علوم رسالت ﷺ کے وارث حضرت علی
کرم اللہ وجہہ کے علم کی ایک جھلک
تحقیق و تحریر : محمد اسلم لودھی
نبی کریم ﷺ کے جسمانی وصال کو ابھی دس روز ہی گزرے تھے کہ اچانک ایک اعرابی
کسی دوسرے ملک سے مسافتیں طے کرتا ہوا مدینہ منورہ پہنچا ۔ مسجد نبوی کے
دروازہ پر آیا تازیانہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے اور چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے کہا
السلام علیکم یا اصحاب رسول اللہ ﷺ جو کچھ تم سے فوت ہوا ہے خدا تعالیٰ اجر
عطا فرمائے۔ ان کان محمد قدمات فان اللہ ح ¸ لایموت ابداً اعظم اللہ اجرکم
وغفرذنبکم مااعظم مصیبتکم یموت سیدکم صلوات اللہ علیہ ۔ صحابہ رضی اللہ
عنہم کو سیدکائنات علیہ افضل الصلوات و اکمل التحیات کی تعزیت کرنے کے بعد
کہا تم میں سے وصی پیغمبر کون ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی ؓ
کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہو کر سلام و تحیت بجا لایا کہا
السلام علیک یا فتی۔ امیر المومنین حضرت علی ؓنے کہا وعلیک السلام یا مضر
یا صاحب البیر۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور وہاں موجود تمام صحابہ بھی حضرت
علی کے جواب سے حیران ہوئے۔
اعرابی نے کہا اے جوان ! میرا نام آپ کو کیسے معلوم ہوا اور مجھے صاحب بیر
کس طرح کہا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا مجھے حضرت رسالت مآب ﷺ نے خبر دی تھی اور
تیرے حال کی کیفیت مجھے دکھائی ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو جو کچھ مَیں نے
حضورﷺ سے سنا ہے تم سے بیان کروں۔ اعرابی نے کہا تیرا نام کیا ہے آپ ؓ نے
فرمایا میرا نام علی بن ابی طالب ہے اور میں پیغمبر ﷺ کا چچا زاد بھائی
ہوں۔اعرابی نے کہا الحمد للہ ۔
حضرت علی ؓنے فرمایا تو عرب کا ایک مرد ہے تیرا نام "مضر "ہے تیری عمر ایک
سو ساٹھ برس ہے جس وقت تیری عمر سو سال تھی تو نے اپنی قوم کو حضورﷺ کی
بعثت کی خبر دی تھی اور آنحضور ﷺ کے اوصاف بتاتے ہوئے تم نے اپنی قوم کو یہ
کہا تھاکہ تہامہ میں ایک آدمی پیدا ہوا ہے جس کے رخسار چاند سے زیادہ منور،
گفتگو شہد سے زیادہ شیریں، جو شخص اس کی پیروی کرے گا٬ نجات پائے گا
۔مساکین اور یتیموں کا باپ ہو گا۔ صاحب شمشیر ہو گا، گدھے پر سوار ہو گا،
اپنے جوتے کو خود پیوند لگائے گا، شراب نوشی اور زنا کو حرام قرار دے گا،
قتل اور سود سے منع کرے گا خاتم الانبیاءاور سید اولیاءہو گا۔ پانچ وقت
نماز پڑھیں گے رمضان المبارک کے روزے رکھیں گے٬ حج بیت اللہ کریں گے۔ اے
میری قوم ! اس پر ایمان لے آﺅ اور اس کی تصدیق کرو۔ جب تو نے اس امر کی طرف
اپنی قوم کی رہنمائی کی توانہوں نے انکار کرتے ہوئے تیرے ساتھ ظلم و ستم کو
اختیار کیا ۔ تجھے گہرے کنویں میں ڈال دیا اور تکلیفیں دے کر اپنے دل کو
سکون بخشا۔ اب تک تو اس کنوئیں میں قید تھا جب حضرت محمدﷺ کی بساط حیات
لپیٹ دی گئی تو قدرت الہی نے تیری قوم کو سیلاب سے ہلاک کر دیا اور تجھے اس
گہرے کنویں سے نجات عطا فرمائی ۔ اس کے بعد تیرے کانوں میں غیب سے آواز آئی
