#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالحج ، اٰیت 73 ،
74اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الناس ضرب
مثل فاستمعولهٗ
ان الذین تدعون من
دون اللہ لن یخلقواذبابا و
لواجتمعولهٗ وان یسلبھم الذباب
شیئا لایستنفذوه منه ضعف الطالب
و المطلُوب 73 ماقدراللہ حق قدرهٖ ان
اللہ لقوی عزیز 74
اے محبت سے تَخلیق کیۓ گۓ اور محبت کے لیۓ تخلیق کیۓ گۓ لوگو ! تُم اپنے
خالق کے اِس کلام میں درج کی ہوئی اور اپنے خالق کے کلام میں دی ہوئی اِس
مثال کو پُورے غور کے ساتھ سن لو کہ تُم میں سے جو اہلِ حیات مُشکلاتِ حیات
سے اپنی جان بچانے کے لیۓ اور اپنی ضروریاتِ حیات کو اپنی دسترسِ حیات میں
لانے کے لیۓ اپنے خالق کو پُکارنے کے بجاۓ اپنے خالق کی جس مخلوق کے جن
اَفراد کو پُکارتے ہیں اگر خالق کی مخلوق کے وہ سارے اَفراد ایک دُوسرے کے
ساتھ ایک جماعت جَتھہ بن کر ایک مَکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو ہرگز پیدا
نہیں کرسکتے اور ہرگز بھی کبھی پیدا نہیں کر سکیں گے بلکہ اگر ایک مَکھی
اُن کم زور انسانوں کے پاس آۓ اور اُن کم زور انسانوں کے دَست و دَستر خوان
سے کوئی چیز چھین کر لے جاۓ تو وہ اُس چیز کو اُس مَکھی کے پروں اور پیروں
سے نکال کر واپس بھی نہیں لا سکتے کیونکہ یہ مدد مانگنے والے کم زور لوگ جن
لوگوں سے مدد مانگتے ہیں وہ لوگ بھی اُن ہی کم زور لوگوں کی طرح کے کم زور
لوگ ہی ہوتے ہیں اور اِن خراب حال لوگوں کی مِن جُملہ خرابیوں میں سے ایک
خرابی یہ ھے کہ اِن لوگوں نے اللہ تعالٰی کی قدر و منزلت کو اللہ تعالٰی کی
قدر و منزلت کے اَعلٰی پیمانوں کے مطابق جاننے کے بجاۓ غیر اللہ کی قدر و
منزلت کے اَدنٰی پیمانوں کے مطابق جانا ھے اور اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ اِس
طرح کے بے توقیر لوگ تو اللہ تعالٰی کی عزت و توقیر کو جاننے کے قابل ہی
نہیں ہوتے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں انسانی تفہیم کے لیۓ اپنی جن اَمثال و
تمثیل کو 136 مقامات پر مُختلف صیغوں اور مُختلف ضمیروں کے ساتھ بیان کیا
ھے اُن تمام مقامات میں سُورَةُالحج کا یہ مقام وہ واحد مقام ھے جس مقام پر
اللہ تعالٰی نے اِس مثال کو غور کے ساتھ سُننے کا حُکم دیا ھے اور اِس حُکم
میں اُس مثال کے اُس مُطلق"سماع" کا حُکم نہیں دیا جس مُطلق سماع کو انسان
اپنے کانوں سے سُننے اور اپنی عقل سے سجھنے کے بعد اپنے عمل میں لانے کا
پابند ہوتا ھے بلکہ اِس سُورت کی اِس اٰیت میں آنے والا اللہ تعالٰی کا یہ
حُکم اللہ تعالٰی کا وہ خاص حُکم ھے جس حُکم میں اللہ تعالٰی نے انسان کو
"اِستماع" کا حُکم دیا ہوا ھے جو "سماع" کے غیر مُسلسل حُکم کے مقابلے میں
ایک مُسلسل حُکم ھے جس کو انسان نے مُسلسل سُننا ھے اور مُسلسل سمجھنا ھے
اور مُسلسل اِس پر عمل بھی کرتے رہنا ھے ، اٰیت بالا میں دی گئی مثال میں
"ذُباب" کا جو اسمِ جمع استعمال کیا گیا ھے وہ اسمِ واحد "ذُب" کا وہ اِسم
جمع ھے جو پُھولوں کا رَس چُوس کر اَشجار و اَحجار کے کھانچوں میں شھد
بنانے اور بہانے والی مَگس ، انسانی بستی میں جگہ جگہ سے گندگی جمع کر کے
انسانی بستی میں جگہ جگہ پر گندگی پھیلانے والی مَکھی ، انسانی و حیوانی
جسم پر بار بار آنے اور انسانی و حیوانی جسم کا بار بار خُون پینے والے
مَچھر اور گوبر کے اپنے جسم سے بھی بہت بڑے بڑے گولے بنانے اور اپنے پیروں
سے دَھکیل کر اپنے گھروندے تک لے جانے والی اُس بِھڑ وغیرہ کے لیۓ ایک اسمِ
مُشترک "بعوضہ" ھے جو سُورةُالبقرة کی اٰیت 26 میں بظاہر صرف مَچھر کے لیۓ
بولا کیا گیا ھے لیکن دَرحقیقت یہ ایک لفظ زمین کے قریب اُُڑنے والے اِن
سارے پَردار پتنگوں کی جمعیت و فَر دیت دونوں کو ظاہر کرنے کے لیۓ بولا
جاتا ھے ، قُرآنِ کریم کی یہ حاکمانہ و تحکمانہ مثال جو سُورةُالحج میں
