#العلمAlilm علمُ الکتاب {{ سُورةُالحج ، اٰیت 67 تا 72
}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لکل امة
جعلنا منسکا ھم
ناسکوہ فلا ینازعنک
فی الامر وادع الٰی ربک
انک لعلٰی ھدی مستقیم 67
وان جادلوک فقل اللہ اعلم بمالا
تعملون 68 اللہ یحکم بینکم یوم
القیٰمة فیما کنتم فیه تختلفون 69
الم تعلم اللہ تعلم ان اللہ یعلم مافی
السماء والارض ان ذٰلک فی کتٰب ان ذٰلک
علی اللہ یسیر 70 ویعبدون من دون اللہ مالم
ینزل بهٖ سلطٰنا ومالیس لھم بهٖ علم وما للظٰلمین
من نصیر 71 واذا تتلٰی علیھم اٰیٰتنا بینٰت تعرف فی
وجوه الذین کفرواالمنکر یکادون یسطون بالذین یتلون
علیھم اٰیٰتنا قل افانبئکم بشر من ذالکم النار وعده الذین
کفروا وبئس المصیر 72
اے ھمارے رسُول ! زمین کی ہر قوم میں اپنے اپنے زمانے کا اپنا اپنا ایک
طرزِ معاشرت ہوتا ھے جس طرزِ معاشرت کو ہر زمانے میں ہر زمین کی ہر قوم
اختیار کیۓ ہوۓ ہوتی ھے اور آپ کے زمانے میں آپ کے لیۓ ھم نے توحید کا جو
طرزِ معاشرت مقرر کیا ھے اُس پر آپ کے اُن اہلِ زمانہ کو کوئی اعتراض نہیں
ہونا چاہیۓ جن کا اپنا بھی ایک مُشرکانہ طرزِ معاشرت موجُود ھے ، آپ اپنے
رَب کی طرف سے توحید کے جس سیدھے راستے پر چل رھے ہیں توحید کے اُس راستے
پر استقامت کے ساتھ چلتے رہیں اور اہلِ زمین کو بھی اُسی سیدھے راستے کی
طرف بُلاتے رہیں اور اُسی سَچے راستے پر چلاتے رہیں ، اگر وہ لوگ آپ سے
اُلجھیں تو آپ اُن کو کُھلے کُھلے اور دو ٹوک اَلفاظ میں کہہ دیں کہ
تُمہارا ہر عمل اللہ تعالٰی کے علم میں ھے ، قیامت کے روز اللہ تعالٰی
تُمہاری اُن سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن باتوں کے بارے میں تُم ایک
دُوسرے سے اختلاف کرتے ہو ، کیا تُم نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی اپنے عالَم
میں ہونے والے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے واقعے کو اُس کے وقوع میں
آنے سے پہلے ہی جانتا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی کے لیۓ یہ بات بہت آسان ھے کہ
اُس کے عالَم میں جس وقت جو جو واقعہ پیش آۓ وہ اُسی وقت اُس کی ایک کتابِ
محفوظ میں محفوظ ہو جاۓ ، یہ لوگ اللہ تعالٰی کے سیدھے راستے کو چھوڑ کر جس
ٹیڑھے راستے پر چل رھے ہیں اُس راستے پر چلنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اُن کے
حق میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ھے اور وہ لوگ دلیل کے بغیر جو عمل کر رھے
ہیں وہ اپنے اُس عمل کے علمِ مطلوب و نتیجہِ مطلوب سے بالکُل لاعلم ہیں اِس
لیۓ یہ لوگ خُدا کی مدد سے بھی محروم ہیں اور اِن محرومِ علم و عقل لوگوں
کا حال یہ ھے کہ جب اِن کے بند کانوں تک ھماری کُھلی اٰیات و ھدایات
پُہنچتی ہیں تو اِن کے چہرے درندوں کی طرح یوں بگڑ جاتے ہیں کہ دیکھنے
والوں کو یہ گمان ہونے لگتا ھے کہ یہ لوگ ابھی ابھی اُن لوگوں پر حملہ
کردیں گے جو لوگ اِن لوگوں کو ھماری اٰیات سُنا رھے ہیں ، آپ اِن لوگوں سے
کہیں کہ میں کیوں نہ تمہیں بُری طرح جلانے والی اُس بُری آگ سے باخبر کردوں
جو اُن بُرے لوگوں کے لیۓ ھے جو توحید کے مُنکر اور شرک کے متوالے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
مقصد و تَفہیمِ مقصد کے اعتبار سے اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کا چوتھا لفظ
"مَنسکا" ہی ایک توجہ طلب لفظ ھے جو ظرفِ مکانی کی جمع کثرت ھے اور جس کے
ظرفِ معنٰی میں پسندیدہ جسم و پسندیدہ لباس اور پسندیدہ زمین شامل ہوتی ھے
اور جب یہ لفظ اُمت کے ساتھ آتا ھے تو اِس سے مُراد اَقوامِ عالَم کا وہ
طرزِ معاشرت ہوتا ھے جو اُن اَقوامِ عالَم نے اپنے اپنے اَحوال و ظروف کے
مطابق اختیار کیا ہوا ہوتا ھے ، اَقوامِ عالَم کا یہ مُختلف طرزِ معاشرت
ایک دُوسرے کے ساتھ تعارف کا متقاضی تو ضرور ہوتا ھے لیکن تعارض کا باعث
ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ ہر قوم کا طرزِ معاشرت اُس قوم کی زمین و اَحوالِ
