آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا ناقہ جہاں بیٹھا تھا
۔ وہ جگہ دو بخاری یتیموں سہیل و سہل کی تھی ۔ جن کے ولی حضرت اسعد بن
زرارہ بخاری خزرجی تھے ۔وہ اس زمین میں کھجوریں خشک کرنے کے لیۓ پھیلا دیا
کرتے تھے ۔ اس کے ایک حصہ میں حضرت اسعد نے نماز کے لیۓ ایک مختصر جگہ
بنائی ہوئی تھی ۔ جس پر چھت نہ تھی ۔ یہاں وہ نماز جمعہ پڑھا کرتے تھے ۔
باقی زمین میں کھجور کے درخت اور مشرکوں کی قبریں اور گڑھے تھے ۔
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہاں مسجد جامع بنانے کا ارادہ فرمایا ۔ آپ
صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ان یتیم بچوں کو بلا بھیجا ۔ اور ان سے قیمت
پر زمین طلب کی ۔ انھوں نے کہا کہ ہم بِلا قیمت آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ
وسلم کی نذر کرتے ہیں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول نہ فرمایا
اور قیمت دے کر خرید لی ۔ تعمیر کا کام شروع ہو گیا ۔ قبریں اُکھڑوا کر
ہڈیاں کسی دوسری جگہ دبا دی گئیں ۔ درخت کاٹ دیئے گئے ۔ اور گڑھے ہموار کر
دیئے گئے ۔ حضور سرور دو عالم صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی کام کر
رہے تھے ۔ آپ اپنی چادر میں اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے اور یُوں فرما رہے
تھے :۔
“ اے ہمارے پروردگار ! یہ اینٹیں خیبر کے تمروزبیب سے زیادہ ثواب والی اور
پاکیزہ ہیں “ ۔
اور نیز فرما رہے تھے :-
“ خدایا ! بیشک اجر صرف آخرت کا اجر ہے پس تو انصار و مہاجرین پر رحم فرما
“ ۔
یہ مسجد نہایت سادہ تھی ۔ بنیادیں تین ہاتھ تک پتھر کی تھیں ۔ دیواریں کچی
اینٹوں کی ۔ چھت برگِ خرما کی قد آدم سے کچھ اونچی اور ستون کھجور کے تھے۔
قبلہ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا ۔ تین دروازے تھے ۔ ایک جانب کعبہ تھا ۔
جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو جانبِ کعبہ کا دروازہ بند کر دیا گیا
۔ اور اسکے مقابل شمالی جانب میں نیا دروازہ بنا دیا گیا ۔ چونکہ چھت پر
مٹی کم تھی ۔ اور فرش خام تھا ۔ اس لیۓ بارش میں کیچڑ ہو جایا کرتی تھی ۔
ایک رات کو بارش بہت ہوئی ۔ جو نمازی آتا کپڑے میں کنکریاں ساتھ لاتا ۔ اور
اپنی جگہ پر بچھا لیتا ۔جب آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ
ہوۓ تو فرمایا :۔ “ یہ خوب ہے “ ۔ اور کنکروں کا فرش بنوا دیا ۔
پایان مسجد میں ایک سائبان تھا جو صُفہ کہلاتا تھا اور ان فقراء و مساکین
صحابہ کے لیۓ تھا ۔ جو مال و منال اور اہل و عیال نہ رکھتے تھے ۔ ان ہی کی
شان میں یہ آیت نازل ہوئی :۔
“ اور روک رکھ جان اپنی ساتھ ان لوگوں کے کہ پکارتے ہیں پروردگار اپنے کو
صُبح کو اور شام کو چاہتے ہیں رضا مندی اسکی “ ۔
( کہف ع ۴ )
ان کی تعداد میں موت یا سفر یا تزوج کے سبب سے کمی بیشی ہوتی رہتی تھی ۔
بعض اوقات ان کی تعداد ستر تک پہنچ جاتی تھی ۔ باہر سے مدینہ میں اگر کوئی
آتا اور شہر میں اسکا کوئی شریف جان پہچان نہ ہوتا ۔ تو وہ بھی صفہ میں
اترا کرتا تھا ۔ حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الا ولیاء میں سو سے کچھ اوپر اہل
صفہ کے نام گناۓ ہیں ۔ جن میں حضرت ابو ذر غفاری ، عمار بن یاسر ، سلمان
فارسی ، صہیب رومی ، بلال حبشی ، ابو ہریرہ ، حذیفہ بن الیمان ، ابو سعید
خدری ، بشیر بن الخصاصیہ وغیرہ ہم مشاہیر میں سے تھے ۔ (رضی الّٰلہ تعالٰی
عنہ )
اہلِ صُفہ پر آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی نظر عنایت تھی ۔ ایک
دفعہ غنیمت میں کنیزیں آئی ہوئی تھیں ۔ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر آپ صلی
الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ رضی الّٰلہ تعالٰی
عنہا اور حضرت علی المرتضٰی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ دونوں خدمت اقدس میں
حاضر ہوۓ ۔ اور ایک خادمہ کے لیۓ درخواست کی ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ
وسلم نے یوں جواب دیا ۔ “ الّٰلہ کی قسم ! یہ نہیں ہونے کا کہ میں تم کو
خادمہ دوں اور اہل صفہ بھوکے مریں ۔ ان کے خرچ کے لیۓ میرے پاس کچھ نہیں ۔
میں ان اسیرانِ جنگ کو بیچ کر انکی قیمت اہلِ صفہ پر خرچ کرونگا “۔
|