یو ٹیوب پر پاک و ہند اور دوبئی وغیرہ میں ہونے والے
مشاعروں کی ان گنت وڈیوز موجود ہیں ۔ ایک بات آپ نے نوٹ کی؟ جب کوئی شاعر
اپنا کلام سنا رہا ہوتا ہے اور سامعین داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے
ہیں تو وہیں اسٹیج پر پیچھے بیٹھے ہوئے باقی کے شعراء کے چہروں پر پھٹکار
برس رہی ہوتی ہے ۔ مجال ہے جو ستائش کی ایک رمق بھی ان کے مکھڑے پر نمودار
ہو جائے ۔ پھر جتنا اچھا شعر ہوتا ہے اتنا ہی ان کی جلن اور تکلیف میں
اضافہ صاف نظر آتا ہے جسے وہ چھپانے میں ناکام نظر آتے ہیں ایک نحوست سی ان
کے تاثرات سے جھلکتی ہے ۔ پھر ہر کوئی اپنی باری پر آتا ہے اور سامعین سے
داد بٹورتا ہے مگر کوئی بھی اپنے شریک شاعر کی باری پر اسے سراہنے کو گویا
اپنی توہین سمجھتا ہے بلکہ خاصی بےنیازی اور بیزاری کا بھی اظہار کرتا نظر
آتا ہے ۔ زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے بہت کم کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کو
فراخدلی سے داد دیتا نظر آئے گا ۔ ہاں البتہ منصب نظامت پر براجمان شخصیت
اپنی روزی کو ایسے حلال کرتی ہے کہ مسلسل رخنہ اندازی کر کے یعنی شاعر کے
پڑھنے کے درمیان اس سے بھی زیادہ بلند بانگ آہنگ میں کبھی داد اور کبھی اس
کا مصرعہ دوہرا کر کبھی اگلا مصرعہ خود ہی اچھال کر سننے والوں کا جینا
حرام کر دیتی ہے ۔ محفل کے تسلسل کو غارت کرنے اور ارتکاز کا ستیاناس مارنے
میں سب سے بڑا ہاتھ نظامت پر مامور ہستی کا ہوتا ہے جیسے اسے رکھا ہی اس
کام کے لیے گیا ہو ۔
اب ایک سچا لطیفہ سنیں شعراء کی آپس میں پائی جانے والی معاصرانہ چشمک اور
پیشہ ورانہ مخاصمت کے نمونے کے طور پر ۔ کسی سرکاری محکمے میں ایک کلیدی
عہدے پر فائز ایک مزاحیہ شاعر نے ایک دوسرے بڑے اور بہت مشہور شاعر سے کہا
جب تم میرے ماتحت کام کرتے تھے تو بس یونہی سے تھے اب تو تم اچھے شعر کہنے
لگے ہو
انہوں نے جواب دیا جناب یہ سب آپ سے دُوری کا فیض ہے
ایک اور لطیفہ کچھ یوں ہے کہ دیس میں کسی مشاعرے کی صدارت کسی جنرل صاحب کو
سونپی گئی ۔ مشاعرے کے آغاز پر جب شاعر نے اپنا کلام پڑھنا شروع کیا تو
سامعین نے مکرر ارشاد کی صدائیں بلند کیں ۔ جنرل صاحب نے منتظم کو پاس بلا
کر اس سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
انہیں بتایا گیا کہ یہ شعر کو دوبارہ پڑھنے کے لیے کہہ رہے ہیں ۔ جنرل صاحب
نے مائیک ہاتھ میں لے کر سامعین سے مخاطب ہو کر کہا سننا ہے تو پہلی ہی بار
غور سے سنو ۔ شاعر صاحب آپ کے والد صاحب کے نوکر نہیں ہیں کہ دوبارہ پڑھ کر
سنائیں گے
ویسے اس نوکری کی بھی کیا بات ہے جس کی آرزو ہر شاعر کرتا ہے وہ اپنے سننے
والوں کی ہر فرمائش اور ستائش کو اپنے سر آنکھوں پر رکھتا ہے اور اپنے لیے
باعث شرف سمجھتا ہے مگر اسی شاعر کو اپنے ساتھی شاعر کا معترف ہوتے موت
پڑتی ہے ۔ ہم نے بھی شعر و سخن سے شغف ہونے کی بناء پر کبھی کچھ لکھا تو
اسے شائع ہی کروایا سنانے سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی نا کوئی شوق ہے پھر
بھی ایک مرتبہ ہمارے ساتھ کیا ہؤا وہ سنیں ۔
چند برس پہلے ایک بہت مشہور مرحوم شاعر کی مبینہ طور پر منحوس غزل سے
وابستہ اتفاقات اور یادداشتوں پر مشتمل ایک مضمون کہیں شائع ہؤا جس کے
مندرجات کی صحت پر تقریباً سبھی تبصرہ نگاروں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا
تھا ۔ اس کے کچھ اقتباسات اس سے پہلے بھی ہماری نظر سے گزرتے رہے تھے یعنی
وہ طبع زاد تحریر نہیں تھی ۔ لیکن مذکورہ مضمون کے مصنف نے یہ بتانے کی
کوئی ضرورت محسوس نہیں کی کہ انہوں نے کہیں سے استفادہ کیا ہے یعنی کہیں کی
اینٹ کہیں کا روڑا سے کنبہ جوڑا ہے ۔ ہم نے بھی توجہ دلانے کی بجائے کمنٹس
میں ازراہ تفنن اس غزل کے جواب میں کسی وقت کی گئی اپنی طبع آزمائی کو
قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا ۔ اسے پڑھ کر ایک صاحب آپے سے باہر ہو گئے ۔
انہوں نے نا صرف لاحول پڑھی بلکہ شاعری کے وزن کا بیڑہ غرق کرنے کی ہماری
اس جسارت پر احتجاجاً خودکشی کا بھی ارادہ ظاہر کیا ۔ جبکہ ہم ناچیز نے
اپنی اس کاوش کو شاعری کہا ہی نہیں تھا ، طبع آزمائی کا نام دیا تھا ۔ جبکہ
وہ اتفاق سے پاکستان کے دو چار رسالوں کے علاوہ "ھماری ویب " پر بھی شائع
ہو چکی تھی مگر ان صاحب کو شاید اپنی علمیت کا بہت زعم تھا وہ ہماری کم
علمی کی نشاندہی پر مصر رہے ۔ پھر ہماری بے چاری شاعری اور اس پر ان کی
نکتہ چینی نے ایسی نحوست پھیلائی کہ اس بےچارے مضمون کو ڈیلیٹ ہونا پڑ گیا
اور ساتھ ہی ان صاحب کے افکار عالیہ بھی ڈیلیٹ کے گھاٹ اتر گئے ۔ رہی ہماری
وہ شعری کاوش تو سوشل میڈیا کے کاپی پیسٹ مجاہدین نے اسے جو عزت بخشی ہمارے
لیے وہی کافی ہے ۔
|