زمین سے بنتا ھے اور چونکہ ہر قوم کا اَحوالِ زمین قُدرتی طور پر ایک
دُوسری سے اَلگ اَلگ ہوتا ھے اِس لیۓ ہر قوم کا طرزِ معاشرت بھی قُدرتی طور
پر ایک دُوسری سے اَلگ اَلگ ہی ہوتا ھے ، سُورَةُالحج کی اٰیت 67 کا یہ
مضمون بھی اِس سُورت کی اٰیت 34 کا وہی مضمون ھے جو اُن پہلی 34 اٰیات کے
بعد آنے والی اِن دُوسری 34 اٰیات کے بعد لایا گیا ھے ، اِس مضمون کا مقصد
اُس پہلے مقام پر بھی انسان کا عمومی طرزِ معاشرت تھا اور اِس دُوسرے مقام
پر بھی انسان کا عمومی طرزِ معاشرت ھے اور ایک قوم کے انسان کو دُوسری قوم
کے اِس طرزِ معاشرت پر اُس وقت تک کوئی اعتراض نہیں ہوتا جب تک انسان کے
اُس طرزِ معاشرت میں انسان کے دین و ایمان کا اختلاف شامل نہیں ہو جاتا اور
جب انسان کے اِس طرزِ معاشرت میں انسان کے دینی مُعتقدات و رُوحانی محسوسات
بھی شامل ہو جاتے ہیں تو اِس کے طرزِ معاشرت میں ایک معاندانہ مُغائرت پیدا
ہو تی چلی جاتی ھے اور اُس مغائرت سے جنگ و جدل اور ہجرت و مہاجرت کا وہ
تکلیف دہ عمل شروع ہوجاتا ھے جس کا اِن اٰیات سے پہلی اٰیات کے پہلے مضمون
میں ذکر ہوا ھے ، قُرآنِ کریم جس زمانے میں نازل ہو رہا تھا اُس زمانے میں
انسان کے انسانی طرزِ معاشرت پر شرک کی مُشرکانہ رسُوم غالب تھیں اور جب
شرک کی اِن مُشرکانہ رسُوم کے درمیان اللہ تعالٰی کی توحید کا غُلغُلہ بلند
ہوا تو شرک کے ایوانوں میں ایک زلزلہ آگیا اور مُشرکینِ مکہ توحید کے دین و
طریقِ دین پر اعترض کرنے لگے جس کے جواب میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو
بتایا کہ انسانی تہذیب و تمدن اور انسانی طرزِ معاشرت کا باہمی اتحاد اِس
زمانے سے پہلے بھی ہوتا رہا ھے اور اِس زمانے کے بعد بھی ہوتا رھے گا لیکن
شرک اور توحید کا باہمی اشتراک اِس زمانے سے پہلے بھی کبھی نہیں ہوا ھے اور
اِس زمانے کے بعد بھی کبھی نہیں ہوگا ، عرب کی زمین پر توحید و دینِ توحید
اور کعبہِ توحید کے پہلے بڑے علَم بردار ابراھیم علیہ السلام تھے جن کے
دینِ توحید و کعبہِ دینِ توحید کے آخری بڑے علَم بردار کے طور پر سیدنا
محمد علیہ السلام اور اَصحابِ سیدنا محمد علیہ السلام اہلِ زمین کے درمیان
تشریف لاۓ تھے جو ابراھیم علیہ السلام کے جانشین کے طور پر تشریف لآۓ تھے
اور شرک کی معاشرت کو مٹاکر توحید کی معاشرت کو پھیلانے کے لیۓ تشریف لآۓ
تھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے محمد علیہ السلام کو بتایا کہ مُشرکین مکہ
چونکہ انسانی معاشرے میں قدیم انسانی معاشرتوں کے قیام و اِنہدام کے فطری
اصولوں سے واقف ہیں اِس لیۓ اُن کو دینِ توحید کی توحیدی معاشرت پر کوئی
اصولی اعتراض نہیں ہونا چاہیۓ اور اگر اعتراض ہو بھی تو آپ نظریہِ توحید کی
جس راہِ حق پر چل رھے ہیں اُس پر ثابت قدمی کے ساتھ چلتے رہیں لیکن جہاں تک
آپ پر مُشرکین کے کسی خلافِ اصول اعتراض کا تعلق ھے تو آپ اُن سے کہہ دیں
کہ تُمہارا ہر عمل اللہ تعالٰی کے علم میں ھے اور جب تُم سب اللہ تعالٰی کے
رُو برُو حاضر ہو جاؤگے تو وہ خود ہی یہ فیصلہ کردے گا کہ تُم میں سے کس کا
عمل اللہ تعالٰی کے حُکم کے مطابق تھا اور کس کا عمل اُس کے حُکم کے خلاف
تھا ، انسان کی انسانی معاشرت چونکہ انسان کے بدلتے وقت اور بدلتے اَحوال و
ظروف کے ساتھ سب کے سامنے ایسے ہی بدلتے رہتی ھے جس طرح ماہ و سال کے شب و
روز اور اِن شب و روز کے بدلتے موسم بدلتے ہیں اِس لیۓ اِن پر انسانی
مُشاھدہ بذاتِ خود ہی ایک دلیل ہوتا ھے لیکن جہاں تک کسی قوم کے قلبی و
رُوحانی طور پر اختیار کیۓ جانے والے دین و ایمان کا تعلق ھے تو اُس کے لیۓ
ایک دلیلِ حق کی ضرورت ہوتی ھے اور دین و ایمان کے لیۓ جس دلیلِ حق کی ضروت
ہوتی ھے وہ دلیلِ حق اللہ تعالٰی کی طرف سے صرف اُس دینِ توحید کو حاصل
ہوئی ھے جس کے پہلے بڑے داعی ابراھیم علیہ السلام اور آخری بڑے داعی سیدنا
محمد علیہ السلام تھے !!
|