٭… ''یہ حدیث سفیان نے ابو زبیر
سے انہوں نے ابراہیم سے سنی'' محدث نے سند بیان کی۔
''استاد محترم! ابو زبیر ابراہیم سے حدیث روایت نہیں کرتے'' درس میں شریک
ایک گیارہ سالہ بچے نے استاد کی توجہ دلانے کی کوشش کی۔ استاد نے بچے کو
جھڑک دیا مگر بچہ اپنی بات پر مُصر رہا اور گزارش کی: ''استاد محترم! اپنی
کتاب میں دیکھ لیجئے''
استاد نے اصل کتاب دیکھی اور واپس آ کر بچے سے پوچھا: اصل سند کیا ہے؟
''یہ حدیث سفیان نے ابو زبیر سے نہیں بلکہ زبیر سے اور انہوں نے ابراہیم سے
روایت کی'' بچے نے اصل سند بیان کی۔ استاد نے فوراً قلم اٹھایا اور سند کی
تصحیح کر لی۔
یہ بچہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم تھا، جو آگے چل کر شیخ الاسلام
امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری کے نام سے مشہور ہوا۔ ولادت 13 شوال
194ھ، وفات 256ھ۔
٭… بھائی! جب درس میں شرکت کرنی ہی ہے تو کچھ لکھا بھی کرو، وقت تو ضائع نہ
کرو''۔ ہم عصر ساتھیوں نے بخاری سے کہا، وہ ان کی بات سنتے رہے، یہاں تک کہ
16 دن اسی طرح گزر گئے۔ ملامت کا سلسلہ جاری تھا، چنانچہ تنگ آ کر ساتھیوں
سے کہا:
''لائو! دکھاؤ! تم نے کیا لکھا ہے'' ساتھیوں نے اپنے تحریری نسخے آگے کر
دئیے، جن میں پندرہ ہزار احادیث لکھی ہوئی تھیں۔ بخاری نے کہا: ''لو، سنو''
اور تمام حدیثیں زبانی اس طرح سنا دیں کہ انہیں سن کر ساتھیوں نے اپنے
نسخوں کی اصلاح کی۔ (تاریخ خطیب جلد 2)
٭… ''کاش! تم ایک ایسی کتاب لکھتے جس میں صرف اور صرف صحیح احادیث ہوتیں''
امام اسحق بن راہویہ نے اپنے قابل فخر شاگرد بخاری سے کہا۔ شاگرد اتنی بڑی
خدمت کا خود کو اہل نہ پاتا تھا، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ خواب
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور خود کو حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا پنکھا جھلتا اور مکھیوں کو دور کرتا دیکھا۔
تعبیر واضح تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام
میں جو جھوٹ اور بہتان کی غلاظتیں شامل کی گئی تھیں، ان کو دور کرنے کا کام
لینا چاہتا تھا، چنانچہ انتہائی کڑی شرائط پر صحیح بخاری کی تالیف کا آغاز
فرمایا۔ ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے غسل کیا، دوگانہ ادا کیا اور پھر حدیث
درج کی۔ اس طرح 16 سال کے طویل عرصے میں یہ گلدستہ تیار ہوا جو اصح الکتب
بعد کتاب اللہ قرار پایا۔ (تاریخ خطیب جلد 2)
٭… ''امام صاحب! میں چاہتا ہوں کہ آپ بنفنس نفیس تشریف لا کر میری مجلس میں
اپنی تصانیف صحیح بخاری اور تاریخ کبیر سنائیں'' امیر بخارا خالد بن احمد
نے پیغام بھیجا۔
''میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ یہ علم کی بے توقیری ہے'' امام نے کہلا
بھیجا۔
''اگر ایسا ممکن نہیں تو میرے بیٹوں کیلئے ان کتابوں کے درس کا علیحدہ وقت
مقرر کر لیں، جس میں ان کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو'' خالد بن احمد نے آخری
درجے میں یہ شرط رکھی۔
