نبیلہ شہزاد (لاہور)
شیخ نوازش علی بالائی منزل کے اس کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھے اپنے ہم دکھ
سکھ دوست سے خوش گپیوں میں مشغول تھے، جہاں سے گھر کے بیرونی گیٹ کی طرف
جاتا راستہ صاف دکھائی دیتا تھا۔ با ذوق انسان، نوازش علی نے اس راستے کے
اطراف پر پھولوں کے پودے لگا رکھے تھے، جن کی خوبصورتی اپنے جو بن پر تھی،
لیکن اس بہار کے عین وسط میں کھڑی شیخ صاحب کی زوجین ایک دوسری کو بے مثال
کلمات سنا رہی تھی۔ کھڑکی کھلی ہونے کی وجہ سے یہ سریلے نغمات شیخ صاحب کے
بھی کانوں تک رسائی حاصل کر رہے تھے۔ اس نے اپنی دونوں بیگمات کو گھر ایک
مگر الگ الگ پورشنز میں رکھا تھا۔ پھر بھی جب کبھی ان کا ٹاکرا ہوتا تو خوب
ہوتا۔ اب اگلا مرحلہ دونوں کا شیخ صاحب کے پاس شکایت لے کر آنا تھا۔ اس لیے
وہ ان کے آنے سے پہلے ہی گھر سے نکل جانا چاہتا تھا۔ اس نے حواس باختگی میں
ہی جلدی سے گاڑی کی چابی پکڑی اور کمرے سے نکلنے لگا۔ مخلص دوست نے آگے بڑھ
کر چابی اس کے ہاتھ سے پکڑی اور کہا، ’’شیخ صاحب! آپ کی گاڑی گیراج میں
کھڑی ہے، وہاں جائیں گے تو بیگمات کی بمباری کی زد میں آنے کا خدشہ ہے۔ ہو
سکتا ہے کہ ان کے منہ سے نکلا کوئی گولا بارود آپ کی شہادت کا باعث بن جائے
اور میں اپنے پیارے دوست سے محروم ہو جاؤں۔‘‘ لہٰذا یہ میری گاڑی کی چابی
پکڑیں، جو گھر کے پچھلی طرف کھڑی ہے۔ آپ پچھلے دروازے سے نکلیں۔ میں آپ کی
گاڑی لے کر مین گیٹ سے نکلتا ہوں۔‘‘ شیخ صاحب مشکور نظروں سے عزیز دوست کو
دیکھتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔
بیچارے شیخ نے دوسری شادی بڑے چاؤ سے کی تھی لیکن انسان کا برا وقت کب پوچھ
کر آتا ہے۔ دوسری بیوی پہلی سے بھی چار ہاتھ تیز نکلی۔ کہتے ہیں کہ گیدڑ کا
جب برا وقت آتا ہے تو وہ جنگل سے شہر کا رخ کر لیتا ہے۔ اسی طرح مرد اپنے
پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہوئے دوسری شادی کی طرف رخ کر لیتا ہے۔ دوسری شادی
ایک ایسا لڈو ہے جسے کھانے کی حسرت ہر مرد کے دل میں ہوتی ہے۔ اکثر بیچارے
تو اس حسرت کو دل کے تہہ خانوں میں ہی چھپائے رکھتے ہیں اور کچھ ببانگ دہل
اس کارخیر کو سر انجام دیتے ہیں۔ پھر چاہے یہ شادی خانہ بربادی کی ہی تصویر
بنی رہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس مرد کی دوسری شادی ہو جائے، اس کی ماں
کبھی نہیں مرتی۔ پوچھنے والوں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہا جب وہ ایک بیوی کے گھر
میں جاتا ہے تو دوسری کہتی ہے، ’’آ گیا ہے اس ماں کے گھر سے‘‘ اور جب وہ
دوسری کی طرف جاتا ہے تو وہاں سے بھی یہی پیار بھرا جملہ سننے کو ملتا ہے،
جس کی وجہ سے دونوں گھر اس کی ماں کے گھر بن جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ، ایک
شادی والے مردوں کی خوش فہمی ہے کہ دو بیویوں والوں کی خدمت خوب ہوتی ہے۔