بیان کی گئی ھے وہ سُورةُالبقرة کی اٰیت 26 کے اُسی مضمون کا تکملہ ھے جس
مضمون میں "بعوضہ" کا ذکر کرتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا گیا تھا کہ اللہ تعالٰی
کے لیۓ اِس بات میں کوئی عار نہیں ھے کہ وہ اِنسان کو عقل کی کوئی بات
سمجھانے کے لیۓ ایک چھوٹے سے مَچھر کی یا مَچھر سے کم و بیش سطح کے کسی جان
دار کی عقل کو مثال کے طور پر پیش کرے کیونکہ اللہ تعالٰی کے نزدیک اَصل
چیز کسی جان دار کی جسامت نہیں ہوتی بلکہ اَصل چیز اُس جان دار کی وہ عقل
ہوتی ھے جس عقل کو کام میں لا کر وہ جان دار زمین پر اپنی زندگی کا جواز
فراہم کرتا ھے ، عُلماۓ سائنس کی جدید و قدیم تحقیقات کے مطابق اللہ تعالٰی
نے انسانی عقل کو جس مَچھر کی عقل سے رُو شناس کرایا ھے اُس مَچھر کے اُڑنے
کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اُس کے دونوں اَطراف میں تین تین پَر لگاۓ ہوۓ ہیں ،
اُس کے دیکھنے کے لیۓ اُس کے سر میں 100 آنکھیں رکھی ہوئی ہیں ، اُس کے
کھانے اور چبانے کے لیۓ اُس کے مُنہہ میں 48 دانت پیدا کیۓ ہوۓ ہیں ، اُس
کے جسم کے ایک حصے سے اُس کے جسم کے ہر ایک حصے تک خون پُہنچانے کے لیۓ اُس
کے جسم میں 3 دل رکھے ہوۓ ہیں اور اُس کے ایک ڈنک میں 6 چُھریاں چُھپا رکھی
ہیں جو عام وقت میں عام طور پر اور اُس وقت میں خاص طور پر کام آتی ہیں جب
مادَہ مَچھر اَنڈے دے دے کر کم زور ہو جاتی ھے تو اُس کا نَر مَچھر اُس کو
تَنہا چھوڑ کر پانی کے جوہڑوں کی طرف نکل جاتا ھے اور اُس وقت اُس کی وہ
مادہ مَچھر زندگی سے زندگی کا رشتہ بر قرار رکھنے کے لیۓ اُن انسانی و
حیوانی جسموں پر ہَلّہ بول دیتی ھے جن کے خُون سے اُس کی ڈُوبتی ہوئی جان
کو ایک نئی اُڑان مل جاتی ھے ، اٰیتِ بالا میں اُس مَچھر کے اُسی فوق کا
اِصالتاً ذکر کیا گیا ھے جس کا سُورَةُالبقرة میں اشارتاً ذکر کیا گیا ھے
اور وہ فوق انسانی خوراک پر آنے جانے اور انسانی خوراک کو چھین جَھپٹ کر لے
جانے والی مَکھی ھے جو پہلے تو چشمِ زَدن میں اپنے پروں اور پیروں کے ساتھ
انسان کے دست و دستر خوان سے کُچھ خوراک لے جاتی ھے اور پھر دُوسرے ہی
لَمحے میں وہ مَکھی اُس انسانی خوراک کو اپنے مُنہہ کی ایک ٹیوب میں چُھپے
ہوۓ ایک کیمیکل میں ملا کر ایک ایسی چیز بنا دیتی ھے کہ جدید دُنیا کی تمام
لیباٹریز اور جدید دُنیا کے تمام سائنسدان باہَم مل کر بھی اُس چیز کو پہلی
حالت میں واپس نہیں لا سکتے ، یہ ھے قُرآن کے اُس مُشکل چیلنج کا وہ مُشکل
پَس مَنظر جس مُشکل پَس منظر میں قُرآنِ کریم نے مُنکرینِ قُرآن کو وہ
چیلنج کیا ھے جس مُشکل چیلنج کا قُرآن کے مُنکر قیامت تک سامنا نہیں کر
سکتے اور اِس چیلنج میں مُشرکینِ عالَم کو یہ بھی باور کرایا گیا ھے کہ
تُمہاری اور تُمہارے اِن خیالی خداؤں کی عقل تو اُس مَچھر کی عقل سے بھی کم
تر عقل ھے جو دیکھتے ہی دیکھتے تُمہارا خُون چُوس جاتا ھے اور تُمہاری عقل
اُس مَکھی کی عقل سے بھی کم تر عقل ھے جو دیکھتے ہی دیکھتے تُم سے تُمہاری
خوراک چھین کر لے جاتی ھے مگر تُمہارے تُمہاری ہی طرح کے یہ عاجز معبُود تو
تُم کو یا اپنے آپ کو اُس مَچھر اور اُس مَکھی کے حملے سے بھی نہیں بچا
سکتے اور اُن کے بارے میں تُمہاری اِس بے عقلی کا سبب صرف یہ ھے کہ تُم نے
اپنے خالق کی عظمت کو مخلوق کے عقلی معیار سے مُتعین کرنے کی کوشش کی ھے
اور تُم یہ بات نہیں سمجھ سکے ہو کہ خالق کی ہستی ایک بے مثال ہستی ھے اور
اُس کی بے مثال ہستی کا اپنی خیالی ہستیوں کے ساتھ موازنہ کر کے اُس کی
ہستی کے بارے میں کُچھ جاننا مُمکن نہیں ھے اِس لیۓ جس انسان نے اپنے خالق
کے بارے میں کُچھ جاننا ھے تو وہ پہلے اُس کو وحدهٗ لاشریک مانے اور اُس کے
بعد اُس کی ہستی کے بارے میں جو جاننا چاہتا ھے وہ جانے کی کوشش کرے !!
|