مولانا عمر گوتم اور مفتی جہانگیر عالم کی گرفتاری بنیادی
حقوق کی پامالی اور ان پر لگائے جانے والےبیجا الزامات کے سبب قابل مذمت ہے
لیکن اس نے قومی ذرائع ابلاغ میں اسلام کی دعوت کو موضوع بحث بنادیا ہے۔
ملک بھر میں جو لوگ اسلام کی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ا ن کو اترپردیش
اے ٹی ایس نے مطلع کردیا ہے کہ اوکھلا کے دعوہ سینٹر میں ان کی مراد پوری
ہوجائے گی ۔ ملک میں ایسے بھی کئی لوگ ہیں جنھوں نے اسلام تو قبول کرلیا
مگر اپنے دستاویز بدلنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں
کہ اس کام میں کوئی ان کی مدد کرے تو انہیں بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دعوہ
سینٹر سے متعارف کرانے کا اہتمام ہو گیا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے رب
کائنات نے حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت کو پھیلانے کا انتظام خود فرعون سے کروادیا
تھا۔ اسی نے ہرکارے بھیج کر ساری قوم کو حضرت موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر کیا
۔ فرعون جادوگروں کے ذریعہ حضرت موسیٰ ؑ کو زیر کرنا چاہتا تھا مگر انہوں
نے اس کے خلاف پوری قوم کے سامنے ببانگ دہل اسلام کی گواہی پیش کر دی۔ مشیت
الٰہی تو دشمنانِ دین سے بھی کام لے لیتی ہے۔
دعوت اسلامی کی راہ میں ایسے معجزات ہوتے رہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کی دعوت
ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف پکارتا ہے اور جسے
چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے‘‘۔ یعنی اس پکار پر جو لوگ اخلاص کے ساتھ لبیک
کہتے ہیں ان کو ایمان کی توفیق سے نوازہ جاتا ہے۔ مولانا عمر کی جو ویڈیو
آج کل گودی میڈیا زور و شور چلا رہا اس کے بین السطور یہی پیغام ہے
کہ:’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے،
اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘۔ مولانا کی یہ خواہش رہی ہوگی
کہ ساری دنیا کے لوگ یہ جانیں کہ اسلام کا پیغام دلوں کو کیسے مسخر کرتا
ہے؟ اس راستے میں کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور بالآخر ان پر کیسے قابو
پایا جاتا ہے؟ اسلام کی دولت انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے ؟ مولانا
عمر گوتم کا یہ ایمان افروز ویڈیو چند ہزار لوگوں تک محدود تھا لیکن قومی
ذرائع ابلاغ نے اسے کروڈوں لوگوں تک پہنچا دیا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے حضرت ابو ذر غفاریؓ اورحضرت سلمان فارسی ؓ جیسے
جلیل القدر صحابیوں کو نبیٔ کریم ﷺ تک پہنچانے کا کام دشمنانِ اسلام کی
مخالفت نے کیا تھا۔ دین اسلام کی دعوت کے حقدار وہ تمام لوگ بھی ہیں جن کو
انتظامیہ اور میڈیا اس سے بر گشتہ کررہا ہے۔ فرمان ربانی ہے: ”ہم نے ہر امت
میں پیغمبر بھیجے کہ لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔“ مزید
فرمایا:’’ اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وه بشارت دیں
اور ڈرائیں‘‘ ۔ اس کے بعد عمر گوتم جیسے نومسلمین کو یہ خوشخبری سنائی گئی
کہ :’’ پھر جو ایمان لے آئے اور درستی کرلے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ
نہیں اور نہ وه مغموم ہوں گے‘‘۔ یعنی قیدو بند کی صعوبت مولانا عمر جیسے
داعیانِ اسلام کا حوصلہ پست نہیں کرسکے گی۔
نبی کریم ﷺ کے غلام تو اس حکم کی بجا آوری کرتے ہیں کہ : ’’آپ کہہ دیجئے
میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے پیروکار اللہ کی طرف پورے یقین اور اعتماد
کے ساتھ بلا رہے ہیں۔ اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں‘‘۔ اس کارِ نبوت
کی عظمت و رفعت کو داعی ٔ اسلام ہی جانتا ہے کہ : ’’ اُس شخص کی بات سے
اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا
کہ میں مسلمان ہوں۔“ ایسے لوگ کسی ملامت کرنے والے کی پروا کیے بغیر اپنا
وہ فرض منصبی اداکرتے رہتے ہیں۔ ان کے پیش نظر یہ رہتا ہےکہ:’’ اور آپ صبر
ہی کریں کہ آپ کا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہوگا اور ان کے حال پر رنجیدہ
نہ ہوں اور ان کی مکاّریوں کی وجہ سے تنگدلی کا بھی شکار نہ ہوں‘‘۔ اسلام
کا داعی دشمنان اسلام کی ان اوچھی سازشوں سے بد دل اور مایوس نہیں ہوتے۔
دعوت وتبلیغ امت کے ہر فرد کا فرض منصبی ہے ۔ اسی طرح مولانا عمر اور مفتی
جہانگیر جیسے داعیان اسلام کی نصرت و حمایت بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ امت
کو اس کی ادائیگی کے لیے آگے آنا ہوگا ورنہ من حیث القوم ہم سب عنداللہ
مسئول ہوں گے۔
|