افشین درانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں شبو اور بالے نامی بہن بھائی
اپنے والدین کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ ان کے والدین صبح سویرے کھیتوں میں کام
کرنے جاتے اور شام میں گھر لوٹتے۔ اس ہی دوران دونوں بچے گھر میں اکیلے
ہوتے۔ شبو سارا دن گھر کے کام کاج اور صفائی میں مصروف رہتی جبکہ بالے اپنا
سارا وقت کھیل کود اور کھانے پینے میں گزارتا۔ شبو اپنے بھائی کو ہمیشہ
سمجھاتی رہتی کہ اماں ابا کا ہاتھ بٹانے جایا کرو۔ ابھی ان کی عمر ہو گئی
ہے، جب تک انسان کے ہاتھ پیر سلامت ہوں تو اسے ہر ایک کی مدد کے لیے آگے
آگے ہونا چاہیے۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ کھیل کے وقت کھیل اور کام کے
وقت کام کیا کرو۔ دوسروں کے کام آؤ گے تو اﷲ تعالیٰ بھی خوش ہوتا ہے، مگر
بالے پر کسی بات کا اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ تو ایک کان سے سن کر دوسرے سے
نکال دیتا تھا۔ اور کہتا ’’مجھ سے نہیں ہوتے یہ کام مجھے کھیلنا بہت پسند
ہے۔ اس ہی طرح دن گزرتے گئے۔
ایک صبح اماں ابا جب کام پر نکلے تو شبو نے سارے گھر کا کام مکمل کیا اور
کھانا بنانے کی تیاری کرنے لگی۔ پتا لگتا ہے کہ لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں۔ شبو
نے بالے سے کہا کہ میرے ساتھ چلو جنگل سے کچھ لکڑیاں لے کر آتے ہیں۔ اماں
ابا کے لیے کھانا بنا کر پہنچانا بھی ہے، مگر بالے نے صاف انکار کر دیا کہ
میں تھکا ہوا ہوں۔ میں نہیں چلوں گا۔ شبو نے بھائی کو ساتھ چلنے پر بہت
اصرار کیا۔ آخر کار وہ چلنے کو راضی ہو گیا۔ کچھ دیر چلتے چلتے وہ جنگل
پہنچے۔ بالے بولا ’’میں بہت تھک گیا ہوں۔ تم جاؤ لکڑیاں اکٹھی کرو اور میں
یہاں انتظار کرتا ہوں۔‘‘ شبو کو اپنے بھائی کی اس بات پر بہت افسوس ہوا اور
وہ لکڑیاں اکٹھی کرنے تھوڑا آگے نکل گئی۔ بالے برا سا منہ بنا بیٹھا تھا کہ
سامنے سے ایک ادھیڑ عمر خاتون ایک بھاری سا کپڑے کا تھیلا اٹھائے ہوئے بالے
کی طرف آئی اور کہنے لگی ’’اے لڑکے! میں جب سے سفر میں ہوں، اس بھاری تھیلے
کو اٹھانے کی مجھ میں اور ہمت نہیں ہے۔ اسے اٹھانے میں میری مدد کرو۔ اﷲ
تمہیں اس کا اجر دے گا۔ مگر بالے نے عادت سے مجبور صاف انکار کر دیا کہ وہ
یہ نہیں اٹھا سکتا۔ اتنی دیر اٹھایا تھا، تھوڑی دیر اور اٹھا لو۔ ویسے بھی
تم کہ رہی ہو تمہارا گاؤں پاس میں ہی ہے۔
‘‘
عورت بالے کی یہ بات سن کر مایوس ہو گئی اور آگے چل دی اور ادھر شبو لکڑیاں
اٹھانے میں مصروف تھی۔ کیا دیکھتی ہے کہ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر شخص کپڑے
کا بھاری تھیلہ اٹھائے اس کی طرف چلتا ہوا آ رہا ہے۔ شبو کو اس کی حالت
دیکھ کر بہت ترس آیا اور اس کی طرف بڑھ کر کہا۔ ’’لائیں ابا! میں یہ تھیلہ
اٹھانے میں آپ کی مدد کرتی ہوں۔‘‘ اس بوڑھے شخص کو شبو کی رحمدلی بہت پسند
آئی اور وہ بولا کہ ’’اے بچی! اﷲ تمہیں اس کا اجر دے۔ میرا جھونپڑا سامنے
ہی ہے۔ میں اٹھا لوں گا مگر میں تمہیں تمہاری رحمدلی پر تم کو ایک انعام
