پاکستان کی پارلیمانی تاریخ گواہ ہے کہ ہر سال مختلف
مواقع پر کئی بار قومی اسمبلی کا ایوان مچھلی منڈی بن جاتاہے وہ پارلیمنٹ
جس کے تقدس کی ارکان ِ اسمبلی قسمیں کھاتے نہیں تھکتے وہ اپنے ہاتھوں اس کی
اتنی تذلیل کرتے ہیں کہ الحفیظ و الامان لیکن ان کو ایسا کرتے کوئی عار
محسوس ہوتی ہے نہ شرم آتی ہے۔ رواں مالی سال کے پیش کردہ بجٹ پر بحث اجلاس
میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان اور اپوزیشن
کے درمیان تاریخ کی بدترین بدکلامی،ہلڑ بازی، گالی گلوچ اور ایک دوسرے پر
حملے کئے گئے ارکان نے ایوان کا تقدس پامال کرتے ہوئے اسے میدان جنگ میں
تبدیل کردیا جس سے کئی ارکان زخمی ہو گئے۔ کہاجاتاہے کہ حکومتی ارکان نے
بجٹ کی کاپیاں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو مارنے کی کوششکی جس سے حالات
کشیدہ ہو گئے مزے کی بات یہ ہوئی کہ پوری ہنگامہ آرائی کے دوران پیپلز
پارٹی اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھے تماشا
دیکھتے رہے۔ پی ٹی آ ئی کی طرف سے چور ہے بھئی چور ہے سارا ٹبر چور ہے اور
مسلم لیگ(ن)کی جانب سے ڈونکی راجہ کی سرکار نہیں چلے گی، گو نیازی گو، کے
نعرے لگائے گئے۔ دونوں جماعتوں کے ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیوں کے
بنڈل اچھالے جس سے متعدد سکیورٹی اہلکار اور ارکان اسمبلی بھی معمولی زخمی
ہو گئے۔ شنیدہے وفاقی وزراء اپنے ارکان کو ہنگامہ آرائی کے لئے اکساتے رہے۔
اس ہنگامہ آرائی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے
تقریر شروع کی تو وفاقی وزرا سمیت تحریک انصاف کے ارکان نے ایوان میں شور
شرابا شروع کیا اور ڈیسک پر بجٹ بجاتے رہے۔ سپیکر اسد قیصر نے ایوان کو
چلانے میں ناکامی پر ایوان کی کارروائی کو کچھ دیر کے لئے ملتوی کردی اس
دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں جھڑپ ہوگئی معاملہ اپنے کلائمیکس پر
اس وقت پہنچا جب وزیراعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان نے مسلم لیگ (ن)کے
رکن شیخ روحیل اصغر کو بجٹ کی کتاب دے ماری کتاب مسلم لیگ (ن) کے رکن
افتخار نذیر کو لگی تو انہوں نے واپس علی نواز اعوان کو دے ماری دونوں ایک
دوسرے کو ننگی گالیاں دیتے رہے ۔ دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو پھر نعرے بازی
کا سلسلہ شروع ہو گیا سناہیحکومتی ارکان سیٹیاں ساتھ لائے تھے جس سے ایوان
مسلسل سیٹیوں کی آواز سے گونجتا رہا۔ عصر کی نماز کے بعدپھراجلاس شروع ہوا
تو دونوں طرف کے ارکان میں بہت زیادہ جوش و خروش تھا۔ وزیر انسانی حقوق
ڈاکٹر شیریں مزاری خواتین ارکان میں نعرے بازی میں سب آگے تھیں۔ مخدوش صورت
ِ حال کے پیش ِ نظرسپیکر نے بھاری تعداد میں سکیورٹی کا عملہ بلوا لیا گیا۔
سپیکر نے ویڈیو بنانے میں مصروف ارکان کی موبائل قبضے میں لینے کی ہدایت
کردی لیکن ارکان نے اپنے موبائل فون سکیورٹی اہلکاروں کو نہ دیئے۔ ہنگامہ
آرائی پر پہلی نشستوں پر موجو شاہ محمود قریشی نہ جانے کب ایوان سے نکل گئے۔
اس پورے ہنگامے کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلال بھٹو زرداری اپنے
ارکان کے ہمراہ اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی خاموش تماشائی بنے
بیٹھے رہے۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور لیگی رکن ملک سہیل کمڑیال کے درمیان
بھی تلخ کلامی ہوئی۔ حکومتی رکن فہیم خان اور ن لیگ کے ناصر بوسال کے
درمیان تلخ کلامی بڑھی تو ناصر بوسال نے فہیم خان کو باہر نکلنے کا اشارہ
کرتے ہوئے دو دو ہاتھ کر نے کے لیے للکارا۔ لیکن سکیورٹی اہلکار درمیان میں
آگئے۔ اسی دوران وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور نے بجٹ کی کاپی
اپوزیشن ڈیسکوں کی طرف اچھال دی۔ جس کے بعد دونوں طرف سے بجٹ کی کاپیاں ایک
دوسرے کو مارنے کا آغاز ہو گیا۔ متعدد اہلکار بجٹ کی بھاری بھرکم کاپیاں
لگنے سے معمولی زخمی بھی ہوئے۔ ایم کیو ایم، جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور
علی وزیر دونوں جماعتوں کے ارکان کے درمیان بیچ بچاؤ کراتے رہے۔ اجلاس
ملتوی کئے جانے کے باوجود لیگی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان گھمسان کا رن
جاری رہا۔ اجلاس کے دوران قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے سکیورٹی کم ہونے پر سینٹ
سیکرٹریٹ سے مدد طلب کی جس کے بعد ایوان کی کشیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے
اضافی سارجنٹ ایٹ آرمز کی خدمات قومی اسمبلی کے سپرد کردی گئیں بجٹ کی
کاپیوں سے حملے میں پی ٹی آئی کی ملیکہ بخاری، علی نواز و دیگر زخمی ہو گئے۔
بجٹ کی ایک کتاب ملیکہ بخاری کی آنکھ پر لگی جن کو طبی امداد دی گئی ایک
وزیر زرتاج گل کی بھی زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ تحریک انصاف کے ایم
این اے فہیم خان کے ہاتھ پر زخم آیا ہے انہوں نے اپنے رد ِ عمل میں کہا
مسلم لیگ (ن) والے غنڈہ گردی کی سیاست کر رہے تھے جبکہ شاہد خاقان عباسی کا
کہنا تھا کہ شہباز شریف کی تقریر سے حکومتی بنچوں میں آگ لگ گئی ہے۔ وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی نے وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بجٹ پر تنقید حزب
اختلاف کا حق ہے لیکن مہذب طریقہ اختیار کیا جائے۔ وزیر اطلاعات فواد
چودھری نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں لڑائی علی گوہر بلوچ کے
نعروں سے شروع ہوئی۔ لیگی ایم این ایز نے پارلیمانی اقدار کو بالائے پشت
ڈال کر گالیاں دیں۔ نوجوان ایم این ایز جذباتی ہو گئے۔ پھر بجٹ کی کتابیں
پھینکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ
حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے غیر پارلیمانی رویے کا اظہار کیا گیا
یہ ہے پارلیمنٹ کے تقدس کا واویلا کرنے والوں کااصل روپ اس ہلڑ بازی کی
جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔
|