''میں ایسا بھی نہیں کر سکتا'' امام بخاری نے دوٹوک جواب دیا، چنانچہ اسی
خود داری کے جرم میں امام بخاری جلا وطن کر دئیے گئے۔
٭… ''یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم! کس کا انتظار ہے'' ایک اہل اللہ
بزرگ نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چند صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم کے ساتھ کسی کے انتظار میں پا کر دریافت کیا۔ ''محمد بن اسماعیل بخاری
آ رہے ہیں، ان کے انتظار میں ہوں''۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔
صبح جب ان اللہ والے بزرگ کو معلوم ہوا کہ امام بخاری وفات پا چکے ہیں تو
حساب لگانے سے یہ دن وہی وقت نکلا، جس وقت انہوں نے خواب میں حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کو امام بخاری کا انتظار فرماتے ہوئے دیکھا تھا۔
٭… ''جو شخص محمد بن اسماعیل کے مسلک پر ہو، وہ کل سے میرے درس میں نہ
آئے'' امام محمد بن یحییٰ الذہلی نے اعلان کیا، شرکائے درس میں حجة الاسلام
امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ (261ھ۔ 206ھ) بھی بیٹھے ہوئے تھے جو امام محمد
بن اسماعیل بخاری کو سید المحدثین اور طبیب الحدیث فی عللہ کہتے اور اپنا
مقتداء مانتے تھے۔ امتحان سخت تھا نہ محمد بن یحییٰ کا درس ایسا تھا کہ اسے
خیرباد کہہ دیا جائے، نہ امام بخاری کی حمایت ترک کی جا سکتی تھی۔ امام
مسلم نے عقل و دل کے معرکے میں دل کا فیصلہ قبول کیا، اسی وقت عمامہ سر پر
رکھا، نسخے اٹھائے اور چل پڑے۔ بعد میں امام ذہلی سے جتنی احادیث نقل کی
تھیں، وہ بھی واپس کر دیں کہ جو شخص امام بخاری سے بغض و عداوت رکھتا ہو،
خواہ وہ کتنا ہی بڑا محدث ہو، اس قابل نہیں کہ اسے استاد کا درجہ دیا جائے۔
(تاریخ خطیب جلد 13، ص 100۔ تذکرة الحفاظ جلد 2 ص 150)
٭… ''دوست! کس حال میں ہو؟'' امام ابو حاتم رازی نے امام مسلم کو وفات کے
بعد خواب میں دیکھ کر پوچھا۔
فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے میرے لیے جنت کو مباح قرار دیا ہے، جب اور جس وقت
جہاں جانا چاہوں جا سکتا ہوں''۔ (ابن خلکان جلد 2 ص 91)
٭… ''حضرت! آپ قمیص کی ایک آستین کشادہ اور دوسری تنگ کیوں رکھتے ہیں؟''
کسی عقیدت مند نے امام ابو دائود سبحستانی (275ھ۔202ھ) سے پوچھا، فرمانے
لگے:
''ایک آستین تو اس لیے کشادہ رکھتا ہوں تاکہ اس میں اپنی تحریر کے اجزا رکھ
لوں جہاں تک دوسری آستین کا تعلق ہے تو اس کا ایسا کوئی سبب نہیں، اس لیے
اسراف سے بچنے کیلئے اسے تنگ رکھتا ہوں''۔ (بستان المحدثین)
٭… حضرت! میں نے کسی سے سن کر آپ سے کچھ روایتیں نقل کی ہیں۔ اگر آپ مناسب
سمجھیں تو ان کی قرأت فرما دیں''۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی (279۔ 209ھ) نے مکہ
مکرمہ میں بر سبیل ملاقات محدث سے درخواست کی۔
''ٹھیک ہے تم لکھا ہوا دیکھتے رہو، میں قرأت کرتا ہوں''۔ محدث نے درخواست
قبول کی۔
امام ترمذی نے اپنے سامان میں اس نسخے کو تلاش کیا، جس میں یہ روایتیں