۔ اے مضر، بلاشبہ محمدﷺ جسمانی طور پر اس دنیامیں نہیں رہے تو ا ن کے صحابہ
میں سے ہے ٬ مدینہ کی طرف جا اورآپ ﷺ کے روضہ مبارک کی زیارت کر۔
اے مضر! تو شب و روز منزلیں طے کرتا ہوا حکم الہی سے اب مدینہ منورہ پہنچا
ہے تا کہ حضورﷺ کی زیارت سے مشرف ہو۔ جب اس نے حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی
یہ باتیں سنیں تو زار و قطار رونے لگا اورپکار اٹھا ۔ اے علی! تو نے یہ قصہ
کیسے معلوم کیا ۔حالانکہ کسی بھی شخص کو اس کی خبر نہ تھی پھر تجھے کیسے
خبر ہو گئی۔ حضرت علی ؓنے فرمایا مجھے آنحضرت ﷺ نے تمہارے بارے میں خبر
دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میری جسمانی وفات کے بعد" مضر "نامی شخص میری قبر
پر آئے گا جب تو اس سے ملے تو میرا سلام اسے پہنچانا-"مضر"نے جب حضورﷺ کے
سلام کی خوشخبری سنی اور پیغام رسالت ﷺ کی سعادت سے فیض یاب ہوا تو آگے
بڑھا اور حضرت علی ؓکے سر مبارک کو بوسہ دیا اور نہایت ادب کے ساتھ ان کے
سامنے بیٹھ گیا۔ حضرت علی ؓنے ان سے درخواست کی کہ اپنے چہرہ سے پردہ اٹھا
دیں۔ " مضر "نے جب اپنے چہرہ سے پردہ اٹھایا تو ان کی پیشانی سے ایسا نور
چمکا کہ مسجد نبوی اس نور سے منور ہوگئی۔
اس کے بعد مضر نے کہا اے علی ؓ ! مجھے آپ ؓ سے کچھ سوال پوچھنے ہیں آپ ؓ
پیغمبر تو نہیںلیکن پیغمبر ﷺ کے وصی تو ہیں۔ حضرت علی ؓنے فرمایا آپ سوال
کریں۔ مضر نے کہا اے علیؓ !
ہمیں ایسے نر کے متعلق بتا یئے جس کا باپ اور ماں نہیں اور ایسی مادہ بغیر
ماں باپ کے موجود ہوئی ہو؟
ایسا رسول جو نہ جن ہو نہ انسان اور نہ ہی فرشتوں میں سے ہو چوپاﺅں اور
درندوں میں سے بھی نہ ہو؟
ایسی قبر جس نے قبر والے کو اپنے ساتھ سیر کرائی ہو؟
ایسا حیوان جس نے اپنے ساتھیوں کو ڈرایا ہو؟
ایسا جسم جس نے ایک بار کھایا پیا نہیں؟
زمین کا ایسا حصہ جہاں ایک مرتبہ سورج چمکا اور پھر آج تک نہیں چمکا اور نہ
ہی قیامت تک نہیں چمکے گا؟
ایسا پتھر جس سے زندہ پیدا ہوا؟
وہ عورت جس سے تین ساعت میں لڑکا پیدا ہوا ہو؟
دو ساکن جو حرکت نہیں کرتے؟
دو متحرک جو ساکن نہیں ہوتے؟
دو دوست جو دشمن نہیں ہوتے؟
دو دشمن جو دوست نہیں ہوتے؟
سب سے بری چیز اور سب سے اچھی چیز کی ہمیں خبر کیجئے؟
ہمیں شے اور لا شے سے اور اس سے جو پہلے رحم سے متعلق ہوتی ہے اور اور اس
سے جو آخر میں قبر میں جاتی ہے سے خبردیجئے؟
جب مضر نے اپنے سوال مکمل کرلیے تو حضرت علی ؓنے ان کا تفصیل سے جواب دیتے
ہوئے فرمایا۔
وہ نر جس کا ماں باپ نہیں وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
وہ مادہ جو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئی حضرت حوا رضی اللہ عنہا ہیں۔
وہ نر جو بغیر باپ کے پیدا ہوا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
وہ رسول جو جن،انسان فرشتوں سے نہیں تھا کوا تھا جسے حق تعالیٰ نے قابیل کو
تعلیم کے لیے بھیجا تھا۔
وہ قبر جس نے صاحب قبر کو اپنے ساتھ سیر کرائی وہ مچھلی تھی جس نے یونس
علیہ السلام کو پیٹ میں تین روز تک رکھا اور سمندر کے اطراف و جوانب میں
پھرتی رہی ۔
