میلہ پادشاہان اور عباس خان

ویسے تو جب سے یہ حکومت آئی ہے اپنی قابلیت سے ہر روز میڈیا اور قوم کو روز ہی نیا موضوع فراہم کر رہی ہے اگر ان کے بارے میں یہ کہا جاے کہ اڑتے تیر کو بغل میں لینے کے یہ ماہر ہیں تو بالکل بھی بے جا نہ ہو گا ایک طرف پرانے منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں لگا کر جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں تو کبھی اپنی ہی کہی ہوئی باتوں سے سر مو منحرف ہو جاتے ہیں یو ٹرن کی اصطلاح ان سے قبل صرف سڑک پر جاتے ہوئے واپس مڑنے کے لیے ہی استعمال ہوتی تھی مگر اب لگتا ہے کہ ہر یوٹرن پر میرے کپتان کی تصویر لگا دی جاے تو کوئی زیادہ حیرانی نہیں ہو گی جس طرح ڈیزل کا ذکر آتے ہی دھیان فورا ہی مولانا فضل صاحب کی طرف چلا جاتا ہے حالانکہ کئی بار آپ نہیں چاہتے پھر بھی کمشن اور کک بیکس کا ذکر ہو تو زرداری صاحب جبکہ پانامہ اور اقامہ میاں صاحبان کی چھیڑ ہی بن چکا ہے اسی طرح یو ٹرن تبدیلی سرکار اگلا انتخابی نشان ہو سکتا ہے چکوال میں صورتحال اس لحاظ سے کچھ عجیب ہے کہ یہاں پارٹی کے اندر ہی اکثر معرکہ برپا رہتا ہے اور یار لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہمہ وقت برسرپیکار رہتے ہیں اس چومکھی لڑائی سے تنگ آکر ضلع بھر میں سب سے معتبر اور قابل ذکر ووٹ بنک رکھنے والی شخصیت سردار غلام عباس نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کی کشتی سے چھلانگ لگا دی اور ایک بار پھر نئے جوش و ولولے کیساتھ نئی پارٹی کی تلاش بھی شروع کر رکھی ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ اب کی بار ایک بار پھر میاں صاحبان کی محبت انہیں بے قرار کیے ہوے ہے جنہیں موصوف دو سال قبل غدار سیکورٹی رسک اور نجانے کیا کچھ کہہ چکے ہیں تاہم اس سب کے باوجود ان کا ووٹ بنک بڑی حد تک نہ صرف قائم ہے بلکہ حالیہ دنوں میں میلہ پادشاہان کے انعقاد میں رکاوٹ اور پھر منعقد ہوجانے پر سردار عباس کے گروپ کے لوگوں کی سردار عباس کے ساتھ لازوال اور انمٹ کمٹمنٹ پھر سے تازہ ہو گئی بلکہ اگر یوں کہا جاے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس میلے میں خواہ مخواہ رکاوٹیں ڈال کر بے وقوف مہربانوں نے سردار عباس کو نہ صرف ہیرو بنا دیا ساتھ ہی ان کے ووٹرز اور سپورٹرز کا مورال بھی فی آلحال آسمانوں کو چھو رہا ہے.یہ میلہ جو صدیوں سے یہیں پر لگ رہا ہے پچھلے سال کرونا کی وجہ سے کینسل کر دیا گیا اب کی بار بھی یہی کوشش کی گئی وجہ اس کی شاید یہی ہے کہ اس میلے کے منتظمین کا تعلق سردار غلام عباس سے ہے اور حکومتی ایم این اے اور دیگر زعما ضلعی انتظامیہ جن کے کنٹرول میں ہے نہیں چاہتے تھے کہ سردار غلام عباس گروپ کے لوگوں کو یوں اپنی طاقت دکھانے کا موقع ملے کیوں کہ ایسے میلے جو چکوال کے اکثر علاقوں میں سارا سال کسی نہ کسی تہوار پر منعقد ہوتے رہتے ہیں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوتی ہے جن میں کثیر تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جن کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا مگر میلے میں وہ بھرپور شرکت کرتے ہیں اس لحاظ سے اینٹی سردار قوتوں کو خدشہ تھا کہ یہ میلہ لگا تو سارے کا سارا میلہ سردار عباس نے لوٹ لینا ہے اور یہ خدشہ کچھ زیادہ غلط تھا بھی نہیں کہ بعد میں یہی کچھ ہوا ،تاہم بے وقوفی انیٹی سردار فیکٹر سے یہ ہوئی کہ بجاے وہ خود اس میں شامل ہو جاتے منتظمین سے مل کر لوگوں کو تفریح سے محروم رکھنے کی کوشش نہ کرتے بلکہ معاون ثابت ہوتے تو کام آسان رہتا مگر طاقت کا نشہ کب کسی کو ہوش لینے دیتا ہے فی الفور انتظامی افسران کو حکم جاری کر دیا گیا کہ نہ لوگوں کو اکٹھے ہونے دینا ہے نہ ہی میلہ لگنے دینا ہے سردار عباس کی وجہ سے ایک حکومتی ایم این اے جو اپنیـ: اخلاق حسنہ: کی وجہ سے علاقہ بھر میں مشہورہیں سارے معاملے میں پیش پیش تھے.لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی روایتی کوشش شروع ہوئی لیکن لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ الٹا اس دھونس دھمکی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور سردار گروپ کے لوگ ڈٹ گئے کہ خواہ کچھ بھی ہو جاے یہ میلہ منعقدہو گا اور ضرور ہو گا.اس سلسلے میں جہاں سردار عباس نے دلیری کا مظاہرہ کیا وہیں میلے کے منتظمین چوہدری سرفراز اور چوہدری شیراز ہڈالہ بھی کھل کر میدان مں آگئے کہ خواہ کچھ بھی ہو جاے میلہ ضرورمنعقد ہو گا اس سلسلے میں عدالت عالیہ میں رٹ بھی دائر کی گئی جو اسی روز خارج ہو گئی اس کے باوجود منتظمین اور اہلیان علاقہ اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے پہلے روز جب کبڈی کے میدان پر پولیس نے قبضہ کر لیا تو عین وقت پر کبڈی کی جگہ تبدیل کر کے کبڈی میچ منعقد کرا لیا گیا اور پولیس دیکھتی رہ گئی اگلے دن میلے کا مین ایونٹ بیلوں کا جلسہ اور کراہ تھا جس کا اعلان وہیں پہ کر دیا گیا کہ ضرور ہو گا یہ اعلان کر کے نہ صرف ضلعی انتظامیہ بلکہ دیگر حکومتی و سیاسی شخصیات کو بھی چیلنج کر دیا گیا اس اعلان کے بعد انتظامیہ فوری حرکت میں آئی اور رات کو میلے کے دو سب سے اہم افراد جو یہ میلہ منعقد کروا رہے تھے یعنی چوہدری سرفراز اور چوہدری شیراز ہڈالہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور پادشاہان جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی ساتھ ہی حسب معمول عجیب و غریب اعلان بھی سننے کو ملا کہ نہ صرف میلے میں شرکت کرنے والے بیل مالکان بلکہ ان کے بیل بھی گرفتار کر لیے جائیں گے یہاں پر سردار عباس نے انٹری ماری اور اگلے دن صبح سویرے چوہدری سرفراز کے ڈیرے پر پہنچ گئے لوگ جو چوہدری سرفراز کی وجہ سے نیم دلے تھے سردار عباس کو دیکھتے ہی گویا جوش و خروش کا طوفان آ گیا سردار گروپ کے لوگ ضلع بھر سے پہنچنا شروع ہوے اور میلہ پورے طمطراق سے منعقد ہوا جس کے بعد ضلعی افسران اور دیگر حکومتی شخصیات ابھی تک منہ چھپاتی پھر رہی ہیں جن دو افسران سے ہماری بات ہوئی بغلیں جھانکتے ہوے ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے تو لوگوں کو کرونا سے بچانے کی کوشش کی اگر یہ اپنے دشمن آپ ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں جب پوچھا کہ جناب جھامرہ اور تلہ گنگ میلوں میں یہ کرونا صاحب کدھر تھے تو کوئی جواب ان کے پاس نہیں تھا اس سارے معاملے میں جہاں حکومتی ایم این اے کا کردار انتہائی شرمناک تھا وہیں ایم پی اے اور منسٹر یا سر سرفراز کا کردار بہت ہی زیادہ قابل ستائش تھا اور ایسے ہی کردار کی عام لوگ تحریک انصاف کی حکومت سے توقع بھی رکھتے ہیں.میلے ٹھیلے چکوال کی روایت اور ثقافت ہیں ٹینشن اور پریشانی کے دور میں لوگوں کی ایک بڑی تفریح کا ذریعہ ہیں ان میں اگر کوئی خلاف قانون و شرع کام نہ ہو تو لوگوں کو اکٹھے ہونے اورمن بہلانے کا بہترین موقع ملتا ہے حیرت ہے کہ حکومتی سیاسی شخصیات محض اپنے تھوڑے سے سیاسی مفاد کی خاطر عوام کے سامنے کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں،اس میلے نے کس کا کمبل چرایا یہ تو آنے والا وقت ہی بتاے گا لیکن سردار غلام عباس سارا میلہ لوٹ لے جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو ان کے امخالفین کے لیے یقینان شرمندگی اور پریشانی کا باعث ہے کہ سردار عباس اس وقت جارحانہ موڈ میں ہیں اور کچھ بھی ہو ضلع بھر میں تاحال سب سے زیادہ اور مظبوط ووٹ بنک رکھنے والی واحد شخصیت سردار عباس ہی ہیں اور حالیہ میلہ پادشاہان سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی ہے کہ سردار عباس کے جان نثار انکے لیے کسی بھی وقت کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں ،،،،،،