تھیں، مگر وہ ملنا تھا نہ ملا۔ خفت مٹانے کیلئے انہوں نے ایک سادہ کاغذ
ہاتھ میں لیا اور یوں غور سے اسے دیکھنے لگے، جیسے واقعی تقابل کر رہے ہیں۔
اچانک محدث کی نظر خالی کاغذ پر پڑی۔
''تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو!'' محدث طیش میں آ گئے۔
ترمذی نے تمام بات عرض کی اور کہا ''حضرت! مجھے یہ روایتیں اسی طرح یاد ہیں
جس طرح لکھی تھیں لفظ بہ لفظ''
''اچھا! ذرا پڑھ کر سناؤ''۔ محدث نے اتنا بڑا دعویٰ سنا تو تصدیق کیلئے حکم
صادر فرمایا۔ امام ترمذی نے تمام حدیثیں سنا دیں۔
شیخ کو ان کے محیر العقول حافظہ پر یقین نہ آیا، چنانچہ امتحان لینے کیلئے
40 روایتیں بیان کیں، جو امام ترمذی نے اس سے قبل کہیں نہیں سنی تھیں۔ امام
ترمذی نے ایک ہی مرتبہ سن کر وہ اس طرح لفظ بہ لفظ سنائیں کہ غلطی تو
درکنار اٹکن بھی نہ آئی۔
٭… ''استاد محترم! آج ملک نیشا پور میں بدیع الزماں ابو الفضل ہمدانی آیا
ہوا ہے۔ اس کا حافظہ غضب کا ہے۔ بیٹھے بیٹھے سینکڑوں اشعار ادھر سنتا ہے
اور ادھر سنا دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حفاظ حدیث کی میرے مقابلے میں کوئی
حیثیت نہیں۔ اس طرح وہ حدیث سے لوگوں کے اعتماد کو ہٹا رہا ہے'' شاگردوں نے
امام ابو عبداللہ حاکم (327-405ھ) کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ بات واقعی
تشویش ناک تھی اور ایسے لوگوں کا ناطقہ بند کرنا ضروری تھا۔
''یہ احادیث اسے دو اور کہو کہ ایک ہفتے کی مہلت ہے یاد کرکے لفظ بہ لفظ
سنا دے''
امام نے کچھ احدیث نکال کر شاگردوں کو دیں۔
ایک ہفتے کے بعد اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا اور کہا کہ اتنے مختلف
الفاظ، انواع و اقسام کے مضامین اور غیر مرتبط کلام کو میں یاد نہیں کر
سکتا۔ یوں امام نے اسے آئینہ دکھا دیا۔ (طبقات شافعیہ)
یہ حدیث کی کتابیں مرتب کرکے یہ مقدس امانت ہم تک پہنچانے والے جلیل القدر
ائمہ محدثین حضرات کے کردار و عمل اور حفظ و اتفان کی چند نا مکمل تصویریں
ہیں، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حضرات عنداللہ مقبولیت اور
عظمت کردار کے کس اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔
کاش کہ اپنے خبث باطن کے کریہہ آئینے میں ان نفوس قدسیہ کو دیکھ کر احادیث
پر زبان طعن دراز کرنے والے پرویزی، مودودی، و غامدی وغیرہ کے پیروکار نام
نہاد اسکالرز حقائق کی روشنی میں ان ہستیوں کے حزم و احتیاط کا ادراک کرتے
لیکن اگر کورہ چشم سورج کی تابناکیوں میں بھی کچھ نہ دیکھ سکے تو قصور سورج
کا نہیں اس کا اپنا ہے۔
آخر میں ہم ان کتب حدیث کا درس لے کر سند فراغت حاصل کرنے والے فضلائے کرام
کی خدمت میں اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ کی نسبت اس وقت انبیائے
کرام علیہم السلام، صحابہ کرام اور عظیم محدثین کرام سے ہے، ہر لمحہ اس
نسبت کا پاس رکھ کر ہی آپ اس موج عصیاں ور نئی روشنیوں کا مقابلہ کر سکتے
ہیں۔
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہو جاؤ گے افسانوں میں کھو جاؤ گے |