وہ حیوان جس نے اپنے ساتھیوں کو ڈرایا تھا چیونٹی تھی جو خوراک کی طلب کے
لیے باہر نکلی تھی کہ دوسری چیونٹیاں ایک ستون پر چڑھ رہی تھیں جو حضرت
سلیمان علیہ السلام کے سر کے اوپر تھا اس چیونٹی نے اپنی قوم سے کہا آگاہ
رہو کہ تمہارے گزرنے سے مٹی نہ گرے اور خدا کا پیغمبر تم سے تکلیف اٹھائے
گا۔
وہ جسم جس نے ایک بار کھایا ، پیا نہیں اور قیامت تک نہیں کھائے گا حضرت
موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہے۔ جس نے جادوگروں کے جادو کو ایک لقمہ میں ختم
کردیا۔
وہ زمین کا ٹکڑا جہاں ایک مرتبہ سے زیادہ سورج نہیں چمکا وہ دریائے نیل تھا
کہ حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے پھاڑا اور اس کی گہرائی کی
زمین دکھائی دینے لگی۔ سورج اس پر چمکا چنانچہ اس کے نیچے سے غبار اٹھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے گزر جانے کے بعد وہ مل گیا اور
اپنی پہلی حالت میں آگیا۔
جس سے حیوان پیدا ہوا وہ ایک پتھر تھا جس سے حضرت صالح پیغمبر علیہ السلام
کی اونٹنی پیدا ہوئی۔
وہ دو ساکن غیر متحرک زمین اور آسمان ہیں۔
تحریک سے یہاں مراد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہے۔
وہ دو متحرک جو ہرگز ساکن نہیں ہوتے چاند اور سورج ہیں۔
وہ عورت جس نے تین ساعت میں بچہ جنا حضرت مریم رضی اللہ عنہا تھیں۔ تین
ساعت میں حضرت عیسیٰ ان سے پیدا ہوئے۔
وہ دو دوست جو ہرگز دشمن نہیں ہوتے جسم اور جان ہیں ۔
اور وہ دو دشمن کہ ہرگز دوست نہیں ہوتے موت اور حیات ہیں۔
شے مومن اور لا شے کافر ہے۔
احسن اشیاءصورت بنی آدم ہے ۔
سب سے قبیح چیز بغیر سر کے بدن ہے۔
رحم میں سب سے پہلے جس کی شکل بنتی ہے انگشت شہادت ہے۔
قبر میں سب سے آخر میں جو چیز فنا ہوتی ہے بندہ کے سر کی ہڈی ہے جو
افضاءبہشت میں ہوتی ہے۔
مضر نے جب اپنے سوالات کے جوابات سنے تو اٹھ کرحضرت علی ؓ کے سر مبارک پر
بوسہ دیا۔ اور اصحاب رسول اللہ ﷺ جواس مجلس میں حاضر تھے انہو ں نے بھی آپ
ؓ کے سر کو بوسہ دیا اور ا نہیں رسول اللہ ﷺ کے علوم کا وارث جان کر فضائل
اور مدح و تعریف بیان کی۔ اس کے بعد مضر ؓنے کہا اے علی ؓ! مجھے نبی کریم ﷺ
کی قبر مبارک بتائیے تا کہ مَیں اس عالی صفات ذات ﷺ کی دنیا سے رحلت پر
آنسو بہاﺅں۔ مضر ؓ جب حضورﷺ کے روضہ اطہر کے دروازہ پر آئے آنسرور ﷺ کی قبر
کو اپنی بغل میں لے لیا اور اپنا سینہ اس ایمان و سکینہ کے صندوقچہ کے ساتھ
لگا لیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت علی ؓنے فرمایا مضر کو کچھ دیر اسی حالت میں
رہنے دو کیونکہ دنیا سے ان کی جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ ایک ساعت کے بعد
دیکھا کہ مضر ؓ نے اپنا سر قبر پر رکھے ہوئے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی
ہے۔ صحابہ نے کہا وہ اس عالم فانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ چنانچہ حضرت علی ؓ
کی ہدایت پران کی تجہیز و تکفین کی گئی اور جنگ احدکے سید الشہداءحضرت حمزہ
رضی اللہ عنہ کے قریب انہیںدفن کر دیا گیا۔
(ماخوذ معارج النبوت فی مدارج الفتوة) |