#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 23
تا 32 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد ارسلنا
نوحا الٰی قومهٖ
فقال یٰقوم اعبدوا
اللہ مالکم من الٰه غیرهٗ
افلا تتقون 23 فقال الملؤا
الذین کفروامن قومهٖ ماھٰذاالّا
بشر مثلکم یرید ان یتفضل علیکم
ولوشاء اللہ لانزل ملٰئکة ما سمعنا بھٰذا
فی اٰبائناالاولین 24 ان ھو الّا رجل بهٖ جنة
فتربصوابهٖ حتٰی حین 25 قال رب انصرنی بما
کذبون 26 فاوحینا الیه ان اصنع الفلک باعیننا و
وحینا فاذاجآء امرنا وفارالتنور فاسلک فیھا من کل
زوجین اثنین واھلک الّا من سبق علیه القول منھم ولا
تخاطبنی فی الذین ظلمواانھم مغرقون 27 فاذااستویت
انت ومن معک علی الفلک فقل الحمد للہ الذی نجٰنا من القوم
الظٰلمین 28 وقل رب انزلنی منزلا مبٰرکا وانت خیر المنزلین 29
ان فی ذٰلک لاٰیٰت وان کنا لمبتلین 30 ثم انشانامن بعدھم قرنااٰخرین
31 فارسلنا فیھم رسولا منھم ان اعبدوااللہ مالکم من الٰه غیره افلا
تتقون 32
اور یقین جانو کہ اِس سے پہلے بھی ھم نے نُوح کو اُن کی قوم کی طرف اپنا
پیغامِ حق دے کر بہیجا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو اسی ایک بات کی تعلیم دی
کہ تُم سب لوگ اللہ تعالٰی کے سامنے فروتنی اختیار کرو کیونکہ اُس کی ذات
کے سوا تُمہارا کوئی بھی دُوسرا مرکزِ اتباع نہیں ھے مگر نُوح کی قوم نے
اُن کی یہ بات سُن کر ایک دُوسرے سے کہا کہ بَھلے لوگو ! یہ شخص تو تُمہاری
قوم میں تُمہارے جیسا ہی ایک انسان ھے جو تُم پر اپنی بالادستی قائم کرنا
چاہتا ھے ، اللہ کو فی الواقع ھماری کوئی بَھلائی مقصود ہوتی تو وہ ھمارے
پاس اپنے فرشتوں میں سے کسی فرشتے کو کیوں نہ بہیج دیتا اور پھر یہ شخص جو
ھم کو اَجنبی باتیں سُنا رہا ھے وہ باتیں تو ھم نے اپنے پہلے بزرگوں سے
کبھی سُنی ہی نہیں ہیں ، اِس کے بعد وہ لوگ بولے کہ یہ شخص یقینا دیوانہ ہو
چکا ھے اِس لیۓ تمہیں چاہیۓ کہ تُم اُس وقت تک اِس کو ڈھیل دے دو جب تک اِس
کی موت واقع نہ ہو جاۓ ، تَب نُوح نے آزردہ دل ہو کر اللہ سے کہا کہ اِن
لوگوں نے تو مُجھے جُھٹلا دیا ھے اِس لیۓ اَب تُو ہی میری مدد فرما ، نُوح
کی اِس اِلتجا کے بعد نُوح کو ھم نے اپنا یہ پیغام بہیجا کہ اَب تُم ھماری
اِس ھدایت کے مطابق ھماری نگرانی میں ایک کشتی تیار کرو ، جب وہ کشتی تیار
ہو جاۓ گی تو زمین کے پیالے میں ایک طوفان آجاۓ گا اور جب آنے والا وہ
طوفان آجاۓ گا تو تُم اپنے بناۓ ہوۓ اِس سفینہِ نجات میں اپنے اَفرادِ خانہ
کے علاوہ ہر جان دار کے ایک ایک نر و مادہ کے جوڑے کو بھی بٹھا لینا سواۓ
اُن لوگوں کے جن کی غرقابی کے فیصلے سے تمہیں پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا ھے
اور خبر درار خبر دار ! جن لوگوں نے زمین و اہلِ زمین پر ظلم کیا ھے اُن
لوگوں کے لیۓ ہر گز ہر گز کوئی حرفِ سفارش زبان نہیں لانا کیونکہ اِس طوفان
