نَقشِ عالَم اور نَقشہِ اقتدارِ عالَم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالحج ، اٰیت 39 تا41 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذن
للذین یقٰتلون
بانھم ظلموا وان اللہ
علٰی نصرھم لقدیر 39 الذین
اخرجوا من دیارھم بغیر حق الّا ان
یقولواربنا اللہ ولولادفع اللہ الناس بعضھم
ببعض لھدمت صوامع و بیع وصلوٰت ومساجد
یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا ولینصرن اللہ من ینصره
ان اللہ لقویعزیز 40 الذین ان مکنٰھم فی الارض اقاموا
الصلٰوة واٰتواالزکٰوة وامروابالمعروف ونھواعن المنکر وللہ
عاقبة الامور 41
جب عالَم کے توازن کا بگاڑ بڑھ گیا تو عالَم میں ظالم کے ظُلم سے گرے ہوۓ طبقوں کو کروٹ لے کر اُٹھنے اور ظالم کے خلاف ہَتھیار اُٹھانے کی اجازت دے دی گئی اور عالَم کے اُن مظلوم لوگوں کو خالقِ عالَم کی مدد کا یقین بھی دلا دیا گیا ، یہ وہ کم زور اور بے زور لوگ تھے جن کو انسانی معاشرے کے طاقت ور لوگوں نے صرف یہ ایک کلمہ کہنے کی پاداش میں اُن کے گھروں سے بے دخل کر دیا تھا کہ ھمارا رَب اللہ ھے ، اگر اللہ تعالٰی اپنے اِس عالَم میں اِن انسانوں کے ذریعے اِن انسانوں کی اُکھاڑ پچھاڑ کر کے اِن کو ایک دُوسرے سے دُور نہ کرتا رہتا تو اِن کی وہ خانقاہیں ، اِن کے وہ کلیسے ، اِن کے وہ کنیسے اور اِن کی وہ مسجدیں بھی اپنے وجُود سے بے وجُود ہو چکی ہوتیں جن میں کثرت کے ساتھ اللہ کا نام لیا جاتا ھے ، اِس لیۓ یہ بات طے ھے کہ اللہ تعالٰی اِس عالَم میں پہلے کی طرح آئندہ بھی اپنی زبر دست طاقت کے ساتھ اُن لوگوں کی مدد کرتا رھے گا جو لوگ اُس کے حُکم کے مطابق انسانی معاشرے کے کم زور اور بے زور لوگوں کی مدد کرتے رہیں گے ، ھم جب کبھی بھی اپنے اِس عالَم میں اِن کم زور لوگوں کو اپنی طاقت اور لیاقت کا حامل بناتے ہیں تو یہ لوگ انسانی معاشرے میں انصاف قائم کرکے ، انسانی معاشرے میں خیر کی ترویج کرکے اور انسانی معاشرے میں شر کی بیخ کنی کر کے انسانی معاشرے کو ایک پاکیزہ انسانی معاشرہ بناتے ہیں تاہم اِس معاشرتی انقلاب میں اِن کی ذمہ داری کوشش ہی ہوتی ھے جہاں تک اِس انقلاب کی تَکمیل کا تعلق ھے تو اِس کا دار و مدار اللہ تعالٰی کی اُس حکمت و مصلحت پر ھے کہ وہ اِس عالَم میں اِس عالَم کی کس قوم کو کس وقت پستی سے اُٹھاتا ھے اور اِس عالَم میں اِس عالَم کی کس قوم کو کس وقت پستی میں گراتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ رَفتہ کے مضمونِ رَفتہ اور اٰیاتِ رَواں کے مضمونِ رَواں کا موضوعِ سُخن وہی ایک ھے جس کے تحت اٰیاتِ رَفتہ میں یہ بتایا گیا تھا کہ انسان کے لیۓ اللہ تعالٰی کا قائم کیا ہوا یہ عالَمِ حرکت و عمل انسان کے کون سے مَنفی اعمال کی وجہ سے توازن سے عدمِ توازن کی طرف جاتا ھے اور انسان کے کون سے مُثبت اعمال کے باعث عدمِ توازن سے نکل کر عملِ توازن میں واپس آتا ھے ، عالَم کے توازن و عدمِ توازن کی اِس تفصیل کے بعد موجُودہ تین اٰیاتِ میں جو تین