دینا چاہتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہی اس بوڑھے شخص نے اپنی تھیلی میں سے کپڑے کا
چھوٹا سا تھیلہ اٹھا کر شبو کو دیا اور آگے چل دیا۔ شبو انعام پا کر بہت
خوش ہوئی۔ اتنے میں ایک زور دار چیخ کی آواز آئی۔ ارے یہ آواز تو بالے کی
ہے۔ دیر نہ لگی کہ شبو نے اس طرف دوڑ لگائی، وہاں جا کر دیکھتی ہے کہ بالے
زمین پر پڑا ہے اور ایک درخت کی شاخ اس کے پاؤں پر گر گئی ہے۔ شبو کو اپنے
بھائی کی یہ حالت دیکھ کر بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔ اس نے اپنے بھائی کو سہارا
دے کر اٹھایا اور گھر لے آئی۔ اتنے میں اپنے اماں ابا کو بھی اس نے گھر پہ
بلا لیا۔ اما ابا بھی بالے کی یہ حالت دیکھ کر بہت پریشان ہو گئے اور انہوں
نے ایک معالج سے رابطہ کیا۔ پتہ لگا کہ معالج کی فیس تو بہت بڑی ہے اور اور
ان کے پاس تو اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ معالج سے بالے کا علاج کرا سکیں۔
اسے اپنی بہن کی تمام باتیں یاد آنے لگیں کہ انسان جب تک اپنے پیروں پر
کھڑا ہوتا ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔ اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کی مدد
کرے۔ دوسروں کے کام آئے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے اﷲ خوش ہوتا ہے اور اس کو
اپنی تمام حرکتوں پر بہت افسوس ہوا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جب بھی صحت یاب
ہو گا، وہ دوسروں کی مدد کرے گا اور اماں ابا کا ہاتھ بھی بٹائے گا۔ اس نے
دل سے توبہ کی۔ اب جبکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے علاج کے پیسے نہیں
تھے۔ اچانک شبو کو یاد آیا کہ اس کو انعام میں اس بوڑھے شخص نے ایک تھیلا
دیا تھا۔ وہ بھاگتے دوڑتے اس تھیلی کو اٹھاتی ہے اور اس کو جب کھول کے
دیکھتی ہے تو اندر ڈھیر سارے سونے کے سکے ہوتے ہیں اور وہ یہ سونے کے سکے
دیکھ کے بہت خوش ہوتی ہے اور بالے کے پاس آ کر کہتی ہے۔ میں نے تم سے کہا
تھا نا تم کسی کے کام میں مدد کرنے کی صرف نیت کرو۔ اﷲ تمہیں اس سے زیادہ
دے گا۔ اس پر بالے بہت شرمندہ ہوا اور دل سے معافی مانگی۔ پھر شبو نے اس
میں سے کچھ اشرفیاں اپنے ابا کو پکڑائیں اور کہا کہ اس سے بالے کا علاج
کرائیں۔ کچھ ہی دنوں کے بعد بالے کی ٹانگ بالکل ٹھیک ہو گئی اور اب وہ ہر
ایک کی مدد کرنے کو آگے آگے ہوتا اور اسے اس بات کا بھی احساس ہو گیا تھا
کہ دوسروں کی مدد کرنے سے جو ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے، اسے دیکھ کے
ہم اندر سے کتنے مطمئن ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح اس نے اپنی تمام زندگی لوگوں کی مدد کرنے میں ہی گزاری۔ خود بھی
خوش رہتا اور دوسروں کو بھی خوش رکھتا تھا۔ تو بچو! ہمیں اس کہانی سے یہ
سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم دوسروں کی مدد کر کے اﷲ تعالیٰ کو بھی خوش
کرتے ہیں اور خود بھی مطمئن رہتے ہیں۔ تم دوسروں کی مدد کرو گے تو اﷲ
تمہاری مدد کرے گا۔ تم دوسروں کو سکون دو گے تو اﷲ تمہیں سکون دے گا۔
|