کے ذریعے اُن سب لوگوں کے غرق ہو جانے کا اِلٰہی فیصلہ ہو چکا ھے ، پھر جب
آپ اور آپ کے سارے ہَمسفر پُر سکون ہو کر کشتی میں بیٹھ جائیں تو تُم اپنے
ساتھیوں کو اِس اَمر کی تعلیم دینا کہ تمام تعارف و تعریف کا حق دار اللہ
ھے جس نے ہمیں ظلم سے بچالیا ھے اور سب کو یہ دُعا بھی سکھا دینا کہ اے
ھمارے پروردِگار ! اِس سفرکے دوران اِس کشتی کے مُسافروں میں اضافہ کر کے
اِن کی منزلِ مقصود کو بار آور بنا دینا کیونکہ تیری ذات ہی اہلِ سفر کی
منزلِ مقصود کو خیر اور خوبی دیتی ھے ، یہ اللہ تعالٰی کے وہ تعلیمی و
تربیتی اَحوال ہیں جن سے ھم اپنی زمین پر آباد قوموں اور ملّتوں کو گزارتے
رہتے ہیں ، پھر اِس کے بعد ھم نے ایک دُوسری اُمت پیدا کی اور اُس اُمت میں
بھی ھم نے مُسلسل اپنے وہ رسول بہیجے جنہوں نے اُس اُمت کو اِس بات کی
تلقین کی کہ تُم اللہ کے سامنے فروتنی اختیار کرو کیونکہ اللہ تعالٰی کے
سوا کوئی بھی تُمہارا پروردِ گار نہیں ھے تو کیا تُم حق کے اِس پیغام کے
بعد بھی سرکشی ترک نہیں کرو گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا حرفِ اَوّل بھی حرفِ عطف واؤ ھے جس نے موجُودہ اٰیات کے
موجُودہ مضمون کو سابقہ اٰیات کے سابقہ مضامین سے اور سابقہ اٰیات کے سابقہ
مضامین کو موجُودہ اٰیات کے موجُودہ مضمون سے اِس طرح پر مر بوط کیا ہوا ھے
کہ اِن مضامین میں بیان ہونے والے اِن واقعات اور انسانی تاریخ کے دُوسرے
معروف واقعات کے مطابق آدم علیہ السلام کے بعد نُوح علیہ السلام انسانی
تاریخ کے وہ دُوسرے معروف نبی ہیں جن کو انسانی تاریخ کے اِن معروف تاریخی
واقعات کے حوالے سے آدمِ ثانی کہا جاتا ھے ، قُرآنِ کریم نے نُوح علیہ
السلام کا جن 42 مقامات پر ذکر کیا ھے اُن 42 مقامات میں سے سُورَةُالنساء
کی 163 و سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 69 ، سُورَہِ توبة کی اٰیت 70 و سُورَہِ
یُونس کی اٰیات 71 ، سُورَہِ ھُود کی اٰیت 32 و 36 ، 42 و 45 ، 46 و 48 و
89 ، سُورَہِ ابراھیم کی اٰیت 9 ، سُورَةُالاَسراء کی اٰیت 3 و 17 ،
سُورَہِ مریم کی اٰیت 58 اور سُورَةُالحج کی اٰیت 42 سمیت سُورَةُالمؤمنون
کی اِس اٰیت 23 کا یہ مقام وہ 17واں مقام ھے جہاں پر قُرآنِ کریم نے نُوح
علیہ السلام کا ذکر کیا ھے لیکن اِس سے قبل قُرآنِ کریم نے اپنی کتابی
ترتیب میں ترتیب سے آنے والے اِن سترہ مقامات میں سے جن دو مقامات پر نُوح
علیہ السلام کا تفصیل سے تذکرہ کیا ھے اُن میں سے پہلا مقام سُورةُالاَعراف
اور دُوسرا مقام سُورَہِ ھُود کی وہی اٰیاتِ بالا ہیں جن کا سطورِ بالا میں
ھم نے ذکر کیا ھے ، قُرآنِ کریم نے جن انبیاۓ کرام کے جن مُختلف واقعات کا
جن مُختلف مقامات پر ذکر کیا ھے اُن مُختلف واقعات و مقامات میں زیادہ تر
اُن اَنبیاۓ کرام کی اُن سرکش اُمتوں کے اُن سر کش اَفراد کی اُن مُزخرافات
کا ذکر کیا گیا ھے جو مُزخرفات اُن اَقوام کے وہ اَفراد اکثر و بیشتر اپنی
