دُنیا میں آیا ھے اور انسان اُس پہلی دُنیا سے اِس دُوسری دُنیا میں اِس
لیۓ آیا ھے تاکہ وہ اِس دُوسری دُنیا سے گزر کر اُس تیسری دُنیا میں جا سکے
جو اللہ تعالٰی نے اِس کے دائمی راحت و سکون کے لیۓ بنائی ھے ، جو انسان
اِس دُنیا میں اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق زندگی بسر کرتا ھے تو
وہ اِس دُنیا میں موت کا جامِ حیات پیتے ہی اُس تیسری دُنیا میں داخل کر
دیا جاتا ھے جس دُنیا میں انسان کے لیۓ ایک دائمی راحت و سکون ھے اور جو
انسان اِس دُنیا میں اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق زندگی نہیں
گزارتا تو وہ اِس دُنیا میں موت کا گُھونٹ بھرتے ہی اُس دُنیا میں داخل ہو
جاتا ھے جس دُنیا میں اُس کے لیۓ ایک دائمی رَنج و درد ھے اور یہی وہ ایک
سیدھی سی بات ھے جس بات کو انسان اپنی حیات کے کسی زمانے میں کبھی بھی نہیں
سمجھا بلکہ وہ اِسی ایک بات کی بنا پر اپنے ہر زمانے کے ہر نبی اور اپنے ہر
زمانے کے ہر رسول کی تکذیب کرتا رہا ھے اور اپنے ہر نبی و رسُول سے یہ کہتا
رہا ھے کہ اگر تُم اللہ تعالٰی کے سَچے نبی اور سَچے رسُول ہو تو تُم ھم پر
اللہ تعالٰی کے اَحکام کی نافرمانی کے اُس عذاب کو اِسی دُنیا میں ھم پر لے
آؤ جس عذاب نے مرنے کے بعد ھم پر آنا ھے ، گزشتہ اٰیات کے گزشتہ سلسلہِ
کلام کے بعد موجُودہ اٰیات کے موجُودہ سلسلہِ کلام میں بھی قُرآنِ کریم نے
انسان کو "الدنیا" اور "الاٰخرة" کے اُسی علمی دائرے کے ساتھ ھم آہنگ کرتے
ہوۓ اِس سلسلہِ کلام کا یہ ماحصل بتایا ھے کہ انسان اپنے جن نبیوں اور جن
رسولوں سے قیامت سے پہلے قیامت برپا کر دینے کے جو احمقانہ مطالبے کرتا رہا
ھے اُس قیامت کو قیامت سے پہلے برپا کرنا ھمارے اُن پہلے نبیوں کے دائرہ
اختیار میں بھی نہیں تھا اور ھمارے اِس آخری نبی کے دائرہِ اختیار میں بھی
نہیں ھے اِس لیۓ تُم لوگ اُس کے لیۓ جلدی نہ مچاؤ جہاں تک دُنیا میں کسی
قوم پر آنے والے کسی عذاب کا تعلق ھے تو وہ بھی کسی قوم یا کسی قوم کے کسی
نبی کے کہنے پر نہیں آتا بلکہ وہ بھی اللہ تعالٰی کی اپنی مرضی سے آتا ھے
اور جو گزشتہ کئی اَقوام پر آیا ھے اور اللہ تعالٰی نے اپنے ہر ایک عذاب سے
پہلے زمین کی ہر ایک قوم کو سوچنے سمجھنے اور سَنبھلنے کا ایک وافر موقع
بھی دیا ھے ، جو قوم مُہلت کے اِس موقعے کے دوران بھی نہیں سمجھی اور نہیں
سَنبھلی تو اُس قوم پر آخری چارہِ کار کے طور پر اللہ تعالٰی نے اپنا عذاب
نازل کیا ھے ، زمین پر اللہ تعالٰی کی جزا و سزا کا یہی ایک طریقہ ہمیشہ سے
جاری ھے اور یہی ایک طریق ہمیشہ جاری رھے گا !!
|
|