مضامین بیان ہوۓ ہیں اُن میں پہلا مضمون یہ ھے کہ عالَم میں جب عالَم کے طاقتور طبقے قانونِ قُدرت کے ساتھ بغاوت پر اُتر آتے ہیں تو عالَم عدمِ توازن کا شکار ہو جاتا ھے اور عالَم کے اِس عدمِ توازن کو عملِ توازن میں واپس لانے کے لیۓ اللہ تعالٰی اپنے عالَم کے کم زور طبقوں کو وہ ہمت و طاقت دیدیتا ھے جس ہمت و طاقت کو عالَم کے وہ کم زور طبقے برُوۓ کار لاکر عالَم کی اُن بڑی طاقتوں کو پستی کی طرف دھکیل دیتے ہیں جس کے بعد عالَم کا عدمِ توازن عملِ توازن کی طرف آنا شروع ہو جاتا ھے اور عالَم میں توازن و عدمِ توازن کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ھے ، اِس پہلی اٰیت کے اِس پہلے مضمون سے عُلماۓ روایت نے بجا طور پر مکے کے کم زور مُسلمانوں کے مکے سے نکالے جانے اور پھر ہجرت کا پہلا عشرہ مُکمل ہونے سے پہلے پہلے اُن کے فاتحانہ پیش قدمی کے ساتھ مکے میں واپس آنے کے واقعات مُراد لیۓ ہیں لیکن اٰیت کے سیاق و سباق اور مضمون کے لب و لہجے سے پڑھنے والے کو یہ محسوس ہوجاتا ھے کہ اِس آیت کے اِس مضمون سے مُراد عالَم میں پیش آنے والے وہ سارے بڑے بڑے واقعات ہیں جو عالَم میں پیش آتے رہتے ہیں اور عالَم میں پیش آنے والے اُن بڑے بڑے واقعات میں مُسلمانوں کے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کرنے اور پھر اُس ہجرت کے دوران ہی فاتحانہ طور پر مکے میں واپس آنے کا یہ بڑا واقعہ بھی شامل ھے جس کا اہل روایت نے اپنی روایات میں ذکر کیا ھے ، اٰیاتِ بالا کی اِس پہلی اٰیت کے اِس پہلے مضمون کے بعد آنے والی دُوسری اٰیت کا دُوسرا مضمون وہ ھے جس میں اللہ تعالٰی نے عالَم میں آنے والے اُس انقلاب کی وجہ بیان کی ھے جس انقلاب کے ذریعے عالَم میں عالَم کے طاقت ور طبقے کم زور اور کم زور طبقے طاقت ور بناۓ جاتے ہیں اور اِس انقلاب کی وجہ اللہ تعالٰی نے یہ بتائی ھے کہ اللہ تعالٰی اپنے اِس عالَم کو اور اِس عالَم میں اپنے نظامِ عالَم کو مُتوازن رکھنے کے لیۓ کم زور طبقوں کو اپنے مقام سے اُٹھا کر آگے لاتا رہتا ھے اور طاقت ور طبقوں کو اپنے مقام سے ہٹا کر پیچھے بھی لے جاتا رہتا ھے ، اگر اللہ تعالٰی یہ نہ کرتا تو اَب تک اِس عالَم سے اہلِ عالَم کی وہ ساری خانقاہیں ، اہل عالَم کے وہ سارے کلیسے و کنیسے اور اہلِ عالَم کی وہ ساری مساجد مُنہدم ہو چکی ہوتیں جن میں عالَم کے وہ سب لوگ جاتے رہتے ہیں اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالٰی کا ذکر بھی کرتے رہتے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی اِس اٰیت میں صوامع و بیع اور صلوٰت و مساجد کی جو چار اصطلاحات استعمال کی ہیں اُن چار اصطلاحات میں قُرآنِ کریم نے جو چوتھی اصطلاح "صلوٰت" استعمال کی ھے وہ اہلِ یہُود کے اُن قدیم عبادت خانوں کے لیۓ استعمال کی ھے جن قدیم عبادت خانوں میں وہ اپنی قومی عبادت کے ساتھ اپنے قومی فیصلے بھی کیا کرتے تھے ، اہلِ یہُود میں اپنے عبادت خانے کے لیۓ استعمال کی جانے والی یہ اصطلاحِ صلٰوة