گندی زبانوں پر لاتے رہتے تھے اور اُن اَقوام کے اُن اَفراد کی وہ مُزخرفات
اُن اَقوام کے اُن اَفراد پر نازل ہونے والے عذاب کے اَسباب کے طور پر جمع
ہوتی رہتی تھیں ، اِن تاریخی واقعات کے درمیان میں اُن اَقوام کے اُن افراد
پر جو فردِ جُرم عائد کی گئی ھے اگر اُس فردِ جُرم کی تشہیر نہ کی جاتی تو
اُن لوگوں پر نازل ہونے والے عذاب کا جواز سامنے نہ آتا اور اگر اُس جواز
کو سامنے لانے کے لیۓ وہ سارے اَسبابِ ستم ایک ہی جگہ پر جمع کر دیۓ جاتے
تو تاریخ کا وہ بیانیہ ایک ایسا تبرٰی بن کر ظاہر ہوتا کہ جس کا پڑھنا
پڑھنے والوں کے لیۓ دُشوار ہو جاتا اِس لیۓ اُن لوگوں کی اُن بدزبانیوں کو
توڑ توڑ کر بیان کیا گیا ھے تاکہ اِس کتاب کے پڑھنے والے اُن اَقوام کے اُن
اَفراد پر آنے والے عذاب کے اَسباب کو سمجھ جائیں اور اُن اَسباب کی شدت
بھی اُن پر اتنی شدید نہ ہو کہ وہ اِس کو پڑھ ہی نہ سکیں ، چناچہ نوح علیہ
السلام کا قُرآنِ کریم نے جو واقعہ سُورَةُالاَعراف میں نقل کیا ھے اُس میں
نُوح علیہ السلام کے بارے میں قومِ نوح کا یہ قول نقل کیا ھے کہ تُم ایک
گُم راہ انسان ہو اِس لیۓ ھم تُمہاری گُم راہی کی کوئی بات سُننے کے لیۓ
تیار نہیں ہیں ، سُورَہِ ھُود میں اُن لوگوں کے نُوح علیہ السلام کو سُناۓ
گۓ اِس قول کا حوالہ دیا گیا ھے کہ تُمہارے تابع دار نیچ لوگ ہیں اور تُم
ھمارے معاشرے میں اِن نیچ لوگوں کے ایک نمائندے ہو اور قُرآنِ کریم نے اِس
سُورت کے اِس مقام پر بھی اُن لوگوں کا وہی مکالمہ نقل کیا ھے جو مکالمہ وہ
لوگ ایک دُوسرے کو سُناتے رہتے تھے اور وہ مکالمہ وہ بار بار ایک دُوسرے کو
سُنا کر ایک دُوسرے کو نُوح علیہ السلام کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے ، قُرآنِ
کریم نے نُوح علیہ السلام کے زمانے سے سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے تک
کے مُختلف مُشرکوں کا جو اَحوال بیان کیا ھے اور اُن مُشرکوں کے اُس اَحوال
سے مُشرکینِ عالَم کا جو مُشترکہ مرض سامنے آیا ھے وہ یہ ھے کہ ہر زمانے
اور ہر زمین کے مُشرکین ایک انسان کو تو اپنا مُشکل کشا بنانے میں ایک
لَمحے کا بھی توقف نہیں کرتے لیکن شرک کی اِس گُم راہی سے روکنے والے انسان
کو عُمر بھر اللہ تعالٰی کا نبی ماننے سے انکار کرتے رہتے ہیں ، نُوح علیہ
السلام ساڑھے نو سو سال تک اِن بد بخت لوگوں کے درمیان نوحہ کرتے رھے لیکن
اِس پُورے زمانے میں لوگوں نے آپ کی تصدیق کے بجاۓ آپ کی مُسلسل تکذیب کی
جس تکذیب اور توھین سے تنگ آکر نُوح علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے اُس قوم
کو تباہ و برباد کرنے کی درخواست کی اور اللہ تعالٰی نے سفینہِ نُوح میں
آنے والے چند ایمان دار اَفراد کے سوا باقی سب مُشرکوں کو تباہ و برباد
کردیا اور جس طریقے سے برباد کیا ھے اُس کی تفصیل اٰیاتِ بالا کے مفہومِ
بالا میں موجُود ھے !!
|