دونوں بیگمات اپنا نمبر بنانے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شوہر کی خدمت
کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب زیادہ خدمت والا
فلسفہ بھی وقت کے دریا میں بہہ چکا ہے۔ اب تو جدید دور کی جدید بیویاں،
اتنی خدمت کرتیں ہیں کہ نہ صرف شوہروں کے سر سے بال اڑ جاتے ہیں بلکہ انہیں
نقدی کا بوجھ بھی نہیں اٹھانے دیتیں۔ ایک اگر ہزار روپے خرچ کرتی ہے تو
دوسری اگلے لمحے دو ہزار کا شوہر کو ٹیکہ لگا کر سکون کا سانس لیتی ہے۔ پھر
اس مسکین بچہ نما شوہر کو زیادہ تر اپنی آمدن ان سے چھپا کر رکھنی پڑتی ہے
اور ان کے سامنے اپنی تنگدستی کا رونا رونے کے لیے الفاظ بھی ذہن نشین کرنے
پڑتے ہیں۔
اگر کوئی دو بیویاں رکھنے والا آدمی مردوں کی محفل میں بیٹھ کر نہ صرف
دوسری شادی کے فوائد بتا رہا ہو بلکہ انہیں دوسری شادی کرنے کی ترغیب بھی
دے رہا ہو تو سمجھ لیں کہ وہ بیچارہ اپنے گھر میں جی بھر کر دکھی ہے اور اب
انتقاماً دوسروں کو بھی اس کشت ویراں میں جھونکنا چاہتا ہے۔ کچھ کی بیگمات
اتنی جابر ہوتیں ہیں کہ ان بیچاروں کی حسرت ہی رہتی ہے کہ یہ بنات حوا کبھی
تو اکٹھی مل بیٹھ کر تھوڑی بہت گپ شپ بھی لگا لیں۔ کیونکہ حقیقت حال میں ان
کی بیگمات غصے کی بندوق پکڑ کر ٹریگر پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہوتیں ہیں۔ کہ اگر
کبھی آمنا سامنا ہوا تو یک لخت ایک دوسرے کو اڑا دیں گی۔ لیکن کچھ حضرات اس
فیلڈ میں اتنے جینیئس ہوتے ہیں کہ اندر لے کھاتے۔ بے شک بیگمات کے سامنے
ہاتھ جوڑ کر انہیں باہر سب اچھا دکھانے کی منتیں کریں لیکن باہر آ کر پر
اعتماد انداز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انکی بیگمات کے درمیان مثالی محبت ہے
اور بیگمات بھی اس شوق میں کہ شاید کوئی چینل والے ان کی آپس کی مثالی محبت
دیکھ کر ان کا انٹرویو ہی لینے آ جائیں۔ پھر چاہے آپس میں منہ بسور کر دور
دور ہی کیوں نہ بیٹھیں ہوں، لیکن کسی کی اپنے گھر میں آمد پر دکھاوے کے طور
پر ایسے جڑ کر بیٹھ جائیں گی۔ جیسے یہ بیچاریاں پیدا ہی جڑواں ہوئی ہوں۔
مردوں کے دوسری شادی کروانے کے بھی اپنے اپنے انداز ہیں۔ کچھ دھوم دھڑکے سے
مگر زیادہ تر بچارے لک چھپ کر ہی کرواتے ہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ
ہمارے گھر سے چھٹے گھر میں رہنے والے زبیر صاحب نے تبلیغ کے بہانے گھر سے
ایک ہفتہ چھٹی لی اور یار بیلیوں کے ساتھ برات لے کر دوسری شادی رچانے چلے
گئے۔ یہ ایک ایسا تبلیغی سفر تھا، جس کا ثواب موصوف آج تک خوب کما رہے ہیں
اور ڈھول کی طرح پٹ رہے ہیں۔ اب ہمیں اس مبلغ صاحب کی حالت زار کو دیکھ کر
دکھ تو ہو گا نا، کیونکہ شریعت نے اس1351ے ہمارا ہمسایہ کہا ہے۔ میں مردوں
کی ایک سے زیادہ شادی کی مخالف نہیں۔ کروائیں ضرور کروائیں، مگر اپنی ہڈی
پسلی دیکھ کر۔ بھئی! جنہوں نے کھائی گاجریں، ان کے پیٹ میں درد ہمیں اس سے
کیا؟
|