|
|
ڈرامہ دیکھنے والی زیادہ تر ناظرین میں خواتین ہوتی ہیں
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں زیادہ تر ایسے ڈرامے بنائے جاتے ہیں جن کے
موضوعات گھریلو ہوتے ہیں اور گھریلو مسائل کے گرد گھومتے ہیں مگر اس کے
ساتھ ساتھ کچھ خاص لوگ جو دل کے قریب ہوتے ہیں ان کے ڈرامے لوگوں کو ٹی وی
اسکرین کے قریب لے آتے ہیں ۔ |
|
ڈرامہ پردیس بھی ایک ایسا ہی ڈرامہ تھا جس کی مصنفہ ثروت
نزیر جو اس سے قبل دو پل اور میں عبدالقادر ہوں جیسے مشہور ڈرامے تخلیق کر
چکی ہوں اس کے بعد مرینہ خان کی ہدایت کاری، سرمد گھوسٹ اور شائستہ کی
موجودگی نے اس ڈرامے کو نشر ہونے سے قبل ہی ناظرین کو اپنے جادو سے مسحور
کر دیا تھا- |
|
اس کے بعد اس کی کہانی ایک متوسط طبقے کی کہانی تھی جو
ہر ایک کو اپنے گھر کی کہانی محسوس ہوئی۔ عوام میں یہ ڈرامہ بہت پسند بھی
کیا جا رہا ہے اور اس کی مقبولیت میں بھی دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے-
مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ سوال بھی ہیں جو کہ عوام کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں
اور وہ حقیقت سے بہت دور نظر آرہے ہیں- |
|
شائستہ کی معصومیت |
اس ڈرامہ میں شائستہ نے سرمد کھوسٹ کی بیوی کا کردار ادا
کیا ہے جس کے میکے میں کوئی بھی موجود نہیں ہے اس وجہ سے وہ بہت کمزور
دکھائی گئی ہیں۔ اور ان کی مظلومیت کو دکھانے میں ڈرامے کی مصنفہ نے ہر حد
پار کر دی جن میں سے کچھ مناظر کا حوالہ ہم آج آپ کو دیں گے- |
|
|
|
ڈرامے کے ایک سین میں جب کہ شائستہ کے شوہر کے باہر جانے
کے بعد جب گھر کے سب لوگ باہر گئے ہوتے ہیں اور ان کی بیٹی کھانا مانگتی ہے
تو گھر میں سالن خراب ہو چکا ہوتا ہے- اور ان کے پاس اپنی بیٹی کو کھلانے
کے لیے کچھ نہیں ہوتا ہے اور وہ اپنی دیورانی کے لیے منگوائے گئے پھل اپنی
بیٹی کو کاٹ کر کھلا دیتی ہیں جس پر انہیں ان کی دیورانی سخت سست کہتی ہے- |
|
جبکہ اسی ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ باورچی خانے کا
سارا کام شائستہ خود کرتی ہیں تو کیا وہ اتنی مجبور ہیں کہ اپنی بیٹی کو
ایک پراٹھا تک نہیں بنا کر دے سکتی تھیں؟ |
|
بھائی کو دکان کے لیے پیسے دے دیے مگر حساب کوئی نہیں |
اس ڈرامے میں سرمد کھوسٹ کو ایک ایسے انسان کے طور
پر دکھایا گیا ہے جو کہ باہر ملک میں کام کر کر کے پیسے گھر بھجوا رہا ہے
اس کے علاوہ بھائی کو کاروبار کے لیے دکان بھی خرید کر دی- لیکن اتنا نہیں
کیا کہ یہ دیکھ لے کہ اس دکان میں اس کے بھائی نےاس کا کوئی حصہ بھی رکھا
یا نہیں- اتنا معصوم اس دور میں سرمد کھوسٹ کے علاوہ اگر کوئی ہو تو بتائیں؟ |
|
|
|
بیمار کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا رواج نہیں ہے
|
حالیہ قسطوں میں یہ دکھایا گیا ہے کہ سرمد کھوسٹ پردیس
چھوڑ کر واپس آگئے ہیں اور ان کے پردیس جانے کے سبب ان کی زندگی کے بہت
سارے پل ان کے گھر والے ان کے بغیر گزار چکے ہیں ان کو اب ان کے بغیر جینے
کی عادت ہو گئی ہے- سرمد کھوسٹ کے وطن واپسی کی وجہ ان کی بیماری دکھائی
گئی ہے اور ان کو جسمانی طور پر بہت کمزور دکھایا گیا ہے اور اپنی بیماری
کے ثبوت کے طور پر وہ کھانستے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں- |
|
مگر اس گھر میں ان کی بیگم سمیت کوئی فرد اس حوالے سے اس
بات کی کوشش کرتے ہوئے نظر نہیں آرہا ہے کہ ان کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے جا
کر ان کی اس بیماری کی وجہ معلوم کی جائے ۔ کیا ایسا کہیں ہوتا ہے کہ گھر
کے ایک بیمار شخص کو جو کہ گھر کا سربراہ بھی ہو رفتہ رفتہ موت کے منہ میں
جاتا دیکھا جائے اور اس بات کا انتظار کیا جائے کہ وہ کب موت کو گلے لگاتا
ہے؟ |
|
|
|
ایک اچھی اورمضبوط کہانی میں اس قسم کی بنیادی غلطیاں
دیکھنے والے پر برا تاثر ڈالتی ہیں اس وجہ سے ڈرامہ پردیس کی پوری ٹیم کو
چاہیے کہ مظلومیت کو بیان کرتے ہوئے اس حد کا خیال ضرور رکھا جائے جو کہ
حقیقت سے قریب تر ہو- |