جو عھدِ قدیم سے اَقوامِ عالَم میں چلتی ہوئی ھمارے زمانے تک آئی ھے اِس کی ابتدائی صورت "صلُوتا" تھی اور صلُوتا کی یہ اصطلاح مُختلف زمان و مکان سے گزرتے ہوۓ کئی صورتوں میں بدلتے ہوۓ زمان و مکان میں ظاہر ہوتی رہی ھے ، اَقوامِ عالَم کی کسی تقریبِ مُسرت میں ایک دُوسرے کو احترام سے ملنا ، ایک دُوسرے کو خوش آمدید کہنا ، ایک دُوسرے سے ہاتھ ملانا اور ایک دُوسرے کو ملتے ہوۓ احترام سے سرخم کردینا اِس کا ایک عام استعمال ھے جب کہ اَقوامِ عالَم کی آرمڈ فور سز میں "سلُوٹ" کی صورت میں اِس کا ایک خاص استعمال بھی موجُود ھے ، رومن عھد میں جب کوئی شہری کسی فوجی جوان کو دیکھتا تھا تو وہ اُس کو کانوں تک اپنے ہاتھ اُٹھا کر سلُوٹ مارنا اسی طرح اپنا فرض سمجھتا تھا جس طرح ھماری رائج الوقت نماز کے آغاز میں بعض لوگ ایک بار کانوں تک ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور بعض نماز کے دوران بھی مُختلف مواقع پر "رفع یدین" فرماتے ہیں ، رفع یدین کی یہ روایت بھی ایک قدیم روایت ھے ، اِس روایت کے مطابق عھدِ قدیم میں جب کوئی اَجنبی شہرِ پناہ میں داخل ہوتا تھا تو دربانِ شہر کے سامنے پُہنچ کر وہ اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتا تھا اور جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا تھا کہ وہ خالی ہاتھ ھے ، امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور دُوسرے بہت سے ملکوں میں نماز کی طرح سلُوٹ کے طریقے ، سلُوٹ کے اوقات اور سلُوٹ کی شرائط بھی مُتعین ہیں اور اِس کی وہ تفصیلات ھم نے سُورةُالبقرہ کی اٰیت 153 میں بیان کردی ہیں ، اِس مقام پر اِن اٰیات کے ضمن اِس بارے میں صرف یہ بتانا مقصود ھے کہ قُرآنِ کریم نے اِس اصلاح کو اُن محدُود عدالتی حلقوں اور اُن محدُود عسکری دائروں سے نکال کر اسلامی قانون کی ایک وسیع عملداری میں شامل کر دیا ھے اور قُرآن میں صلٰوة کا یہ لفظ چونکہ دین کے پُورے قانونی سانچے اور ڈھانچے کے لیئے استعمال ہوتا ھے اِس لیۓ اِس سلسلہِ کلام کی تیسری اٰیت میں قُرآنِ کریم نے اسی قانونی پہلو سے اِس کا ذکرِ مزید کرتے ہوۓ مزید بتایا ھے کہ جب کبھی ھم اپنے غیر مُتوازن عالَم میں معاشرے کے کم زور لوگوں کو اقتدار و اختیار دیتے ہیں تو وہ اہلِ زمین کو ھمارے قانون سے مُتعارف کراتے ہیں ، وہ اہلِ معاشرہ کو قانون شکنی سے روک کر اُن کا تزکیہِ نفس و جان کرتے ہیں ، وہ انسانی معاشرے میں اَخلاقِ عالیہ کی ترویج کرتے ہیں اور اعمالِ رزیلہ کی بیخ کنی کرتے رہتے ہیں جس سے عالَمِ غیر مُتوازن ایک عملی تدریج کے ساتھ راہِ توازن پر آتا چلا جاتا ھے لیکن قُرآنِ کریم نے عالَم میں اپنے اِس قانون کو مُتعارف کرانے کے لیۓ اہلِ اقتدار کو عالَم میں قانون کا علم عام کرنے کا حُکم دیا ھے عالَم میں ظلم و تعدی یا جبر و اکراہ کی اجازت نہیں دی ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559269 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More